محسن نقوی کا متنازع دورہِ امریکا اور پاکستان کی سفارتی سبکی
وفاقی وزیرِ داخلہ کے حالیہ دورہِ امریکا کی وجہ سے پیدا ہونے والا تنازع، ہمارے طرزِ حکمرانی بالخصوص خارجہ پالیسی میں موجود خرابیوں کو نمایاں کرتا ہے۔
محسن نقوی جو آج کل ہر جگہ نظر آتے ہیں، اس وقت واشنگٹن پہنچے کہ جب ملک اقتدار کی منتقلی کے عمل سے گزر رہا تھا۔ وہ یقیناً ان غیر ملکی شخصیات میں شامل نہیں تھے جنہیں تقریبِ حلف برداری کے لیے باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ دورانِ تقریب دارالحکومت میں ان کی موجودگی نے تمام طرح کی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
تاہم یہ اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ وہ امریکا سرکاری دورے پر گئے تھے یا نہیں۔ محسن نقوی نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ’امریکی سیاستدانوں کے تعاون سے انسدادِ دہشت گردی کا مؤثر منصوبہ تشکیل دینا تھا‘۔
بلاشبہ انہوں نے کانگریس اراکین سے ملاقات کی۔ لیکن ملاقات کے بعد دو قانون سازوں کی جانب سے ایکس پر شیئر کی گئی پوسٹ نے تاثر دیا کہ اس مسئلے پر شاید ہی کوئی سنجیدہ گفتگو ہوئی ہو بلکہ اس کے بجائے انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کی سزاؤں کے حوالے سے اظہارِ تشویش کیا۔
دلچسپ یہ ہے کہ پاکستان دفترِ خارجہ نے وزیر داخلہ کے ایسے دورہ امریکا سے لاتعلقی کا اعلان کیا جوکہ بہ ظاہر پاک-امریکا تعلقات سے منسلک تھا۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ وفاقی وزیر کے دورے سے دفتر خارجہ کا کوئی تعلق نہیں، جس نے یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے وقت محسن نقوی کو امریکا بھیجنے کا شاندار خیال آخر کس کا تھا؟
اگرچہ محسن نقوی کے مطابق وہ کانگریس رہنماؤں اور دیگر سے واشنگٹن میں دہشت گردی اور افغانستان کے مسئلے پر تبادلہ خیال کرنے گئے تھے لیکن ان مسائل کو نئی امریکی انتطامیہ سے تعلقات کے وسیع تر منظرنامے سے الگ کرکے دیکھا نہیں جاسکتا۔ دورے کے دوران انہوں نے نئی انتظامیہ سنبھالنے والے کسی بھی سینئر عہدے دار سے ملاقات نہیں کی۔
یہ تو واضح تھا کہ بیک وقت بہت سے عہدے سنبھالنے والے وزیر داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی، سفارت کاری کے شعبے میں کم عبور رکھتے ہیں۔ وہ ٹیم میں شامل نئے اور کم تجربہ کار کھلاڑی کی طرح ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست سرپرستی حاصل ہے۔ پیچیدہ خارجی امور سے متعلق ان کی سمجھ بوجھ کم ہے۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ان کی موجودگی نے ایک بڑے تنازع کو جنم دیا۔
محسن نقوی نے دعویٰ کیا کہ یہ نوجوانوں کی ایک تقریب تھی لیکن اس موقع پر ان کی تصاویر میں نظر آنے والے بینر پر ’نیو فیڈرل اسٹیٹ آف چائنا‘ لکھا نظر آیا جس نے ظاہر کیا کہ بیجنگ کی کمیونسٹ حکومت کو گرانے کے لیے سرگرم دائیں بازو کی لابی اس تقریب کے اسپانسرز میں سے ایک تھی۔ یہ محض ایک نادانستہ غلطی ہوسکتی ہے لیکن اس کوتاہی کی وجہ سے اسلام آباد کو بڑی سفارتی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس واقعے کی وجہ سے سب سے قریبی اتحادی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اہم سوال برقرار ہے کہ واشنگٹن میں ان کی سرگرمیوں سے متعلق منصوبہ بندی کس نے کی تھی؟ وزرا کے اتنے اہم غیر ملکی دوروں کی منصوبہ بندی انتہائی محتاط انداز میں کی جاتی ہے۔ کانگریس اراکین کے ساتھ ملاقات میں محسن نقوی کے ہمراہ پاکستانی سفیر بھی تھے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ متعلقہ تقریب میں پاکستانی سفیر شریک تھے یا نہیں۔
اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ چینی حکومت کے مخالف گروپ کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شدید تنازع پیدا ہوا۔ اس شرمندگی کی ذمہ داری وزیر داخلہ کے علاوہ کسی پر بھی عائد نہیں ہوتی۔ انہوں نے کسی واضح ایجنڈا کے بغیر اس وقت واشنگٹن کا دورہ کیا کہ جب پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات انتہائی حساس ہیں۔
