حکومتی ادارے کو بلامعاوضہ نمائندگان کی درخواستیں طلب کرنے پر تنقید کا سامنا
وفاقی حکومت کے ماتحت خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ (اے پی پی) کو بلا معاوضہ نمائندگان کی درخواستیں طلب کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
اے پی پی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت وفاقی حکومت کا واحد خبر رساں ادارہ ہے، تاہم اطلاعات و نشریات کے ماتحت پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) اور ریڈیو پاکستان جیسے ادارے بھی ہیں۔
اے پی پی کو معتبر سرکاری خبر رساں ادارے کی اہمیت حاصل ہے، تاہم ادارے نے 18 فروری کو فیس بک پیج پر ایک پوسٹ شیئر کی، جس میں ادارے نے ملک بھر سے بلامعاوضہ نمائندگان کی درخواستیں طلب کیں۔
ادارے کی جانب سے شیئر کردہ اشتہار میں واضح لکھا گیا کہ معتبر سرکاری ادارے کو ملک بھر سے پارٹ ٹائم بلامعاوضہ نمائندگان کی ضرورت ہے اور دلچسپی رکھنے والے افراد اپنا دستاویزات بھجوا سکتے ہیں۔
اشتہار میں واضح کیا گیا کہ نمائندگان کا کام ثقافت، کھیلوں، موسیقی، کھانوں اور تفریحی مقامات سے متعلق ہو۔
اشتہار میں کسی طرح کی تعلیم نہیں مانگی گئی، ساتھ ہی واضح کیا گیا کہ درخواست گزار کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے کی مہارت کو ان کی قابلیت تصور کیا جائے گا۔
سرکاری خبر رساں ادارے کی جانب سے ملک بھر سے پارٹ ٹائم نمائندگان کی بلامعاوضہ درخواستیں طلب کرنے کی پوسٹ پر ملک بھر کے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے ادارے اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
زیادہ تر صارفین نے اے پی پی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انتطامیہ کو شرم دلانے کی کوشش کی اور اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ حکومت پاکستان کا ادارہ بھی عوام سے بلا معاوضہ کام کروانا چاہتا ہے تو باقی نجی میڈیا اداروں کا کیا قصور ہے؟
سوشل میڈیا صارفین نے کمنٹس کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ادارہ بلامعاوضہ کام کروانا چاہتا ہے تو ادارہ معتبر کیسے ہوا؟
کچھ افراد نے لکھا کہ اے پی پی انتظامیہ کو ’بلا معاوضہ‘ لکھتے ہوئے شرم نہیں آئی؟
سوشل میڈیا صارفین کی تنقید پر تاحال اے پی پی کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
خیال رہے کہ اے پی پی کے ملک کے چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں علاقائی دفاتر ہونے سمیت ملک بھر میں نمائندگان بھی ہیں جب کہ ادارے کے بیرون ممالک بھی نمائندگان تعینات ہیں۔
اے پی پی اردو اور انگریزی کے علاوہ پشتو، سندھی، سرائیکی اور دیگر زبانوں میں بھی خبریں فراہم کرتا ہے۔