• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

’ماحولیاتی بحران کے حل کے لیے میڈیا کو پائیدار موسمیاتی رپورٹنگ کرنا ہوگی‘

شائع February 8, 2025

پاکستان کو انتہائی سنگین ماحولیاتی بحران کا سامنا ہے لیکن اگر آپ خبریں پڑھتے یا دیکھتے ہیں تو گمان ہوتا ہے جیسے ہمارے ملک کے سب مسائل کا دائرہ سیاست اور اقتدار کی کشمکش کے گرد گھومتا ہے۔ حقیقت اس سے کئی زیادہ بدتر ہے۔ سیلاب، ہیٹ ویوز اور خشک سالی شدت اختیار کرتی جارہی ہیں جو ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے میدان جنگ میں تبدیل کر رہے ہیں۔

پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے پورے کے پورے دیہات مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں، شدید گرمی کی وجہ سے زراعت کم اور کہیں کہیں مکمل ختم ہوچکی جبکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خاندان سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا ایسے مقامات پر رہیں جہاں زندگی تنگ ہورہی ہے یا اپنی زمینیں چھوڑ کر موسمیاتی پناہ گزین بن جائیں۔

ایسے اوقات میں مضبوط پریس کو ان آفات کے پیمانوں پر توجہ دینی چاہیے لیکن عموماً ماحولیاتی مسائل پر بامشکل توجہ دی جاتی ہے۔ توقع ہوتی ہے کہ ان مسائل کی باریک بینی سے کوریج کی جائے گی لیکن ہمارا میڈیا معمولی سیاسی ڈراموں یا مشہور شخصیات کی گپ شپ پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میڈیا ہاؤسز جو اپنے رپورٹرز کو آفت زدہ علاقوں میں بھیجنے کے لیے جانے جاتے تھے، اب ماحولیاتی بحران کی خبروں کو صفحہ اول پر جگہ دینا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔

بین الاقوامی میڈیا جو سیلاب کی بڑے پیمانے پر کوریج کرتا تھا، اس کی رپورٹنگ بھی کم ہوچکی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ڈھونگ کرتے ہیں کہ انہیں ان مسائل کی پروا ہے۔ نتیجتاً ایک بیانیہ تشکیل پاتا ہے جو بحران کی سنگینی پر توجہ نہیں دیتا۔ عوام بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ آخر کوئی احتساب کا مطالبہ کرے گا یا نہیں۔

صورت حال کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ وہ دریا جو پہلے حیات سے بھرپور تھے اب سوکھ رہے ہیں جبکہ ہمارے شہر خطرناک اسموگ کی لپیٹ میں ہیں جس سے سانس لینا محال ہے۔ ہر موسم گرما میں شدید گرمی کے ریکارڈز ٹوٹ جاتے ہیں لیکن میڈیا اکثر بڑے منظرنامے کو نظر انداز کر دیتا ہے یعنی کمزور اصول، تیز صنعتی ترقی اور ناقص انتظام نے قدرتی مسئلے کو ایک بڑے بحران میں تبدیل کردیا ہے۔

ایک ایسا ملک جو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے، اس کے لیے یہ معمولی کوتاہیاں نہیں ہیں بلکہ ماحول کے تحفظ کے لیے قلیل مدتی منافع کو آگے رکھ کر نسلوں کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔

میڈیا آؤٹ لیٹس کہتے ہیں کہ ان کے پاس ان پیچیدہ مسائل کا احاطہ کرنے کے لیے وسائل یا مہارت نہیں ہے۔ اگرچہ یہ جزوی طور پر سچ ہے لیکن وہ اس جواز کو مؤثر کام نہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ سافٹ اسٹوریز کو ترجیح دیتے ہیں جو گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح جیسی بری خبروں سے ناظرین کو پریشان نہیں کرتی ہیں۔

