بریتھ پاکستان کا مقصد موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج پر غورکرنا ہے، شہبازشریف
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بریتھ پاکستان کا مقصد موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج پر غورکرنا ہے۔
اسلام آباد میں جاری ڈان میڈیا کی ’بریتھ پاکستان‘ عالمی موسمیاتی کانفرنس کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر تمام شراکت داروں کا مشکور ہوں۔
شہباز شریف نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج پر غورکرنا ہے، پاکستان کی کاربن کے اخراج کی شرح ایک فیصد سے کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شدید سیلاب، گلیشیئرز کے تیز پگھلاؤ، شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، 2 سال پہلے شدید سیلاب کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے۔
موسمیاتی تبدیلی زندہ حقیقت ہے، یوسف رضا گیلانی
اس کے بعد چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے بریتھ پاکستان کانفرنس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کا سامنا رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی آج کی زندہ حقیقت ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کے نقطہ نظر سے ہم موسمیاتی تبدیلیوں پرکئی اقدامات کیے، پاکستان کی کاربن اخراج کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی آج کی زندہ حقیقت ہے، ہم نے پالیسی کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں پر کئی اقدامات کیے، پاکستان کی کاربن اخراج کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتا، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑ سکتا، ہوا،پانی اور شمسی توانائی منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔
قبل ازیں، احسن اقبال نے تجویز دی کہ اقوام متحدہ آلودگی پھیلانے والوں پر کسی نہ کسی طرح کا عالمی ماحولیاتی ٹیکس عائد کرے اور اس ٹیکس کی رقم سے ایک ایسا فنڈ ہونا چاہیے جو جنوب کے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے میں مدد دے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھرکو موسمیاتی تبدیلی سے شدید خطرات لاحق ہیں، حکومت موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، وفاقی وزارت منصوبہ بندی صوبوں کےساتھ ملکرپالیسی تشکیل دیتی ہے۔
پنجاب میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، مریم اورنگزیب
پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے اپنے کلیدی خطاب میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران پنجاب کے آب و ہوا کے تجربات پر بات کی، انہوں نے جنوبی پنجاب میں شدید سیلاب، ہیٹ ویو، ہوا کے مضر صحت معیار اور پانی کی قلت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں پنجاب بھر میں آب و ہوا کی لچک کے لیے ایک جامع، مربوط اور کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب نے اپنی پہلی موسمیاتی پالیسی موافقت اور تخفیف کو مدنظر رکھ کر مرتب کی ہے ، ماحولیاتی انصاف اس پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے، اسموگ کے خاتمے کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پنجاب بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے منصوبوں کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے اور وزارت خارجہ کو خط لکھا ہے کہ وہ خطے کے ان ممالک کے ساتھ بات چیت شروع کرے جن کا فضائی معیار پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
پاکستان دوسروں کی پیدا کردہ مصیبت کا خمیازہ بھگت رہا ہے، رومینہ خورشید عالم
وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اپنے موسمیاتی سفر میں ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے متاثرہ ملک کے طور پر ہمیں بڑھتے ہوئے مسائل، شدید موسمی تغیرات، پانی کی کمی اور ماحولیاتی انحطاط کا سامنا ہے، تاہم پاکستان کا تعارف صرف یہ مسائل نہیں ہیں بلکہ مشکلات کا سامنا کرنے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہماری پہچان ہے۔
ماحولیاتی ناانصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ ’پاکستان دوسروں کی پیدا کردہ مصیبت کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالیہ سیلابوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع اور انفرااسٹرکچر کی تباہی تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے نقصان سے بچانے اور تعمیر نو کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں رکھنی چاہیے‘۔
ابان مارکر کبراجی کا لیونگ انڈس منصوبے پر اظہار خیال
یو این ای پی ایشیا پیسیفک کے ریجنل ڈائریکٹر کی سینئر ریجنل ایڈوائزر برائے کلائمیٹ اینڈ اینوائرنمنٹ ابان مارکر کبراجی کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا آغاز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کے بحران پر قابو پانے کی کال سے ہوا۔
