ڈیپ سیک: مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکی بالادستی پر ایک دراڑ
اس وقت جب ہر طرف چینی اے آئی اسسٹنٹ ’ڈیپ سیک‘ کا چرچا ہے، ذہن میں اچانک ’بلیو اسکائی‘ کی بھولی بسری یاد تازہ ہوگئی۔
آپ کو بلیو اسکائی تو یاد ہوگا؟ کچھ ماہ قبل جب چند معتبر میڈیا ہاؤسز ایکس پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے دوری اختیار کر رہے تھے تو بلیو اسکائی نامی مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم یکدم توجہ کا محور بن گیا تھا۔ چند ہی روز میں اس کی مقبولیت آسمان پر پہنچ گئی اور اسے ایکس کا نعم البدل قرار دیا جانے لگا۔ ایکس پر عائد بندشوں کے باعث پاکستان میں بھی خوب غلغلہ ہوا۔ تمام بڑے انفلوئنسرز ادھر کا رخ کرنے لگے۔
آج جب ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو بلیو اسکائی ہمیں وقت کے نیلگوں آسمان پر گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سال 2024ء کے آخر تک جب بلیو اسکائی کے صارفین کی تعداد بہ مشکل 2 کروڑ تک پہنچی تھی، ایکس 55 کروڑ 50 لاکھ صارفین کے ساتھ دوڑ میں میلوں آگے دکھائی دیتا تھا۔
تو سوال یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی اور جیمنائی جیسے بڑے اور کامیاب اے آئی ماڈلز کی موجودگی میں ڈیپ سیک کیا اپنا جادو جگا سکے گا؟ اور اس سے بھی اہم یہ سوال ہے کہ اس چینی آئی اے چیٹ بوٹ کی آمد نے پوری دنیا میں کھلبلی کیوں مچا دی ہے؟
ڈیپ سیک کیا ہے؟
ڈیپ سیک دراصل مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی ہے جو مؤثر مشین لرننگ (Deep Learning) اور خودکار فیصلہ سازی (Automated Decision-Making) کے اصولوں پر کار فرما ہے۔ دیگر اے آئی چیٹ بوٹس کی طرح یہ بھی صارفین کے سوالات کے جوابات، چاہے وہ تکنیکی ہوں یا تحقیقی، ٹیکسٹ کے تجزیے اور تعامل کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ چینی کمپنی کے تخلیق کردہ اس اے آئی اسسٹنٹ نے اس صنعت میں امکانات کے نئے در وا کر دیے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے دیگر پلیٹ فارمز کی طرح ڈیپ سیک بھی آپ کے لیے کئی دلچسپ اور حیران کُن کام انجام دے سکتا ہے جیسے ریسرچ، دستیاب ڈیٹا کا تجزیہ اور اس ڈیٹا میں مخصوص پیٹرن کی تلاش۔ ساتھ ہی یہ آپ کے لیے متن یا مواد بھی تخلیق کرسکتا ہے جیسے مضامین، رپورٹس، ای میلز، خطوط یا پھر تخلیقی ادب جیسے نظمیں، گیت، افسانے، ناول وغیرہ۔ البتہ تخلیقی مواد میں انسانی جمالیات کا عنصر پوری طرح ظاہر نہیں ہوتا۔
ڈیپ سیک دیگر اے آئی ماڈلز کی طرح، کوڈنگ اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ میں بھی معاون ہے۔ یہ ذاتی نوعیت کی سفارشات کے لیے برتا جاتا ہے۔ صارفین اس سے بہترین فلموں کی فہرست مرتب کرنے کی درخواست کرسکتے ہیں، تعلیم یا کریئر سے متعلق مشورہ مانگ سکتے ہیں۔ یہ زبانوں کے تراجم میں بھی سودمند ہے۔ ماضی کے برعکس اب یہ اے آئی پلیٹ فارم اردو زبان سے بھی ہم آہنگ ہوگئے ہیں۔
ڈیپ سیک بامقابلہ جیٹ جی پی ٹی
ڈیپ سیک کو چیٹ جی پی ٹی اور جیمنائی جیسے پلیٹ فارمز سے کڑے مقابلے کا سامنا ہے۔ اس دوڑ میں جو شے ڈیپ سیک کو منفرد بناتی ہے، وہ اس کی تیاری پر آنے والی لاگت ہے جو دیگر چیٹ بوٹس سے کئی گنا کم ہے۔ یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ ’ڈیپ سیک‘ خودکار فیصلہ سازی کی صلاحیت میں اپنے حریفوں سے آگے ہے مگر ان دعووں کی تصدیق کرنا فی الحال دشوار ہے۔
کیا ڈیپ سیک چیٹ جی پی ٹی سے بہتر ہے؟ اگر آپ یہ سوال چیٹ جی پی ٹی سے کریں تو جواب آپ کو حیران کر دے گا۔ ہماری جانب سے جب چیٹ جی پی ٹی کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تو اوپن اے آئی کے اس ماڈل نے کچھ اس نوع کا موازنہ پیش کیا،
