طالبان حکومت نے افغانستان میں خانہ جنگی کے امکان کو مسترد کردیا
افغانستان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ دشمنوں کی جانب سے تحریک کے رہنماؤں اور عوام کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوششوں کے باوجود افغانستان کے طالبان حکمران متحد رہیں گے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق کچھ تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے خلاف 20 سالہ جنگ لڑنے اور 2021 میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان میں تقسیم، عدم استحکام کی طرف بڑھ سکتی ہے، کیونکہ وہ کنٹرول بحال کرنا چاہتے ہیں۔
جنوبی شہر قندھارسے تعلق رکھنے والے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ’ایکس‘ پر کہا کہ ’دشمنوں نے امارت اسلامیہ افغانستان (آئی ای اے) میں تقسیم کے بیج بونے کا خواب دیکھا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسے محض ایک وہم سمجھیں، امارات اسلامی افغانستان ایک متحدہ محاذ ہے، اور یہ نظام اتحاد کا نتیجہ ہے، اتحاد کے بغیر، کچھ بھی موجود نہیں ہوگا۔‘
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ ایک طالبان رہنما نے لڑکیوں کو رسمی تعلیم سے محروم رکھنے کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی، جب کہ رواں ہفتے طالبان گارڈز نے دارالحکومت کابل میں اقوام متحدہ کے مرکزی کمپاؤنڈ کے باہر فائرنگ کر کے ان میں سے ایک کو ہلاک کر دیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ بعض اوقات اختلاف رائے کے باوجود طالبان رہنماؤں کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بحثیں کبھی کبھی عوامی ہو جاتی ہیں، لیکن اسے کبھی بھی تقسیم کے طور پر غلط نہیں سمجھا جانا چاہیے، آخر کار، وہ ایک فیصلے کے تحت متحد ہوجاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں، یا تنازعات اور جنگ میں مشغول ہوجائیں۔
اس سے قبل سفارتی اور طالبان ذرائع نے کہا تھا کہ افغان انتظامیہ کے رہنماؤں کے درمیان ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو طالبات کے لیے بند کرنے کے فیصلے پر کئی سال سے اختلاف ہے۔