انہوں نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات پر قابو پانے کی کوششوں پر زور دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ’چونکہ ہم ایک انتہائی غیر متوقع صورتحال سے گزر رہے ہیں، لہٰذا ہمیں اسی تناظر میں منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے۔
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے نوجوانوں کی شمولیت بہت اہم ہے، عبداللہ فاضل
پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوانوں کی شمولیت بہت اہم ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو کس طرح بہترین طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے پاکستان میں خاص طور پر کمیونٹی اور نچلی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نوجوانوں کو تعلیم دینا اور اسکولوں کے نصاب میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا بہت اہم ہے‘۔
انہوں نے پاکستان کے ’لیونگ انڈس پروگرام‘ (دریائے سندھ کی حفاظت و بحالی کا پروگرام) کو مستقبل کے لیے پاکستان کا بہتر منصوبہ قرار دیا۔
موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر حل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ اہم ہے کہ ہم اس کانفرنس کیا لے کر اٹھتے ہیں اور لاکھوں نوجوانوں، بالخصوص انہیں جو تعلیم و تربیت کا حصہ نہیں ہیں، کو کیسے متحرک کرسکتے ہیں؟ لیکن جو لوگ تعلیم و تربیت سے وابستہ ہیں، ان کے لیے بھی ہم ان تمام توانائیوں اور وسائل کو یکجا کر کے پاکستان میں اپنا اثر کیسے ڈال سکتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ وقت کی ضرورت ہے۔
بعدازاں، حکومتی اور نجے شعبے کے درمیان کلائمیٹ ریزیلئنس کے موضوع پر سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں سرکاری و نجی اداروں کی سرکردہ شخصیات نے ماحولیاتی تنوع کے بارے میں اپنی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے تجاویز پیش کیں۔
پالیسی ماہر داؤد منیر کا حکومتی اقدامات کا اعتراف
پالیسی ماہر اور سینئر لیگل پریکٹیشنر ڈاکٹر داؤد منیر کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک مشکل موضوع ہے، جس کے اثرات مستقبل میں ابھرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیں اپنے حال کے حوالے سے نہیں، آنے والی نسلوں کے حوالے سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سرکاری شعبے اور نجی شعبے کے درمیان تعاون مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ کوئی بیرونی مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے حکومتی اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پبلک- پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی(پی 3 اے) کے ذریعے اب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ مکالمے کو فروغ دینے کے لیے ایک فعال رسمی راستہ موجود ہے۔
یہ کانفرنس ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے، منیر کمال
پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے سی ای او اور سیکریٹری جنرل منیر کمال نے کوپ 23 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک موسمیاتی تبدیلی کا تعلق ہے تو پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں 8ویں نمبر پر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کانفرنس ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے 2022 میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھگتے ہیں، اب یہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں 2022 کے سیلاب سے بڑے پیمانے جو تباہی ہوئی، وہ موسمیاتی تبدیلی ہی کا نتیجہ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک سال اور چند ماہ میں پاکستان جیسے غریب ملک کو تقریباً 12 ارب 50 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا، جو ایک ایسے ملک کے لیے مشکل ترین ہے جو 2000 ڈالر فی کس آمدنی تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2023سے 2030 کے درمیان پاکستان کو 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، اگر ہم نے اس پہلو پر توجہ نہ دی تو 2050 تک پاکستان کی جی ڈی پی کو 18 سے 20 فیصد تک نقصان پہنچے گا۔
پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ پانی بچانا کتنا ضروری ہے، بابر علی
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کے بانی سید بابر علی پانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے پانی کو بچانا کتنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کے تازہ پانی کے استعمال سے پانی کی مقدار کم ہوسکتی ہے، تازہ پانی استعمال کرنے والی صنعتوں کو پانی ری سائیکل کرنا چاہیے تاکہ پانی کے قطرے قطرے کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ چمڑے کی صنعت میں پائے جانے والے کروم کو ری سائیکل کرنا مالی طور پر بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