’چیٹ جی پی ٹی زبان پر مبنی ایک مصنوعی ذہانت کا ماڈل ہے جو قدرتی زبان کی پروسیسنگ (NLP) پر مرکوز ہے۔ یہ عمومی سوالات کے جوابات دینے، تخلیقی تحریر اور مختلف موضوعات پر بات چیت کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ ڈیپ سیک ایک زیادہ جامع مصنوعی ذہانت کا ماڈل ہے جو گہری مشین لرننگ اور مخصوص شعبہ جات (جیسے طب، تعلیم، اور بزنس) میں خودکار فیصلہ سازی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی عمومی استعمال کے لیے بنایا گیا ہے۔ ڈیپ سیک کی توجہ مخصوص صنعتوں میں کارکردگی اور نتائج کو بہتر بنانے پرمرکوز ہے۔ چیٹ جی پی ٹی تخلیقی، دوستانہ گفتگو کے لیے موزوں ہے جبکہ ڈیپ سیک ان شعبوں میں بہتر ہے جہاں پیچیدہ تجزیے اور خودکار فیصلوں کی ضرورت ہو جیسے طبی یا تعلیمی ماحول‘۔
ایک حریف کی جانب سے یہ ستائش یقینی طور پر ڈیپ سیک کے لیے خوش آئند ہے مگر یاد رہے کہ اس کے سامنے چیلنجز کی طویل فہرست ہے جن سے نبرد آزما ہونا آسان نہیں۔
اسی اثنا میں ہم نے چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے سوالات پوچھے اور جوابات کے تناظر میں ان دونوں چیٹ بوٹ کی کارکردگی میں کوئی واضح فرق نہیں۔
ڈیپ سیک کا بانی کون؟
یہ اے آئی اسسٹنٹ چینی کمپنی ڈیپ سیک کی تخلیق ہے جو وسیع اوپن سورس ماڈلز (LLM) تیار کرتی ہے۔ یہ کمپنی چین کے شہر ہانگژو میں واقع ہے۔ کمپنی کے بانی، لیانگ وین فینگ نے 2023ء میں اس کی بنیاد رکھی۔ لیانگ نے ژجیانگ یونیورسٹی سے مصنوعی ذہانت میں تعلیم حاصل کی۔ لیانگ وین فینگ ’ہائی فلائیر‘ نامی انویسٹمنٹ گروپ کے شریک بانی رہے چکے ہیں۔
ڈیپ سیک کی تشکیل کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ چین اپنا چیٹ جی پی ٹی طرز کا لینگویج ماڈل تیار کرے۔ الیکٹرانک انفارمیشن میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اے آئی کے میدان میں قدم رکھنے والے لیانگ وین فینگ آج پوری دنیا کی توجہ کا محور بنے ہوئے ہیں۔ اور ایسا بے سبب نہیں۔
امریکی اسٹاک ایکسچینج میں گراوٹ
2024ء کے آخر میں ڈیپ سیک نے اپنا چیٹ بوٹ لانچ کیا۔ جلد ہی یہ 50 سے زائد ممالک میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپ بن گیا۔ اب تک اینڈرائیڈ پر اسے 50 لاکھ بار ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے۔ اس مقبولیت کے اثرات ٹیکنالوجی کی دنیا کے بڑے سرمایہ کاروں کے شیئرز میں گراوٹ کی صورت ظاہر ہوئے۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں نشان دہی کی کہ ٹیکنالوجی کی معروف کمپنی این ویڈیا کی مالیت کا چھٹا حصہ جس کا حجم 500 ارب ڈالرز بنتا ہے، غائب ہو چکا ہے۔
اس کمپنی کے شیئرز میں 18 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ مائیکروسافٹ اور گوگل کی اسٹاک مالیت میں بھی گراوٹ ظاہر ہوئی۔ گو ابتدائی جھٹکے کے بعد ان شیئرز کی قیمتوں میں کچھ بہتری ریکارڈ ہوئی ہے۔ صورت حال کے پیش نظر امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انڈسٹری کو جاگنے کی تنبیہ کرنا بھی ضروری جانا۔
ڈیپ سیک کے ان اثرات کی کہانی سے وہ تنازعات بھی جڑے ہیں جو اس وقت سازشی نظریات کے دل دادہ افراد کے لیے ایندھن کا کام کر رہے ہیں۔
ڈیپ سیک سے جڑے تنازعات
ایک ایسے وقت میں جب امریکا جدید چپ ٹیکنالوجی کی چین تک رسائی محدود کرنے کے درپے ہے، ڈیپ سیک نے انتہائی کم لاگت میں یہ ٹیکنالوجی تیار کرکے اسٹیک ہولڈرز کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
