لاہور ہائیکورٹ کا توہین مذہب پر سزائے موت پانے والے شخص کو باعزت بری کرنے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والے شخص کو ناکافی شواہد اور گواہوں کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر بری کر دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملزم ساجد علی ولد محسن خان پر مذہبی شخصیات کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے کا الزام تھا، ملزم کے خلاف 14 اپریل 2020 کو اٹک کے علاقے حسن ابدال میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ساجد علی پر تعزیرات پاکستان کی کی دفعہ 295 سی (جس میں پیغمبر اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز تبصرے کی سزا موت مقرر ہے) اور دفعہ 298 اے ( جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور اصحاب کے خلاف نازیبا تبصرہ کرنے پر 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے) کے تحت سزائے موت ہوسکتی ہے۔
مقدمے کی سماعت کے بعد حسن ابدال کے ایڈیشنل سیشن جج نے ساجد کو 2023 میں سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، ساجد کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 اے کے تحت 3 سال قید بامشقت کی سزا بھی سنائی گئی تھی تاہم ملزم نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ساجد کی وکیل تانیہ بازئی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ من گھڑت ہے اور استغاثہ ان کے موکل کے خلاف الزامات کے حق میں قابل اعتماد ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
وکیل نے استغاثہ کے گواہوں کے بیانات میں تضادات کو اجاگر کیا، جن میں سے کچھ نے مبینہ واقعے کو متضاد انداز میں پیش کیا، انہوں نے دلیل دی کہ ایف آئی آر مبینہ تبصرے کے کچھ دن بعد درج کی گئی تھی، انہوں نے دلیل دی کہ استغاثہ ملزم کو ان تبصروں سے جوڑنے کے لیے کوئی براہ راست یا ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔
کیس کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے ساجد کے خلاف شواہد کو بے نتیجہ اور سزا برقرار رکھنے کے لیے ناکافی پایا، عدالت نے قرار دیاکہ استغاثہ کے گواہوں کی گواہی میں سنگین تضادات ہیں، جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ساجد کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا۔