طاقتور گروہ تحقیقاتی رپورٹنگ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں جو بدعنوانی یا منافع کے انکشافات کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً وہی پیٹرن دہرایا جاتا ہے یعنی جب کوئی آفت آتی ہے تو رپورٹس کی بھرمار ہوتی ہے لیکن پھر فوری طور پر توجہ اگلے اسکینڈل پر مرکوز ہوجاتی ہے جس سے کمزور اور متاثرہ طبقے کو میڈیا کی مناسب توجہ نہیں مل پاتی اور انہیں اکیلے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی صورت حال اسباق اور انتباہ سے بھرپور ہے۔ وہ فصلیں جو پوری کمیونٹیز کو خوراک فراہم کرتی تھیں اب ختم ہورہی ہیں، دیہی خاندان کام تلاش کے لیے دیگر علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ گرم پانی کی وجہ سے ماہی گیر مچھلیوں کی تعداد میں کمی کا سامنا کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ شہروں میں روزگار کی تلاش میں ہیں۔ غریب شہری علاقوں کے بچے آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں، اسکول جانے تک کا مختصر پیدل سفر بھی ان کے لیے صحت کے خطرات کا باعث بنتا ہے۔ لیکن بہت سے نیوز رومز میں ان حقیقی زندگیوں کی جدوجہد کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے لیکن جیسے ہی توجہ کے لیے کوئی اور سامان میسر آتا ہے، ان مسائل کا تذکرہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔

تحقیقاتی رپورٹنگ جو ماحولیاتی نقصان کی وجوہات کو بے نقاب کرسکتی ہے، تقریباً سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس سے عوام کو ایک بڑے مسئلے چھوٹی سی جھلک ملتی ہے۔ ایک بار جب کیمرے چلنا بند ہو جاتے ہیں تو مدد کا وعدہ کرنے والے اور موسمیاتی آفات کے دوران بین الاقوامی مدد مانگنے والے سیاستدان بھی منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اس قلیل مدتی توجہ سے حقیقی تبدیلی کا حصول انتہائی مشکل ہے۔

کیا اگلی آفت آنے اور پوری کمیونٹیز کی تباہی سے قبل میڈیا صرف موسمیاتی آفات کی رپورٹنگ کرنے کے بجائے بنیادی وجوہات کی فعال طور پر تحقیقات کرے گا؟ کیا خبر رساں ادارے ماحولیاتی رپورٹنگ کو ترجیح دیں گے پھر چاہے اس کے لیے انہیں کم سیاسی سرخیاں اور مشہور شخصیات خبریں کم ہی کیوں نہ کرنی پڑیں؟

کیا ہمارے اخبارات کے مدیران وہ صحافتی روش اختیار کریں گے جو بدعنوانی، شہری ترقی اور کارپوریٹ لالچ کے درمیان روابط کو بے نقاب کرتی ہے؟ اور آخر میں کیا عوام اپنے طور پر میڈٰیا سے بہتر کوریج کا مطالبہ کریں گے؟ کیونکہ میڈیا اور عوام دونوں کے دباؤ کے بغیر معاملات جوں کے توں رہیں گے۔

آج پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے سخت اثرات سے نمٹ رہا ہے اور اگر میڈیا اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے کتراتا رہا تو ماحول اس کے نقصانات اٹھاتا رہے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان مسائل پر آنکھیں بند نہ کی جائیں، دائرے کو توڑا جائے اور سیلاب، خشک سالی اور ہیٹ ویو کو ایک بڑے، فوری حل طلب مسئلے کے کے طور پر سنجیدگی سے لیا جائے۔ بصورت دیگر ’ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی‘ جیسے جملے اپنی اہیمت کھو دیں گے کیونکہ شدید موسم معمولی اور غیر معمولی کے درمیان فرق کو مکمل ختم کردے گا۔

توجہ نہ دے کر چیزیں مزید خراب ہوتی ہیں جبکہ ہماری آنے والی نسلوں کو آج ہماری خاموشی کے نتائج مستقبل میں بھگتنا پڑیں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

قرة العين صدیقی

لکھاری صحافی ہیں جو توانائی کی منتقلی، اخراج اور موسمیاتی مالیات کی کوریج کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 مارچ 2025
کارٹون : 25 مارچ 2025