کمپنی نے فقط 60 لاکھ ڈالرز میں ’ڈیپ سیک وی تھری‘ماڈل تیار کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ رقم حریف ماڈلز کی تیاری پر آنے والی لاگت سے کئی گنا کم ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گوگل کے جیمنائی الٹرا ماڈل کی مکمل تشکیل پر 19 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کی لاگت آئی تھی۔ یہی معاملہ چیٹ جی پی ٹی کا بھی رہا۔
’ڈیپ سیک‘ کے دعوے سے اس سازشی نظریے کو تقویت ملی کہ اے آئی ماڈلز کی تیاری پر آنے والی لاگت درحقیقت اس سرمایہ کاری سے کم ہے جس کا دعویٰ امریکی کمپنیاں کرتی آئی ہیں۔ گویا اس کا مقصد ٹیکنالوجی کو محدود رکھنا تھا۔
ٹیکنالوجی دیو، این ویڈیا کو ہونے والے نقصان کے پیچھے بھی ایک تنازع چھپا ہے۔ یہ کمپنی ایچ ہنڈرڈ نامی اسمارٹ چپ بناتی ہے جو اے آئی ٹولز کے لیے اہم گردانی جاتی ہے اور بیک وقت سیکڑوں انسانی ٹاسک سر انجام دے سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ایلون مسک نے کچھ عرصے قبل اپنے اے آئی چیٹ بوٹس کے لیے این ویڈیا کی ایک لاکھ اسمارٹ چپس استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
ایک طرف یہ چپ اے آئی ٹیکنالوجی کے لیے اہم ہے تو دوسری طرف امریکا کی جانب سے اس نوع کی جدید ٹیکنالوجی چین کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ایک مؤقف یہ ہے کہ چین میں مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے ادارے مسابقت کے بجائے مطابقت کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ حکومتی معاونت کی بھی بازگشت ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 2021ء میں جب امریکا نے چپس کی برآمدات پر پابندیوں کا اعلان کیا تو لیانگ نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے این ویڈیا اسمارٹ چپس کا ذخیرہ جمع کر لیا تھا۔
اپنے ایک انٹرویو میں ڈیپ سیک کے بانی نے اپنے اے آئی ماڈل پر آنے والے ردعمل کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ قیمتوں کا تعین اتنا حساس مسئلہ ہوگا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ مذکورہ کمپنی نے بلیک مارکیٹ یا کسی اور ذریعے سے اسمارٹ چپس حاصل کی ہیں۔ البتہ ڈیپ سیک ان قیاس آرائیوں کی تردید کرتی ہے۔
ڈیپ سیک کے ابتدائی R1 ماڈل کے اوپن سورس ہونے کے دعوے پر بھی اعتراضات سامنے آئے تھے۔ ساتھ ہی چند صارفین نے سینسر شپ اور چین سے متعلق محتاط رویے کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اگرچہ چپ کی فروخت پر پابندی جیسے چیلنجز موجود ہیں مگر ایک ایسے وقت میں جب حریف اے آئی ماڈلز 16 ہزار چپس استعمال کر رہے ہیں، ’ڈیپ سیک‘ نے محض دو ہزار چپس کی مدد سے اپنے ماڈلز ٹرین کرنے کا اعلان کرکے سیلیکون ویلی اور عالمی طاقتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ گو یہ دعویٰ ابھی متنازعہ ہے۔
ڈیپ سیک کا مستقبل
اگرچہ اعتراضات اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ’ڈیپ سیک‘ کمپنی کے بانی کو چین میں ایک ’اے آئی ہیرو‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس نے چپ کی فروخت پر پابندی اور امریکی مخالفت کے باوجود ٹیکنالوجی کی عالمی دنیا میں کھلبلی مچا دی اور طاقت کے روایتی مراکز کی بالادستی ختم کردی۔
ڈیپ سیک کی مقبولیت اور بڑھتے استعمال نے امریکی اور یورپی صارفین کے ڈیٹا تک چین کی رسائی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے مغربی طاقتوں کا تشویش میں مبتلا ہونا قابل فہم ہے۔
تاہم یہ ایپ چیٹ جی پی ٹی اور جیمنائی کو شکست دے پائے گی یا نہیں، یہ تو وقت بتاتے گا لیکن اس وقت ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکی بالادستی میں ایک دراڑ ڈال دی ہے جسے بھرنا آسان نہیں ہوگا۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