ایک جانب ہمارے وزیر داخلہ واشنگٹن میں تھے جبکہ دوسری جانب امریکی قانون سازوں و انسانی حقوق کے کارکنان نے کپیٹل ہل میں ایک بریفنگ کے دوران پاکستان میں سیاستدانوں کے ملٹری ٹرائل اور اپوزیشن رہنماؤں پر ظلم و ستم روکنے کا مطالبہ کیا۔ یقیناً اس بریفنگ کا انعقاد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کی جانب سے کیا گیا ہوگا لیکن اس نے امریکا میں پاکستانی حکومت کے لیے بڑھتی ناخوشگوار صورت حال کی عکاسی کی۔
یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جاری اقتدار کی رسہ کشی بیرونی ممالک کو بھی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ سال درجنوں کانگریس اراکین نے اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن کو عمران خان کی رہائی سے متعلق خط لکھا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ امریکی کانگریس کے متعدد اراکین کی جانب سے ایسے رہنما کی رہائی کے لیے پہلی اجتماعی کال تھی جوکہ امریکی خارجہ پالیسی کے سخت ناقد رہ چکے ہیں۔
عمران خان کی القادر کیس میں حالیہ سزا اور پی ٹی آئی کارکنان کا فوجی ٹرائل، ان دونوں معاملات نے کپیٹل ہل کو ناخوش کیا ہے۔ وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کانگریس رہنما جو ولسن نے بتایا کہ انہوں نے محسن نقوی سے کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اسی صورت میں درست ہوں گے کہ جب پاکستانی ادارے قانون کی حکمرانی کا احترام کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
محسن نقوی سے ملاقات کے بعد ایک اور کانگریس رہنما نے بھی اسی طرح کا بیان دیا۔ اگر محسن نقوی کی ملاقات کا مقصد، پاکستانی حکومت کے حوالے سے امریکی قانون سازوں میں موجود جبر کے الزامات کی صفائی پیش کرنا تھا تو وہ اپنے اس مقصد میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں جوکہ کانگریس رہنماؤں کے بیانات سے واضح ہے۔
گمان ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاون خصوصی رچرڈ گرینل کی جانب سے کی گئی ایکس پوسٹ اور امریکی کانگریس رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے مطالبے پر اسٹیبلشمنٹ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی۔ شاید یہی وہ وجہ ہوسکتی ہے جس کی بنا پر نو منتخب ٹرمپ انتظامیہ سے روابط بنانے کے لیے وزیر داخلہ محسن نقوی کو واشنگٹن بھیجا گیا لیکن یہ کوشش بری طرح ناکام رہی۔
اس کام کے لیے نفیس نقطہ نظر کی ضرورت تھی۔ امریکا کے ساتھ کوئی روابط نہ ہونے اور سفارتکاری میں صفر تجربہ رکھنے والے محسن نقوی وہ آخری شخص ہونے چاہیے تھے جنہیں اس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ انہوں نے نئی امریکی انتظامیہ کے کسی عہدے دار سے ملاقات نہیں کی۔ ان کے دورے کا وقت بھی موزوں نہیں تھا۔
یقینی طور پر پاکستان کو نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے درست طریقہ اپنانا ہوگا۔ یہ وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک واضح پالیسی حکمت عملی تیار کرے۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کس کے ہاتھ میں ہے۔ دفتر خارجہ کا وزیر داخلہ کے دورے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس متنازع دورے نے پاکستان میں پالیسی سازی کے ناقص عمل کی عکاسی کی جس کا ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ خارجہ پالیسی کی بہتری کا آغاز اپنے گھر سے ہوتا ہے اور ہمیں اپنے اندرونی معاملات سدھارنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی طور پر ایک غیرمستحکم ملک جہاں قانون کی حکمرانی کا کوئی احترام نہیں، وہ عالمی سطح پر کبھی بھی خود کو معزز نہیں بنا سکتا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