• KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:16am
  • LHR: Fajr 5:34am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:07am
  • KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:16am
  • LHR: Fajr 5:34am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:07am

’ٹرمپ کے مبہم بیانات سے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا مستقبل بے یقینی کا شکار‘

شائع January 27, 2025

نومنتخب امریکی صدر نے غزہ میں جنگ بندی پر زور دیا اور پھر فیصلہ کُن سفارتکاری کرتے ہوئے اسے ممکن بنایا لیکن اب جنگ بندی سے متعلق ان کے مبہم بیانات کہ امن معاہدہ قائم رہے گا نہیں، پریشان کُن ہیں۔

صدارتی دفتر سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ سے امن معاہدے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کتنا عرصہ قائم رہےگا، اس پر وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے اور ساتھ ہی زور دیا کہ ’یہ ہماری جنگ نہیں، ان کی جنگ ہے‘۔ ان کے اس بیان نے لوگوں کو تذبذب میں مبتلا کیا ہے کیونکہ وہ تو 15 ماہ بعد ہونے والی جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لے رہے تھے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کی تقریبِ حلف برداری سے قبل یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو ’مشرقِ وسطیٰ جہنم بن جائے گا‘۔

اسی دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی مندوب اسٹیو ویٹکوف نے اعلان کیا کہ وہ ’نگران ٹیم‘ کے ہمراہ جلد خطے کا دورہ کریں گے اور جائزہ لیں گے کہ دونوں فریقین جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنا رہے ہیں یا نہیں۔

مغربی کنارے کے اسرائیلی آبادکاروں پر پابندیاں اٹھا کر ٹرمپ انتطامیہ نے غزہ امن معاہدے کے حوالے سے مبہم اشارہ دیا ہے۔ گزشتہ سال بائیڈن انتظامیہ نے فلسطینی دیہاتیوں پر آبادکاروں کے پُرتشدد حملوں کی وجہ سے پابندیاں عائد کی تھیں۔ پابندیاں اٹھانے کا صدارتی فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب اسرائیلی آبادکار فوج کی سرپرستی میں فلسطینیوں پر حملہ کررہے تھے اور ان کی املاک کو نذرآتش کررہے تھے۔

مغربی کنارے پر اسرائیلی حملوں میں شدت آئی ہے جبکہ جنین پناہ گزین کیمپ پر چھاپے مارے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اہلکاروں کے مطابق 2 ہزار خاندانوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے کیمپ میں پناہ لی لیکن وہ کیمپ بھی مسلسل چھاپوں کی وجہ سے ’تقریباً ناقابلِ رہائش‘ ہوچکے ہیں۔

پابندیاں اٹھانے کے ایک دن بعد اسرائیل نے مغربی کنارے میں آئرن وال نامی ’وسیع‘ فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اسرائیل محسوس کررہا ہے کہ پابندیاں اٹھا کر واشنگٹن نے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کے اقوامِ متحدہ کے نئے ایلچی ایلیس اسٹیفانیک نے کانگریس کو بتایا کہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے پر قبضے کا حق بائبل نے دیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے ماہرین، مغربی کنارے پر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا مقصد غزہ جنگ بندی سے توجہ ہٹانا قرار دیتے ہیں جس کی بن یامن نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں نے شدید مخالفت کی تھی۔ ان کے خیال میں حکومت دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے اور جنگ بندی معاہدہ درحقیقت ناکامی ہے۔ تاہم کابینہ اراکین نے یہ نظرانداز کردیا کہ اسرائیل کے چھاپوں اور ڈرون حملوں کا آغاز جنگ بندی سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔

یہ صرف ایک خلفشار نہیں بلکہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اسرائیل کا مقصد بلآخر مغربی کنارے کا الحاق ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس مقصد کے لیے اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں جگہ بنانے والے بہت سے عہدے داران بشمول مائیک ہکابی جنہیں اسرائیل میں اگلے امریکی سفیر کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، نے بھی عوامی طور پر مغربی کنارے پر اسرائیل کے دعوے کی حمایت کی ہے۔

