مصطفیٰ قتل: جج نے ریمانڈ رپورٹ نہیں پڑھی تھی؟ پولیس افسر زخمی ہوئے، سندھ ہائیکورٹ
سندھ ہائی کورٹ نے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف پولیس کی اپیل پر نوٹس جاری کرتے ہوئے ملزم کو کل پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے کے خلاف پولیس کی اپیل کی سماعت ہوئی۔
عدالت عالیہ میں دوران سماعت قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل سندھ منتظر مہدی، کیس کے تفتیشی افسر سمیت دیگر افسران پیش ہوئے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ مصطفیٰ عامر کے اغوا کا مقدمہ درخشاں تھانے میں درج کرایا گیا تھا۔
جسٹس ظفر احمد راجپوت نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم جج نے ریمانڈ رپورٹ نہیں پڑھی تھی کیا؟ پولیس افسران زخمی ہوئے ہیں۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 10 فروری کے بعد دوسری درخواست 11 فروری کو بھی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دی گئی تھی، ٹرائل کورٹ ہمیں ریمانڈ آرڈر کی سرٹیفائیڈ کاپی تک نہیں دے رہی۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ 11 فروری کے جسمانی ریمانڈ پر ٹرائل کورٹ نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا، جس کی استدعا بھی نہیں کی گئی تھی، انتظامی جج کے اختیار کسی اور جج کو دیے جائیں۔
جسٹس ظفر احمد راجپوت نے کہا کہ درخواست میں جو استدعا کی گئی ہے اس پر ہی احکامات جاری کریں گے، عدالت نے ملزم ارمغان کو نوٹس جاری کردیے اور حکام کو ملزم ارمغان کو کل پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
ملزم ارمغان کو کل صبح ساڑھے 9 بجے مناسب سیکیورٹی کے ساتھ عدالت عالیہ میں پیش کیا جائے گا۔
پوسٹمارٹم کے لیے قبر کشائی کا حکم
کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت نے مصطفیٰ عامر کے اغوا و قتل کیس میں قبر کشائی کی درخواست منظور کرکے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت نے ہدایت کی کہ کہ سیکریٹری صحت قبر کشائی کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیں۔
عدالت نے قبر کشائی مکمل کرکے 7 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، کیس کے تفتیشی افسر نے قبر کشائی کی درخواست دائر کی تھی۔
کیس کا پس منظر
گزشتہ ماہ ڈیفنس کے رہائشی نوجوان مصطفیٰ عامر کو ملزم ارمغان نے اغوا کر لیا تھا، مغوی کے اہل خانہ کی جانب سے مقدمہ درج کرائے جانے پر ابتدا میں ضلع جنوبی کی پولیس نے ٹال مٹول کی، تاہم بعد ازاں کیس کی تفتیش سی آئی اے کو منتقل کر دی گئی۔
پولیس کی ٹیم ملزم کو گرفتار کرنے ڈیفنس میں واقع اس کے بنگلے پر پہنچی تو ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی تھی، بعد ازاں پولیس نے ارمغان اور شیراز نامی ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا، جنہوں نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ انہوں نے حب کے علاقے میں مصطفیٰ کی لاش گاڑی میں پھینک کر گاڑی کو آگ لگادی تھی۔
پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
قبل ازیں تفتیشی حکام نے بتایا تھا کہ ملزم ارمغان اور مصطفیٰ عامر دوست تھے، ان کے درمیان مبینہ طور پر ایک لڑکی کی وجہ سے نیو ایئر نائٹ پر اختلافات پیدا ہوئے، مصطفیٰ کی والدہ نے بھی ویڈیو بیان میں لڑکی کو قصور وار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس لڑکی کو واپس لایا جائے، اور شامل تفتیش کیا جائے، انہوں نے ایس ایس پی تفتیش جنوبی علی حسن کو بھی شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ غلام نبی میمن نے ڈان اخبار سے خصوصی گفتگو میں کہا تھا کہ ڈیفنس میں اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر نے مقامی سم استعمال نہیں کی، اس لیے تکنیکی طور پر وہ پولیس کے لیے دیر تک ’لاپتا‘ رہا تھا۔