• KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:34pm
  • LHR: Maghrib 5:35pm Isha 6:58pm
  • ISB: Maghrib 5:36pm Isha 7:02pm
  • KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:34pm
  • LHR: Maghrib 5:35pm Isha 6:58pm
  • ISB: Maghrib 5:36pm Isha 7:02pm

’تم سب سے پہلے صہیونی، پھر اسرائیلی اور آخر میں ایک یہودی ہو۔۔۔‘

شائع January 29, 2025

اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخ کا علم ہوتا تو تباہ شدہ غزہ کی آبادی کے لیے ملبے کی صفائی اور بحالی کا عمل مکمل ہونے تک دیگر ممالک میں منتقل ہونے کا منصوبہ پیش نہ کرتے۔ ویسے وہ درست کہہ رہے ہیں، نسل کش اسرائیلی فوجی مہم جو امریکی عسکری اور سفارتی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی، کی مہربانی سے غزہ اس وقت ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کررہا ہے۔

وہ شاید انتہائی دائیں بازو کے غالب صہیونیوں کے مقاصد سے باخوبی واقف ہیں جو فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بےدخل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک ایسا ملک بنانے کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکیں جو صرف یہودیوں کے لیے ہوگا۔

ٹرمپ غالباً یہ نہیں جانتے کہ نازی کی پہلی ترجیح، یہودیوں کو بےدخل یا ڈی پورٹ کرنا تھی۔ لیکن یہ منصوبہ 1938ء میں فرانس کی ایوئین کانفرنس کے بعد تبدیل ہونا شروع ہوا جس میں مغربی ممالک بشمول امریکا اور برطانیہ کے نمائندگان نے یہودیوں کے لیے ہمدردی کا مظاہرہ تو کیا لیکن پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے خیال کی مخالفت کی۔

اس پیش رفت نے نازی کو یہودیوں کے مزید خلاف کردیا جبکہ ایڈولف ہٹلر اور ان کے ساتھیوں نے غیرملکی ناقدین کا مذاق بھی اڑایا کہ وہ خود اپنے کہے پر عمل در آمد نہیں کرتے۔ 1942ء کے آغاز میں وانسی کانفرنس میں نازی رہنماؤں نے ’حتمی حل‘ کے طور پر ایڈولف ہٹلر کے منصوبے کی مکمل حمایت کی جس کے تحت پورے یورپ میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس خوفناک عمل میں 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا جس نے یورپ کی آبادی کو یہ سوال کرنے پر مجبور کیا کہ انسانوں میں ہمدردی کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔ خیال رہے کہ نازی کا ہدف صرف یہودی نہیں تھے۔ پہلے انہوں نے کمیونسٹ حامیوں اور پھر سوشل ڈیموکریٹس اور ٹریڈ یونین کے اراکین کو نشانہ بنایا۔ نازیوں نے رومینی خانہ بدوش قوم کے خاتمے کا فیصلہ کیا پھر ہم جنس پرستوں اور اس کے بعد ذہنی معذوری کے شکار لوگوں کو بھی ہدف بنایا۔

آؤش وٹز حراستی کیمپ جہاں تقریباً 10 لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، یہی وہ مقام تھا جہاں نازیوں نے سب سے پہلے سوویت جنگی قیدیوں پر گیس چیمبرز استعمال کرنے کا تجربہ کیا تھا۔

اگر اسے ستم ظریفی کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ رواں ہفتے پیر 27 جنوری کو آؤش وٹز کو سوویت کی ریڈ آرمی کی جانب سے آزاد ہوئے 80 برس مکمل ہوئے۔ 1945ء میں قبضے سے چُھڑائی جانے تک زیادہ تر قیدی مارے جا چکے تھے جبکہ باقی میں سے بہت سے قیدیوں کو ڈیتھ مارچ پر روانہ کیا جا چکا تھا (قیدیوں و یرغمالیوں کو جنگ زدہ علاقوں میں جبراً پیدل سفر پر روانہ کردیا جاتا ہے جہاں ان کے مارے جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں)۔

سوویت فوج جب آئی تو بیمار اور انتہائی کمزور 7 ہزار قیدی حراستی مرکز میں موجود تھے۔ زندہ بچ جانے والوں میں اطالوی سائنسدان پریمو لیوی بھی تھے جنہوں نے ڈیتھ کیمپس کے اندرونی حقائق پر اپنی آپ بیتی تحریر کی۔ سوویت افواج جنہوں نے برلن جاتے ہوئے کیمپ دیکھا، اس کے بارے میں پریمو لیوی نے لکھا، ’انہوں نے ہمیں سلام کیا نہ ہمیں دیکھ کر مسکرائے۔ وہ ہمیں دیکھ کر صرف افسردہ نہیں تھے بلکہ وہ کسی مجرم کی طرح شرمندہ تھے کہ ایسا خوفناک جرم بھی ہوسکتا ہے‘۔

