• KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 6:56am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:06am
  • KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 6:56am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:06am

سوات کی روایتی اور منفرد غذا ’گونگڑی‘

فلک بوس پہاڑوں اور گنگناتی آبشاروں کے لیے جانے جانے والے سوات کی ایک اور خصوصیت 'گونگڑی' ہے جو یہاں کی مرغوب ترین غذا ہے۔
شائع January 30, 2025

سوات اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے نہ صرف اندرونِ ملک مشہور ہے بلکہ بیرون ممالک میں بھی یہ فلک بوس پہاڑوں، الپائن جھیلوں، گھنے جنگلات، گنگناتی آبشاروں، میٹھے پانی کے جھرنوں اور بل کھاتی ندیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔

سوات پھلوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں موسمیاتی تبدیلی سے پہلے 18 یا 20 قسم کے سیب پیدا ہوتے تھے اور آڑو کی بھی اتنی ہی اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ اس طرح یہاں کی ہر قسم کی سبزیوں کی پورے ملک کی منڈیوں میں مانگ ہے۔

اس طرح بات کی جائے روایتی کھانوں کی تو سوات کے ’ورجلے‘ (جسے چکانڑ اور ساگونڑے بھی کہتے ہیں)، ’لیٹئی‘، ’دوڑو ڈوڈئی‘ (چاول کے آٹے سے بنی روٹی)، ’داوگکو ڈوڈئی‘ اور ’گونگڑی‘ ایسے کھانے ہیں جنہیں ہم بجا طور پر سوات کے روایتی کھانے یا غذائیں کہہ سکتے ہیں۔

گونگڑی کیا ہے؟

گونگڑی دراصل 6 یا 7 قسم کی اجناس سے تیار ہونے والی غذا ہے جس میں اہم اجزا مقامی لوبیا اور گندم شامل ہوتے ہیں۔ دیگر اجناس میں کالا چنا، مٹر (چھوٹا اور کالا دانہ) وغیرہ شامل ہیں۔

  اسے مختلف اجناس سے تیار کیا جاتا ہے—تصویر: لکھاری
اسے مختلف اجناس سے تیار کیا جاتا ہے—تصویر: لکھاری

سوات میں گونگڑی بیچنے والے اس میں مرغی کی یخنی بھی ڈالتے ہیں۔ گونگڑی کا مزہ دوبالا کرنے کے لیے اس میں گونگڑی کے لیے تیار کردہ خاص مسالہ، پسی ہوئی لال مرچ اور سرکہ ڈالا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس کے ساتھ تمبر (جسے پشتو میں ڈمبرہ کہتے ہیں) بھی حسبِ ذائقہ استعمال کرتے ہیں۔

  پسی لال مرچ، گونگڑی کے لیے تیار ہونے والا خاص مسالہ اور نمک—تصویر: لکھاری
پسی لال مرچ، گونگڑی کے لیے تیار ہونے والا خاص مسالہ اور نمک—تصویر: لکھاری

سوات میں عام طور پر گونگڑی ایک بڑے پیالے جسے ہم پشتو میں ’کنڈولے‘ کہتے ہیں، میں کھانا پسند کی جاتی ہے۔ آج کل ایک پیالہ گونگڑی کی قیمت 30 روپے ہے۔

  سوات کا مقامی گونگڑی فروش گاہک کو پیالہ پیش کررہا ہے—تصویر: لکھاری
سوات کا مقامی گونگڑی فروش گاہک کو پیالہ پیش کررہا ہے—تصویر: لکھاری

درج بالا اجزا دراصل کاروباری سطح پر بیچے جانے والے گونگڑی میں استعمال ہوتے ہیں۔ روایتی گونگڑو کے حوالے سے سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کی رہائشی 70 سالہ خاتون، بختِ زہرا کہتی ہیں کہ ’اللہ بخشے، میری ماں کے ہاتھ کی تیار کردہ گونگڑی کا ذائقہ ہر اعتبار سے منفرد ہوتا تھا۔ وہ ایک بڑے برتن میں پانی ڈالتیں۔ اس میں لوبیا، گندم، مٹر (جس کا دانہ چھوٹا اور کالا ہوتا ہے) اور مکئی کے دانے ڈالتیں اور اسے چولہے پر چڑھا دیتیں۔ ہر 10، 15 منٹ بعد برتن سے سر اُٹھاتیں۔ مذکورہ آمیزے کو لکڑی کے بڑے چمچ سے ہلاتیں۔ گونگڑی تیار ہونے تک مذکورہ عمل بار بار دُہراتی رہتی تھیں۔ یہ غذا تیار ہوتی تو جنگلی پودینہ (جسے پشتو میں وینلے کہتے ہیں) ڈالتیں تاکہ نظامِ ہاضمہ برقرار رہے‘۔