انہوں نے ڈرپ اریگیشن کے استعمال کے لیے کاشت کاروں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے خود کو تعلیم یافتہ بنانا چاہیے تاکہ بعدازاں یہ معلومات صنعتوں اور کاشت کاروں کے ساتھ بانٹی جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اب بھی دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں زیادہ پانی ہے، جس پر ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس کی حفاظت یقینی بنانی چاہیے۔
بابر علی نے بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اب بھی اپنے بارش کے پانی کو اس طرح جمع نہیں کر رہے، جس طرح یہ شہروں میں اور دوسری جگہوں پر کیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے الیکٹرک وہیکل پالیسی پر نظرثانی کی ہے، وجیہہ قمر
پارلیمانی سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات اور خصوصی اقدامات وجیہہ قمر نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ماحول دوست نقل و حمل کو فروغ دینے کے لیے الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے تاکہ پبلک-پرائیویٹ پارٹرنر شپ فریم ورک کے تحت نجی شعبے کی اس ضمن میں سرمایہ کاری بڑھ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کم دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں، جب کہ گاڑیوں کے اخراج کے معیارات کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیز ’نیٹ زیرو‘ عزائم کی طرف بڑھ رہی ہیں، فخر احمد
جاز کے چیف کارپوریٹ اینڈ ریگولیٹری آفیسر فخر احمد نے ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کمپنیز نے اس حوالے سے بہت سے اقدامات کیے ہیں، زیادہ تر کمپنیاں ’نیٹ زیرو‘عزائم کی طرف بڑھ رہی ہیں، جن کا مقصد کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ ٹیک اکانومی بجلی سے چلتی ہے اور بجلی فوسل فیول اور لیتھیم کی بیٹریز سے بنتی ہے، تو ان حالات میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟
انہوں نے ٹیک کمپنیوں کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کا قبل از وقت انتباہ کے نظام، آفات کو کم کرنے اور بعد از آفات امدادی کاموں کے حوالے سے ٹیک کمپنیوں کا کردار بہت اہم ہے۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ٹیکنالوجی کمپنیز قابل تجدید توانائی کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے شعور و آگہی فراہم کرکے اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔
شاہ زین منیر کا عوام کیلئے سستی خوراک کی ضرورت پر زور
ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگلش بسکٹس مینوفیکچررز (ای بی ایم) شاہ زین منیر کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے موسمیاتی تبدیلی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے، اور غذائیت کی کمی بھی اتنی ہی تباہ کن اور عوام کے لیے خوراک کو سستا رکھنا بھی ایک چیلنج ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی ہر کسی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ بنیادی طور پر غریبوں کے لیے ایک مسئلہ ہے اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ قیادت کرے گا، تاہم آگاہی پھیلانے اور منصوبے بنانے کا وقت گزر چکا، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کو سستی خوراک کی فراہمی میں ہماری مدد کرے۔
کلائمیٹ فناسنگ کے لیے ماحول کی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے، کیٹ ولسن ہرگریوز
ڈی اے آئی برطانیہ کی ڈائریکٹر کلائمیٹ اینڈ انوائرونمنٹ کیٹ ولسن ہرگریویز کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں نجی شعبے کے پاس تین بڑی چیزیں ہیں، جن کے ذریعے وہ ماحولیاتی فنانس کے مسائل کو دور کر سکتے ہیں۔
ویلری ہکی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں پلمبنگ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا کلائمیٹ فناسنگ کے لیے ماحول کی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے نجی شعبے کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کہ موسمیاتی فنانس کے لیے سازگار ماحول قائم کرنا ہوگا، جب کہ بینکاری منصوبوں کی حکمت عملی اور پسماندہ گروہوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے میں نجی شعبے کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔
بی وائی ڈی کی الیکٹرک گاڑیوں سے کاربن کے اخراج میں 80 ملین ٹن کمی ہوئی، دانش خلیق
الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی/ میگا موٹرز کے نائب صدر برائے سیلز اینڈ اسٹریٹجی دانش خلیق نے کہا کہ جب ہم اخراج پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہیں، جب ہم خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کو دیکھتے ہیں، تو روایتی گاڑیوں کے مقابلے کاربن کے اخراج میں 70 سے 80 فیصد کی کمی ہوتی ہے اور پلگ ان ہائبرڈ گاڑیوں میں کمی کا یہ تناسب 60 فیصد ہے۔
