• KHI: Zuhr 12:42pm Asr 4:59pm
  • LHR: Zuhr 12:12pm Asr 4:27pm
  • ISB: Zuhr 12:18pm Asr 4:30pm
  • KHI: Zuhr 12:42pm Asr 4:59pm
  • LHR: Zuhr 12:12pm Asr 4:27pm
  • ISB: Zuhr 12:18pm Asr 4:30pm

غزہ منصوبہ: ’ٹرمپ چاہتے ہیں لوگ انہیں جنونی یا پاگل سمجھیں‘

شائع February 10, 2025

ڈونلڈ ٹرمپ کا ’غزہ منصوبہ‘ اتنا ہی خالصتاً امریکی معلوم ہوتا ہے جتنا ایپل پائی سوئٹ ڈش۔ اس منصوبے میں پہلے مقامی آبادی کے بڑے حصے کو قتل کرنا اور پھر اپنے منافع کے لیے ان کی زمین کو ہتھیانا شامل ہے۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی معاونت اور حوصلہ افزائی سے جاری تباہی کا عمل اب ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔

یہ ثابت کرتا ہے (اگر ہمیں مزید ثبوتوں کی ضرورت ہے تو) کہ جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو امریکا کی دو جماعتیں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن، نہ صرف ایک صفحے پر بلکہ وہ گویا ایک پیراگراف، ایک جملے، ایک لفظ حتیٰ کہ ایک فل اسٹاپ پر بھی ساتھ ساتھ ہیں۔

فطری طور پر ٹرمپ کے منصوبے کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ ذیلی اسکینڈینیویائی ملک جرمنی جو اسرائیلی جنگ جرائم کا کٹر حمایتی رہا ہے، دلچسپ طور پر اس بار اس نے بھی ’بس بہت ہوچکا‘ کی صدا بلند کی اور کہا کہ غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم فلسطینیوں کی زمین ہیں لیکن وہ غزہ کی تعمیر نو میں ’اپنا حصہ‘ ڈالیں گے۔ اور ہاں، انہیں یہ بھی احساس ہوگیا کہ اس طرح کا کوئی اقدام ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ ہوگا۔

یقیناً جرمنی کے مؤقف میں تبدیلی کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اخلاقی طور پر بیدار ہوچکے ہیں بلکہ اس کا ٹرمپ کے لیے یورپی دشمنی سے زیادہ تعلق ہے جبکہ اسے یہ ڈر بھی ہے کہ سفید فام یورپی ممالک فلسطینی پناہ گزینوں سے بھر جائیں گے۔

عرب ممالک نے بھی مناسب انداز میں صورت حال سے متعلق آوازیں بلند کیں۔ بہ ظاہر اردن نے اپنے میڈیا آؤٹ لیٹس پر ارادے ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر فلسطینیوں کو ان کی زمین سے زبردستی بے دخل کیا گیا تو اسرائیل کے ساتھ جنگ چھڑ سکتی ہے۔ گزشتہ 17 ماہ میں ان کے کردار کو دیکھا جائے تو اردن کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ تاہم اس بیان سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ عمان موجودہ حالات میں کتنا کمزور محسوس کررہا ہے جبکہ حکومت عوام کے غم و غصے کے حوالے سے خوف کا شکار ہے۔

مصر کے لیے بھی یہی کہا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے اور غزہ کے پناہ گزینوں سے رقم بٹورتا ہے۔ وہ بھی ممکنہ طور پر اس منصوبے کی مخالفت اسی وجہ سے کر رہا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں فلسطینی مصر کا رخ کریں گے جوکہ ان کے نزدیک قومی سلامتی کا خطرہ ہوگا۔

امریکا اور اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت کرنے والے بہت سے ممالک نے امریکی صدر کی تبدیلی کے بعد سے اپنے بیانیے بھی تبدیل کیے ہیں۔ وہ ممالک جو پہلے کہہ رہے تھے کہ ’اسرائیل صرف دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے اور فلسطینیوں کو دانستہ طور پر نشانہ نہیں بنا رہا‘، اب کسی تردد کے بغیر کہتے ہیں کہ ’غزہ کی زمین ناقابلِ رہائش ہے‘۔