بختِ زہرا کہتی ہیں کہ ’ہم خرمہ و ہم ثواب‘ کے مصداق گونگڑی کھائی بھی جاتی ہیں اور ثواب بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ بتاتی ہیں، ’ماں (مرحومہ) ماہ محرم کی حرمت سے آگاہ تھیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں محرم کی 9ویں تاریخ کو گونگڑی اہتمام کے ساتھ تیار کرتیں اور محلے کے گھروں میں نمازِ عصر اور مغرب کے درمیان والے وقفے میں چھوٹے چھوٹے برتنوں میں ہم لڑکیوں کے ہاتھوں تقسیم کرواتیں۔ محرم کے مہینے کی 9ویں تاریخ کو امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی یاد میں گونگڑی پورے محلے کی عورتیں تیار کرتیں اور محلے ہی کے گھروں میں تبرک کے طور پر تقسیم کرتی تھیں‘۔

  مقامی بزرگ گونگڑی کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں—تصویر: لکھاری
مقامی بزرگ گونگڑی کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں—تصویر: لکھاری

اس حوالے سے سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں کہ 9ویں محرم کو گونگڑی کا گھروں میں تقسیم ہونے کا عمل انہیں آج بھی یاد ہے۔ ’9ویں محرم کو گونگڑی کی تقسیم کا عمل گھروں میں تبرک کے طور پر ہوتا تھا جبکہ 10ویں محرم کو شربت تقسیم کیا جاتا تھا۔ شربت کے اجزا میں پانی، خالص دودھ، پسا ہوا کھوپرا اور چینی شامل ہوتی تھی۔ لڑکوں یا چھوٹی بچیوں کو بھرا ہوا جگ دو تین گلاسوں کے ساتھ تھمایا جاتا اور گلی سے ہر گزرنے والے کو تبرک کے طور پر ایک گلاس لبالب شربت پلایا جاتا تھا‘۔

سوات ہی کے ایک اور صحافی فضل خالق کہتے ہیں کہ جب سوات الگ ریاست ہوا کرتا تھا، اس دور میں مذکورہ شربت 10ویں محرم کے علاوہ نکاح کی تقاریب میں بھی شرکا میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

قارئین کے لیے دلچسپ بات یہ ہے کہ اہلِ سوات سنی مسلمان ہیں مگر ریاستی دور سے سوات کے باسی 9ویں اور 10ویں محرم کو عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔

سوات میں اہلِ تشیع آبادی نہ ہونے کے حوالے سے سوات کے معتبر مورخ ڈاکٹر سلطان روم کہتے ہیں کہ ’سوات کے اصل باشندوں میں ریاستی دور میں بھی کوئی شیعہ نہیں تھا ۔ ریاستی دور میں اگر کوئی شیعہ تھا تو وہ بھی باہر سے آیا ہوا ہوگا اور آج بھی اگر کوئی ہے تو وہ کسی اور علاقے سے یہاں آکر بسا ہوگا‘۔

گونگڑی: ایک منافع بخش کاروبار

جہاں تک گونگڑی کی بات ہے تو یہ غذا سوات کے علاقوں میں بنتی اور فروخت کی جاتی ہے اور یہ اہلِ سوات کی مرغوب ترین غذاؤں میں سے ایک ہے۔ منگلور پل اور چارباغ پل کے ساتھ اسے فروخت والوں کی کوئی مثال نہیں۔ مذکورہ پوائنٹس پر بیٹھنے والے بھائی ہیں۔

  سوات میں گونگڑی کی فروخت منافع بخش کاروبار ہے—تصویر: لکھاری
سوات میں گونگڑی کی فروخت منافع بخش کاروبار ہے—تصویر: لکھاری

  مقامی لوگ شوق سے گونگڑی کھاتے ہیں—تصوری: لکھاری
مقامی لوگ شوق سے گونگڑی کھاتے ہیں—تصوری: لکھاری

گونگڑی کے ساتھ میری بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ ہمارے محلہ ڈن (مینگورہ، سوات) میں ایک جوان پر نسوانیت کا غلبہ تھا۔ اہلِ محلہ اسے ’بدگئی‘ (پشتو میں خواجہ سرا کے لیے تصغیر کے طور پر استعمال ہونے والا لفظ) کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اس کی تیار کردہ گونگڑی لاجواب ہوتی تھی۔ وہ ہم سے عمر میں تین یا چار سال چھوٹا تھا، مگر بہت جلدی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ لڑکے آکر گونگڑی آرڈر کرتے اور ذو معنی الفاظ کا استعمال کرکے اس کو تنگ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے مگر پروردگار نے اُس لڑکے کو بلا کا ظرف دیا تھا۔ وہ طنز کا جواب ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دیا کرتا تھا۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں لنڈیکس جانے والی سڑک نما گلی جو مرکزی بازار سے سیدھی نیچے جاتے ہوئے چینہ بازار پر آکر ختم ہوتی ہے اور جس کے ایک سرے پر آج کل سروس شوز والی دکان ہے۔ اسی سڑک نما گلی میں ایک ادھیڑ عمر شخص 90 کی دہائی میں ایک چھوٹی سی ریڑھی لگا کر گونگڑی بیچا کرتا تھا۔ آج بھی ٹھیک اُسی مقام پر ایک لڑکا یہاں گونگڑی بیچتا ہے۔ شاید وہ اس آدمی کا بیٹا ہو مگر اس ادھیڑ عمر شخص کے تیار کردہ گونگڑی کا ذائقہ منفرد تھا۔