ماحولیات کے حوالے سے بی وائی ڈی کے عزم کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بی وائی ڈی کی جانب سے تیار کردہ الیکٹرک گاڑیوں پر منتقلی سے تقریباً 80 ملین ٹن کاربن کی کمی ہوئی ہے۔ یہ ماحول سے کاربن جذب کرنے والے 1.3 ارب درختوں کے برابر ہے‘۔
نبیلا یزدانی نے ڈیجیٹلائزیشن کی اہمیت پر روشنی ڈالی
زونگ چائنا موبائل پاکستان لمیٹڈ کی ہیڈ آف اسٹریٹجی، کمیونی کیشن اینڈ سسٹینیبلٹی نبیلا یزدانی نے کہا کہ ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ ہم اپنے بنیادی ڈھانچے میں کس طرح سرمایہ کاری کریں جو توانائی کے لیے کافی اور طویل مدت کے لیے پائیدار ہو۔
انہوں نے زونگ کی جانب سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سولرائزیشن جیسے اقدامات پر بھی بات کی اور ڈیجیٹلائزیشن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
بینک الفلاح نے سیلاب متاثرین کیلئے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا، عاصم واجد جواد
بینک الفلاح کے گروپ ہیڈ اسٹریٹیجی، ٹرانسفارمیشن اینڈ کسٹمر ایکسپیرئنس عاصم واجد جواد نے ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بینکاری کے شعبے کے کردار کے حوالے سے کہا کہ ہم اس کا ایک اہم حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی سماجی ذمہ داری سے آگاہ اور ہر ایک کے ڈپازٹس کی حفاظت کر رہے ہیں لہٰذا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مالیاتی نظام مستحکم رہے، اسی طرح، ہمیں اپنے لوگوں اور ان کمیونٹیز کا بھی خیال رکھنا ہوگا، جہاں ہم رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بینک الفلاح سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں سے ایک ہے، جس نے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا، جب کہ ہم نے لوگوں کی پائیدار رہائش ممکن بنانے کے لیے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔
ماحولیاتی ایجنڈا ہماری ترجیح ہے، کنٹری ہیڈ آئی ایف سی
انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے کنٹری منیجر ذیشان شیخ نے کہا کہ عالمی بینک گروپ کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ماحولیاتی ایجنڈا ہماری ترجیح ہے، جب کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار پاکستان جیسے ملک میں اس مباحثے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، یقینی طور پر یہ سرگرمی کے سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے سرکلر اکانومی کا ایجنڈا کس طرح ایک بڑا مسئلہ تھا، جو ہر سال 5 کروڑ ٹن فضلہ پیدا کر رہا تھا جبکہ اس میں سے تقریباً کچھ بھی ری سائیکل نہیں کیا جارہا تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کو قبول نہ کرنے کے خطرات کی تخمینہ کاری کی ضرورت ہے، جوموئیر
برطانوی ہائی کمیشن کی ڈیولپمنٹ ڈائریکٹر جو موئیر نے کہا کہ ’آپ کو موسمیاتی تبدیلی کو قبول نہ کرنے کے خطرات کی تخمینہ کاری کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ پوچھنے کے قابل ہونا چاہیے کہ اگر ہم خشک سالی میں نمو پانے والے بہتر بیج کی اقسام پر سرمایہ کاری نہیں کرتے اور اگر ہم اپنے مویشیوں کے لیے صحیح شیڈ فراہم نہیں کرتے، تو اس کی کیا قیمت چکانا ہوگی، کیونکہ جب آپ لاگت کو جانتے ہیں، تو آپ ترجیح دینا شروع کرسکتے ہیں کہ پہلے کیا کرنا ہے‘۔
ماحول دوست صنعتیں نئی مارکیٹوں اور جدت طرازی کو فروغ دیتی ہیں، ثوبیا بیکر
جرمن سوسائٹی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کی ثوبیا بیکر نے تعمیل پر مبنی موافقت پر زور دیتے ہوئےکہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس خیال سے دور رہیں کہ پائیداری ایک ایسی چیز ہے جو ہم پر مسلط کی جا رہی ہے اور اس کے بجائے اس حقیقت پر توجہ مرکوز کریں کہ ماحول دوست صنعتیں نئی مارکیٹوں اور جدت طرازی کو فروغ دیتی ہیں اور مارکیٹوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں دونوں کے لیے تنوع پیدا کرتی ہیں۔
آب و ہوا کے حوالے سے پاکستان کی انتہائی خطرناک صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس ملک میں مادی خطرے سے اس وقت تک مؤثر طریقے سے نہیں نمٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہمارے پاس مربوط اور موثر منتقلی کا طریقہ کار نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس دنیا میں تمام پالیسیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اگر ان پالیسیوں کو ریگولیٹ یا مانیٹر نہیں کیا جاتا، تو ہم زیادہ آگے نہیں جاسکتے۔
سندھ حکومت سیلاب متاثرین کیلئے 9 لاکھ گھر تعمیر کرچکی، خالد محمود
سندھ پیپلز ہاوسنگ برائے سیلاب متاثرین کے چیف ایگزیکٹو افسر ( سی ای او) خالد محمود شیخ نے سندھ حکومت کے متاثرین سیلاب کی بحالی کے پروگرام پر بات کرتے ہوئے کہ ہمارا (پبلک سیکٹر) مینڈیٹ 21 لاکھ گھروں کی تعمیر نو ہے، اب تک ہم 9 لاکھ گھر تعمیر کرچکے ہیں جبکہ ہر ماہ 50 ہزار گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مکانات کی تعمیر نجی شعبہ کررہا ہے جبکہ بینک حکومت کی مدد کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ایک وژن تیار کرنا اور ایسی پالیسیاں لانا ہے جو نجی شعبے کے لیے سازگار ہوں۔
