کیا امن معاہدہ کرنے پر ٹرمپ کو نوبیل انعام سے نوازا جائے گا؟
20 جنوری کو جس لمحے ڈونلڈ ٹرمپ نے 47ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو ان کی وائٹ ہاؤس واپسی نے دنیا کی تقدیر بدل دی۔ گمان ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے کوئی ٹیرو کارڈ نکالا جس نے دنیا کے مستقبل کی پیش گوئی کردی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرو کارڈ میں سورج ہے جس کا مطلب دنیا کا مستقبل ’مثبت، کامیاب اور متحرک‘ ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس دنیا کے دیگر ممالک کے رہنماؤں کے ٹیرو کارڈز میں شعلوں میں دہکتا ٹاور ہے جوکہ ’ہلچل، صدمے، اچانک تبدیلی اور افراتفری‘ کی پیش گوئی کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ علم نجوم یا ٹیرو کارڈ جیسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ تو خدا پر یقین رکھتے ہیں جس نے انہیں قاتل کی گولی سے بچایا اور حیران کُن مینڈیٹ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں پہنچایا۔ خواتین مخالف نظریات رکھنے والے ٹرمپ اکثر دو خواتین امیدواروں، کاملا ہیرس اور ہیلری کلنٹن کو صدارتی انتخابات میں شکست دینے پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔
ٹرمپ کے قدموں میں پوری دنیا ہے۔ اور اگر آپ ان کے بیانات کو سنجیدگی سے لیں تو وہ اپنے مقاصد کے لیے دنیا کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ گویا وہ اپنے قدموں میں موجود دنیا سے فٹبال کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تمام امریکی چاہے ان کا تعلق کسی بھی پس منظر سے ہو، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ امریکا کو اتنا عظیم تر بنائیں گے کہ ان کے حریف خار کھائیں گے۔ حریف ممالک کو ٹرمپ نے ’طاقت کے ذریعے امن‘ قائم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ یہ تصور نیا نہیں۔ یہ ہزاروں سال قبل روم کے شہنشاہ ہیڈری کے مشہورِ زمانہ جملے ’خوش اخلاقی کے ذریعے امن‘ سے ماخوذ ہے۔ اور اب ٹرمپ بار بار یہ جملہ دہراتے نظر آتے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی رہنماؤں نے اس تصور کو ’جنگ کے ذریعے امن‘ میں تبدیل کردیا اور فوجی طاقت کے استعمال سے امن کے قیام کی کوششیں کیں جس کی مثال عراق، افغانستان اور یوکرین ہیں۔
2022ء میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے امریکا نے یوکرین کے دفاعی نظام پر 175 ارب ڈالرز خرچ کیے ہیں۔ یہ پوری رقم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کی جیبوں میں نہیں گئی۔ کونسل آن فارن ریلیشنز نے انکشاف کیا ہے کہ اس امداد کا زیادہ تر حصہ، 70 سے زائد امریکی شہروں میں امریکی سرگرمیوں اور دفاعی صنعت کاروں پر خرچ ہوتا ہے۔ یعنی اس رقم سے بڑے پیمانے پر امریکا کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
امریکی اخبار کے ناشر ولیم ہرسٹ کا مشہورِ زمانہ جملہ ہے، ’آپ تصاویر فراہم کریں، میں جنگ کے بارے میں چھاپوں گا‘، یعنی ان کے قول کا مفہوم لیا جاتا ہے کہ اگر لوگ تنازعات پیدا کریں گے تو وہ اخبارات میں انہیں شائع کریں گے۔ اگر اس معاملے میں دیکھا جائے تو یوکرین کے ذریعے جنگ سے متعلقہ مواد مل رہا ہے کیونکہ امریکی فوج اور 40 سے زائد نیٹو کے ممالک ہتھیار فراہم کرکے اس جنگ کو بھڑکا رہے ہیں۔
چین کی امریکا کے ساتھ صرف عسکری نہیں بلکہ ایک مختلف نوعیت کی جنگ ہے۔ باحیثیت صدر پہلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک منفی قدم اٹھایا۔ انہوں نے 2021ء میں اپنے پیش رو جو بائیڈن کا دستخط کردہ صدارتی حکم نامہ معطل کردیا۔ اس حکم نامے کے تحت 2030ء تک امریکا میں فروخت ہونے والی تمام نئی گاڑیوں میں سے نصف کا الیکٹرک ہونا ضروری قرار دیا گیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مؤقف پر ڈٹے ہیں جنہوں نے کہا کہ ’امریکا اپنی صنعتیں برباد نہیں کرے گا جبکہ چین کو آلودگی پھیلانے میں استثنیٰ حاصل ہے‘۔ اس بیان کے باوجود انہوں نے اعتراف کیا کہ ’میں الیکٹرک گاڑیوں کے حق میں ہوں، مجھے حق میں ہونا پڑا کیونکہ ایلون مسک نے میری بھرپور حمایت کی ہے‘۔
دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے خود کو ڈونلڈ ٹرمپ کا قریب ترین ساتھی قرار دیتے ہیں اور ٹرمپ کے ساتھ ان کی قربت کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں۔ اب یہ آنے والے سال بتائیں گے کہ کون کس کی مٹھی میں ہے۔ دوسری جانب ایلون مسک اس بات کا جشن منا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مریخ پر انسان بھیجنے کے ان کے عزم کی حمایت کی ہے (دلچسپ یہ ہے کہ قدیم رومن روایات میں مریخ کو جنگ کا سیارہ قرار دیا جاتا ہے)۔
مریخ پر قدم رکھنا اتنا بھی ناممکن نہیں کہ جتنا تصور کیا جاتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں امریکا نے 1969ء کے اختتام تک چاند پر انسان بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ 1961ء میں سوویت یونین نے اپنے خلا باز یوری گاگرین کو ووستوک راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیج کر امریکی عزم کِرکِرا کردیا۔ تاہم سوویت یونین یہ دوڑ نہیں جیت سکی کیونکہ ڈیڈلائن سے قریب جولائی 1969ء میں دو امریکی خلاباز چاند پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ زمین پر امن لائیں گے؟ غزہ یا یوکرین، کون سا امن معاہدہ طے کرنے کے بدلے انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا جائے گا؟ (اقتدار میں آنے کے 8 ماہ سے بھی کم عرصے میں 2009ء میں امریکی صدر باراک اوباما کو امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا)
بہت سے ممالک ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسیز مقاصد کے تحت اپنی خارجہ پالیسیز کو ترتیب دیں گی۔
پاکستان کو بھی بہت جلد ایسا کرنا ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے محض یہ دعویٰ کافی نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے لیڈر کو جیل سے باہر لانا چاہتے ہیں، نہ پاکستان پیپلز پارٹی کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے چیئرمین کو تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا۔
تاریخ دان اس کی تصدیق کریں گے کہ نومبر 1963ء میں جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد صدر ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اظہار تعزیت کے لیے واشنگٹن بھیجا۔ بھٹو نومنتخب امریکی صدر لِنڈن جانسن کے ساتھ ایک مصافحے سے مطمئن نہیں ہوئے اور انہوں نے صدر سے ملاقات کا تقاضا کیا جس کے لیے انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایوب خان کا ایک اہم پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اپنے مصروف شیڈول کے باوجود امریکی صدر نے وقت نکالا اور 29 نومبر کو ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی۔
لنڈن جانسن کے عملے نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ بھٹو باتوں کو طول دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ملاقات میں جانسن خوب مایوس ہوئے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے بار بار پاکستان کی امریکا کے ساتھ وفاداری نبھانے کے بارے میں بات کی۔ اُکتا کر لنڈن جانسن نے بھٹو کی سرزش کرتے ہوئے کمیونسٹ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر طنز کیا۔
آج ہم ایک بار پھر مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ ہم پہلے بھی ناپسندیدہ تھے اور اب بھی نا پسندیدہ ہیں۔ 70 کی دہائی میں نکسن اور چین کا رومانس یاد رفتہ بن چکا۔ ہمیں نئے حالات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہم سے زیادہ طاقتور ہاتھ ہمارے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