اس کے علاوہ تاج چوک (مینگورہ) میں عقیل اور گلشن چوک (مینگورہ) میں رفیع اللہ کے تیار کردہ گونگڑی کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔

  گونگڑی سوات کی سوغات ہے—تصویر: لکھاری
گونگڑی سوات کی سوغات ہے—تصویر: لکھاری

اس بات پر روزِ اول سے بحث ہوتی آرہی ہے کہ گونگڑی سوات کی خاص سوغات ہے مگر اس بات میں کتنی حقیقت ہے؟ اس حوالے سے میں نے تھوڑی سی تحقیق کی اور ملحقہ اضلاع میں دوستوں کو فون کیا تو پتا چلا کہ بونیر اور شانگلہ چونکہ ریاستِ سوات کا حصہ رہ چکے ہیں، اس لیے بونیر کے ہمارے صحافی دوست عزیز بونیری کے بہ قول، ’جب گندم کی فصل کاٹی جاتی ہے تو گھروں میں یہ غذا تیار کی جاتی ہے۔ 6 یا 7 سال قبل سواڑی بازار (بونیر) میں ایک شخص لوبیا، کچالو اور گونگڑی بیچا کرتا تھا جس کا میں چشم دید گواہ ہوں‘۔

ضلع شانگلہ کے وحید اللہ قرار کہتے ہیں کہ ’ہمارے شانگلہ میں الپورئی ٹیکسی اڈے کے قریب حافظ الپورئی گونگڑی کا ذائقہ بےمثال ہے۔ ہمارے گاؤں بیلکانئی میں بھی مجھے ایک شخص گونگڑی بیچتے ہوئے یاد ہے۔‘

شانگلہ ہی کے ڈاکٹر عطا الرحمن عطا کہتے ہیں کہ ’جتنا سفر میں نے کیا اور جتنا مجھے یاد ہے، سوات (ریاستِ سوات کی حدود) کے علاوہ کسی اور علاقے میں گونگڑی فروخت کرنے والے (دکاندار) مجھے یاد نہیں‘۔

  گونگڑی کے علاوہ دیگر علاقوں میں گونغری فروخت کرنے کا رواج معدوم ہوگیا ہے—تصویر: لکھاری
گونگڑی کے علاوہ دیگر علاقوں میں گونغری فروخت کرنے کا رواج معدوم ہوگیا ہے—تصویر: لکھاری

اس طرح ورتیر (دوبندے، تحصیل درگئی، ضلع ملاکنڈ) کے مرویز خان خٹک کہتے ہیں کہ 10 یا 15 سال قبل گھروں میں گونگڑی تیار کرنے کا رواج تھا جسے اب معدوم سمجھا جاسکتا ہے۔ ’نومولود کی پیدائش کے 7ویں دن گونگڑی گھر میں تیار کی جاتی اور محلے میں تقسیم کی جاتی تھی‘۔

دیر پائیں کے علاقہ اُوچ کے ہمارے ہمدمِ دیرینہ اکرام اللہ عارف جو مقامی اخبار کے ادارتی صفحے کے لیے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ’ہمارے علاقوں میں گونگڑی بیچنے والا تو کوئی شخص مجھے یاد نہیں۔ البتہ مجھے اپنا بچپن یاد ہے جب گھروں میں ہماری بڑی بوڑھی خواتین اسے تورہ غلہ کہتے تھے۔ آج کل یہ گونگڑی کے نام سے جانا جاتا ہے‘۔

ہوسکتا ہے کہ پڑھنے والوں کو عجیب لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ خالص پشتونوں کی تیارہ کردہ روایتی ’ریسیپی‘ ہے جو صرف پشتون علاقوں میں پکائی، کھائی اور فروخت کی جاتی ہے، اس لیے اردو میں اس کے لیے اب تک کوئی موزوں نام نہیں ہے۔ ہمارے سب ہی اردو بولنے والے دوست اس غذا کو گونگڑی ہی کے نام سے پکارتے ہیں۔

ملاکنڈ ڈویژن میں ضلع شانگلہ اور ضلع بونیر جو پاکستان کا حصہ بننے سے پہلے ’ریاستِ سوات‘ کا حصہ تھے، میں گونگڑی آج بھی تیار اور فروخت کی جاتی ہے مگر مذکورہ اضلاع میں اسے بنانے کا رجحان کم ہوچکا ہے۔ ان کے مقابلے میں موجودہ ضلع سوات میں یہ غذا تقریباً ہر علاقے میں پکائی، کھائی اور فروخت کی جاتی ہے۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