ہر کارپوریٹ ادارے کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے متحد ہونا چاہیے، عامر پراچہ
یونی لیور پاکستان کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) عامر پراچہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی بحث کا موضوع بن چکی ہے کیونکہ اس سے ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے امریکا میں لگنے والی آگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کیلیفورنیا میں کیا ہوا ہے، یہ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑے گا‘۔
انہون نے کہاکہ’وہاں تباہ کن خوف ہے، پھر بھی انخلا کا احساس اور مزید کام کرنے کی رفتار کی کمی ایک خطرے کی طرح محسوس ہوتی ہے، ہم مستقبل سے صدیوں دور ہیں، جو حقیقت نہیں ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنا ہے یا جامد ردعمل کا مظاہرہ کرنا ہے، ہم صرف لڑ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بات ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے صرف علامتی نمائندگی سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، ہر کارپوریٹ ادارے کو اس کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی اثر اس وقت ہوتا ہے جب ماحولیاتی اور سماجی اہداف کاروباری اور تجارتی اہداف کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب استحکام قیمت چکاتا ہے، تو کاروبار اس کے ساتھ رہتا ہے، ورنہ یہ آگے بڑھ جاتا ہے۔
داؤد منیر نے مباحثے کو سمیٹا
داؤد منیر نے کہا کہ کارپوریٹ سربراہان میں جو شعور موجود ہے اور جو کام ہو رہا ہے وہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔
انہوں نے اجتماعی اقدامات، صلاحیت (مالی، قانونی اور انتظامی) اور اعلیٰ معیار کی سرمایہ کاری پائپ لائن کے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔
بعدازاں ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے میڈیا اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ہیڈلائنز سیشن کی میزبانی کی۔
ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کی میزبانی میں میڈیا اور ماحولیاتی تبدیلی سیشن کا انعقاد
صحافی ایک انتہائی اہم موضوع سے روگردانی کر رہے ہیں، محفوظ انعام
ڈھاکا سے نکلنے والے بنگلہ دیشی اخبار روزنامہ اسٹار کے مدیر محفوظ انعم نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہ جنوبی ایشیا کے صحافی اور میڈیا ہاؤسز موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اتنے سنجیدہ نہیں ہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ہم صحافی ایک بہت اہم نکتے سے محروم ہیں، ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ہمیں ایک خاص وقت کے اندر نمٹنا ہے اور اس کا جواب دینا ہے۔
بھارتی اخبار دی وائر کے نیوز ایڈیٹر سوماشری سرکار کا اظہار خیال
دلی سے نکلنے والے بھارتی اخبار دی وائر کے نیوز ایڈیٹر سوماشری سرکار نے بھارتی نیوز رومز میں کلائمیٹ ڈیسک کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک چھوٹی سی ٹیم ہونے کے باوجود ہمارے پاس ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک صحافی ہے اور ہماری تنظیم میں بہت سے لوگ آب و ہوا پر رپورٹ کرتے ہیں، تاہم مرکزی میڈیا میں اس کی پیروی نہیں کی جاتی‘۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس عام طور پر آزاد میڈیا وہ کام کرتا ہے جو آب و ہوا پر رپورٹنگ کرتے وقت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں بھارت میں ماحولیاتی قوانین میں کمی آئی ہے۔
ماحولیات کے مسئلے کا کوئی قومی حل نہیں ہوسکتا، علی توقیر شیخ
آزاد صحافی اور ماحولیاتی کارکن علی توقیر شیخ نے موسمیاتی تبدیلی کو سرحدوں سے متجاوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیات کا ہر مسئلہ دراصل علاقائی ماحولیات کا مسئلہ ہے، اس کا کوئی قومی حل نہیں ہو سکتا، جب ندی کے بہاؤ کی بات آتی ہے، تو ہمارے زیادہ تر دریا سرحد پار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ آفات کی رپورٹنگ اہم ہے ، لیکن قارئین تین چیزوں کو دیکھ رہے ہیں، باریک بین نشریات ، حل پر مبنی نقطہ نظر، اور وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسی طرح کے ماحولیاتی نظام میں کہیں اور کیا ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ، ڈان میڈیا کی عالمی موسمیاتی کانفرنس ’بریتھ پاکستان‘ کا آج دوسرا اور آخری روز تھا، اس کانفرنس میں دنیا بھر سے ماحولیاتی ماہرین، صحافی اور رہنماؤں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا حل تلاش کرنے کے لئے اکٹھا کیا گیا ور انہوں نے بدلتے ہوئے ماحولیاتی حالات سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے توانائی سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات کے لیے فوری فنڈنگ کا مطالبہ کیا۔
کانفرنس کے پہلے دن کی سرگرمیوں اور خطابات کے لیے یہاں کلک کریں۔