اسی طرح مغربی میڈیا نے بھی گیئرز تبدیلی کیے ہیں اور اب وہ فلسطین کی زمین پر شہریوں کے انٹرویوز لے رہے ہیں جبکہ بائیڈن اور ڈیموکریٹکس کی حکومت میں وہ یہ کرنے سے اجتناب کررہے تھے۔

ان ممالک اور میڈیا ہاؤسز نے جو چیز بڑی آسانی سے نظرانداز کردی وہ درحقیقت یہ تھی کہ غزہ کے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی بائیڈن انتظامیہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد ہی شروع کر دی تھی اور یہ فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے عین مطابق تھا جو حماس کے حملوں کے فوراً بعد میڈیا پر لیک ہوگیا تھا۔

تاہم جو بات پہلے نجی طور پر سفارتی ذرائع سے دبی آوازوں میں پہنچائی جاتی تھی، ٹرمپ نے بس وہی بات بلند و بالا کردی ہے جبکہ ایک پراپرٹی ٹائیکون ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس منصوبے میں اعلیٰ معیار کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو بھی شامل کردیا ہے۔

لیکن صدر ٹرمپ کے اس ’منصوبے‘ پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ عرب ممالک یا ہچکچاہٹ کا شکار مغربی ممالک نہیں بلکہ فلسطینی ہیں جو اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے۔ اپنے تلخ تجربے کی بنیاد پر وہ واقف ہیں کہ ایک بار اگر انہوں نے اپنی زمین چھوڑ دی تو اسرائیل کی جانب سے انہیں دوبارہ واپسی کی اجازت کبھی بھی نہیں ملے گی۔

یقینی طور پر یہ پہلا موقع نہیں کہ جب اسرائیل نے غزہ کو خالی کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس نے 1956ء، 1967ء اور 1970ء میں بھی ایسی کوششیں کیں جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئے۔ بدنامِ زمانہ جنرل منصوبے کے خالق اسرائیلی جنرل گیورا آئیلانڈ نے جزیرہ نما سینا میں غیرفوجی فلسطینی ریاست کے وجود کا خیال پیش کیا جو 2000ء، 2004ء اور 2010ء میں اسرائیل کے زیرِ کنٹرول ہوگا۔

تاہم کوئی منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوپایا۔ ایسے میں یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ فلسطینی جنہوں نے اپنی آبادی کے خاتمے کی کوششوں کو ناکام بنایا، اب نقل مکانی کرنے پر رضامند ہوجائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انتہائی منصوبہ کیوں تجویز کیا؟ اس کی ایک وضاحت تو یہ ہے کہ وہ بالکل پاگل ہیں، اور اسے خارج از الامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن زیادہ امکان ہے کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کریں کہ وہ جنونی یا پاگل ہیں۔ یہ امریکی صدر رچرڈ نکسن کی صدرات کے دوران سامنے آنے والی ’میڈ مین تھیوری‘ سے مماثل روش ہے۔

رچرڈ نکسن نے دانستہ طور پر خود کو ’غیرمعقول اور غیرمتوقع طبعیت‘ کا ظاہر کیا تاکہ کمیونسٹ ممالک کے ساتھ بات چیت میں انہیں فوائد حاصل ہوں۔ وہ کھلے عام دھمکیاں دیتے تھے جبکہ ان کے سفارتکار حریف ممالک کے رہنماؤں کو کہتے تھے کہ صدر نکسن کچھ بھی کرسکتے ہیں، لہٰذا انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔

ٹرمپ کی فطرت بھی چھوٹے معاملات کے لیے بڑے اقدامات کرنے کی ہے اور وہ اپنے حامیوں کے لیے وہ ڈراما پیش کرتے ہیں جس کی انہیں خواہش ہے اور جس کے لیے انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ یہ میڈیا اور مخالفین کی توجہ بھٹکانے میں بھی مفید ثابت ہوا ہے۔ وہ بہت سے مشتعل بیانات دیتے ہیں جس سے میڈیا اور مخالفین کی توانائی ٹرمپ کے حیرت انگیز بیانات پر مرکوز ہوجاتی ہے جبکہ اس عمل میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حقیقی اقدامات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 12 مارچ 2025
کارٹون : 11 مارچ 2025