• KHI: Asr 4:52pm Maghrib 6:29pm
  • LHR: Asr 4:15pm Maghrib 5:54pm
  • ISB: Asr 4:17pm Maghrib 5:57pm
  • KHI: Asr 4:52pm Maghrib 6:29pm
  • LHR: Asr 4:15pm Maghrib 5:54pm
  • ISB: Asr 4:17pm Maghrib 5:57pm

مصطفیٰ کو نہیں مارا، پھنسایا جارہا ہے، ملزم ارمغان کا ساتھی شیراز کو پہچاننے سے بھی انکار

شائع February 18, 2025
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

مصطفیٰ قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان قریشی نے قتل سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مصطفیٰ کو نہیں مارا، مجھے پھنسایا جارہا ہے، ملزم نے شریک ملزم شیراز کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ملزم ارمغان قریشی نے کہا کہ ’میں نے مصطفیٰ کو نہیں مارا، مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔‘

صحافیوں نے سوال کیا کہ پولیس پر فائرنگ کیوں کی، ملزم نے کہا کہ ’پولیس والے میرے گھر ڈکیتی کرنے آئے تھے، اس وجہ سے فائرنگ کی تھی۔‘

صحافیوں نے سوال کیا کہ شیراز کو جانتے ہو؟ ملزم نے کہا کہ ’میں کسی کو بھی نہیں جانتا، میرا کوئی لینا دینا نہیں۔‘

دوسری جانب ارمغان کے والد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا نشہ کرتا تھا، اب اسے نشہ نہیں مل رہا تو اس کی حالت خراب ہے، اس حالت میں اسے پھر ریمانڈ میں لینا چاہتے ہیں، یہ پولیس کا بڑا ریکٹ ہے، ان کے ساتھ سادہ لباس والے لوگ بھی تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کے اندر ایک سب پولیس ہے جو بلیک میلنگ ریکٹ ہے، میرے بیٹے کا میڈیکل بھی نہیں کرایا گیا، انسداد دہشت گردی عدالت کے تین حکم ہیں اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا،کورٹ نے کہا میری بیٹے سے ملاقات کرائی جائے، میرا مقدمہ درج کیا جائے اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈراما بند ہونا چاہیے، کل آپ سب لوگوں کے بچوں سے ایسے ہو سکتا ہے، اب تک 3 ایس ایچ اوز کے تبادلے ہو چکے ہیں۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی ) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیاگیا تھا جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفتیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا۔

بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 فروری 2025
کارٹون : 20 فروری 2025