اگر اسرائیل نے مغربی کنارے کو ضم کیا تو کبھی بھی ایک آزاد فلسطین ریاست کا قیام ممکن نہیں ہوسکے گا جبکہ دو ریاستی حل کا تصور بھی ختم ہوجائے گا جس کے حوالے سے دنیا میں بڑے پیمانے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی دو ریاستی حل کے حق میں ہیں۔

امریکا اب بھی باضابطہ طور پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے تاہم ٹرمپ نے اس کی توثیق سے گریز کیا ہے جبکہ بنیامن نیتن یاہو تو اسے بارہا مسترد کرچکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے ڈیووس اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ مغربی کنارے کا الحاق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔

دوسری جانب غزہ میں فلسطینی اپنے تباہ حال گھروں کی جانب واپس آرہے ہیں تو اب نقصانات واضح ہورہے ہیں۔ مسمار عمارتوں کے ملبے تلے مزید شہدا کی لاشیں برآمد ہورہی ہیں۔ 15 ماہ کی جنگ میں 47 ہزار افراد شہید ہوئے جبکہ اب شہدا کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جہاں بنیادی خدمات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے مگر زندگی آہستہ آہستہ لوٹ رہی ہے۔ انسانی امداد فوری طور پر پہنچائی جارہی ہے لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی اور بحالی کی کوششوں کی ضرورت ہوگی جبکہ وسائل اور دیرپا امن کے بغیر غزہ کی بحالی ممکن نہیں۔

اب تک جنگ بندی قائم ہے لیکن اس عمل میں سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ 6 ہفتوں پر مشتمل ہے جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا جوکہ اس وقت مرحلہ وار جاری ہے۔ اسرائیلی افواج کو فلسطینی آبادی والے علاقوں سے نکلنا ہوگا اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دینا ہوگی۔

پہلے مرحلے کو 16 روز گزر چکے ہیں، اب دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات زیادہ دشوار ہوں گے۔ قیدیوں کے تبادلے کے درمیان اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا عمل میں آچکا ہے جبکہ جنگ کے خاتمے پر مکمل اتفاق ہوچکا ہے۔ تیسرا مرحلہ غزہ کی تعمیر نو پر مرکوز ہوگا۔ اس بارے میں خدشات ہیں کہ کیا جنگ بندی پہلے مرحلے تک قائم رہے گی؟ کیا دونوں فریق دوسرے مرحلے میں دیرپا جنگ بندی پر متفق ہوسکیں گے اور اس پر قائم رہیں گے؟

جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے امریکا کے عزائم اور اس کا کردار معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔ امریکا، قطر اور مصر کے ساتھ معاہدے کا ثالث ہے۔ جب تک امریکا اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالے گا تب تک امن معاہدے کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہے۔ حلف برداری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان کسی صورت بھی حوصلہ افزا نہیں۔

جیسا کہ بہت سے تجزیہ کار کہہ چکے ہیں کہ وہ 2020ء کے ابراہم معاہدے کو مزید آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اقدام جو انہوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں لیا تھا جس کے تحت عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظریں اب سعودی عرب پر جمی ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ سعودی عرب کو ابراہم معاہدے پر دستخط کے لیے آمادہ کرلیں گے۔ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سعودی عرب نے بات چیت کے عمل کو روک دیا تھا۔

سعودی قیادت نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل جسے ولی عہد محمد بن سلمان نے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا ہے، اس کے ساتھ تعلقات فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ کیا یہ فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹرمپ پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی ہوگا جس کے لیے انہوں نے کبھی زیادہ تشویش ظاہر نہیں کی جوکہ بے یقینی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں پائیدار استحکام آزاد فلسطینی ریاست کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

فی الحال مشرقِ وسطیٰ کا امن بے یقینی کا شکار ہے۔ مغربی کنارے کے الحاق کی اسرائیل کی کوئی بھی کوشش معاہدے کو توڑ سکتی ہے۔ اسی طرح اگر اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی شرائط سے پیچھے ہٹتا ہے تو دوبارہ جنگ چِھڑ سکتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 29 جنوری 2025
کارٹون : 28 جنوری 2025