جب سوویت فوجیوں نے زندہ لاشوں کی مانند لوگوں کو ہزاروں لاشوں کے ساتھ دیکھا جنہیں دفنانے کی زحمت تک نہیں کی گئی تھی تو انسان کا یہ ردعمل فطرت کے عین مطابق تھا۔ ریڈ آرمی کے فیلڈ ہسپتالوں نے کچھ لوگوں کی جانیں بچا لیں لیکن طویل علالت کا شکار بہت سے بیمار قیدی پیچش، خناق، سرخ بخار اور دیگر بیماریوں سے مر گئے۔

’اف دس از اے مین‘ نامی کتاب پریمو لیوی کے حراستی کیمپ میں گزارے گئے 10 ماہ کی روداد ہے جسے ابتدائی طور پر توجہ نہ مل سکی لیکن 10 سال بعد اسے جب دوبارہ شائع کیا گیا تو اس نے ایک انتہائی اہم گواہی کی حیثیت اختیار کی۔

40 قبل شائع ہونے والے ایک اور ایڈیشن کے آخری صفحات میں انہوں نے مختلف سوالات کے جوابات دیے جن میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ ایک عام جرمن شہری کا اپنی حکومت کی کارروائیوں پر کیا ردعمل تھا۔ انہوں نے لکھا، ’بہت سے جرمن شہریوں کو نہیں پتا تھا کیونکہ وہ جاننا نہیں چاہتے تھے بلکہ حقیقت میں وہ اس بارے میں کچھ بھی جاننے کے خواہشمند نہیں تھے‘۔

کیا آج ہم اسرائیلیوں کے بارے میں یہی دعویٰ کرسکتے ہیں؟ بہت سی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ جن میں اسرائیلی میڈیا نے نسل کشی کو نظرانداز کیا ہے۔ یہ رپورٹس شاید سچ ہوں لیکن یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیے جانے والے اسرائیل کی آبادی عالمی میڈیا سے کیسے بچ سکتی ہے۔ ہاں یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب وہ دانستہ طور پر اسرائیلی اقدامات اور نازی نسل کشی کے درمیان مماثلت کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔

پیر کو پولینڈ میں آؤش وٹز کے مقام پر ہولوکاسٹ کے متعلق اسباق دہرائے گئے۔ فاشزم یورپ بھر میں سر اٹھا رہا ہے جبکہ حال ہی میں اس کی جھلک ہمیں امریکا میں نظر آئی۔ یہود دشمنی کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن اس کا مقابلہ صرف اس واضح اعتراف کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ صیہونیت اور نیتن یاہو کی حکومت کے فاشسٹ اقدامات کی مخالفت، یہود دشمنی نہیں ہے۔ درحقیقت یہ اسی قسم کے رویوں کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جن کا سامنا 1930ء کی دہائی کے یورپ میں یہودیوں نے کیا تھا۔

تازہ مثال نوم چایوٹ کی یادداشت ہے جوکہ ہولوکاسٹ کے واقعے کا قریب سے مشاہدہ کرچکے ہیں۔ وہ برین واشنگ کے عمل سے گزرے تھے جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ سب سے پہلے صہیونی، پھر اسرائیلی اور آخر میں ایک یہودی ہیں۔ جب وہ ’دنیا کی سب سے اخلاقی فوج‘ میں خدمات انجام دے رہے تھے تو مغربی کنارے کے ایک گاؤں میں ان کا سامنا ایک فلسطینی بچی سے ہوا جو دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی لیکن اس کے دوست بھاگ چکے تھے۔

نوم اس بچی کو دیکھ کر مسکرائے لیکن بچی نے ان کی مسکراہٹ کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے 12 سال قبل شائع ہونے والی اپنی کتاب ’دی گرل ہو اسٹول مائی ہولوکاسٹ‘ میں اعتراف کیا، ’جیسے ہی مجھے اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اس بچی کی نظر میں، میں برائی کا پیکر ہوں تو جس قسم کی برائی پر میں نے ہمیشہ سے یقین کیا، وہ ٹوٹ کر بکھرنے لگی‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 30 جنوری 2025
کارٹون : 29 جنوری 2025