• KHI: Fajr 5:46am Sunrise 7:02am
  • LHR: Fajr 5:18am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:23am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:46am Sunrise 7:02am
  • LHR: Fajr 5:18am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:23am Sunrise 6:47am

ٹرمپ، عمران خان کی رہائی کی کال کب دیں گے؟

شائع February 19, 2025

ڈونلڈ ٹرمپ کی جس کال کا بےصبری سے انتظار کیا جارہا ہے وہ ابھی دی نہیں گئی ہے یا شاید وہ کال کبھی دی بھی نہیں جائے گی۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں نے ہمت نہیں ہاری ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ امریکی قانون سازوں کی جانب سے پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔

حالیہ ہفتوں میں کچھ پاکستانی-امریکی گروپس، سینیٹرز اور کانگریس اراکین کے ساتھ روابط میں تیزی لے کر آئے ہیں اور انہوں نے زور ڈالا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کریں۔

دورہِ امریکا کے دوران سابق صدر مملکت عارف علوی بھی اس مہم کا حصہ بنے جہاں کپیٹل ہل میں انہوں نے ایک اجلاس منعقد کیا۔ خبریں سامنے آئیں کہ انہوں نے درجن سے زائد امریکی قانون سازوں کو پاکستان کی سیاسی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی۔

گمان ہوتا ہے کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں کیونکہ چند کانگریس اراکین نے بیانات جاری کرکے پاکستانی حکومت سے سابق وزیراعظم کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس رکن جو ولسن جوکہ متعدد مواقع پر پی ٹی آئی لیڈر کی رہائی کا مظالبہ کرچکے ہیں، نے اس سلسلے میں اسٹیٹ سیکریٹری سے ملاقات کی۔ لیکن اب تک ایسی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس سے یہ اشارہ ملے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی حکومت کے سامنے اس معاملے کو اٹھائے گی۔ یقیناً انسانی حقوق اور جمہوریت کا تحفظ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس خارجہ پالیسی میں ترجیح نہیں جوکہ امریکی حمایت کے بدلے امریکا کے لیے کچھ کرنے کی ٹرمپ سوچ کی تابع ہے۔ یا پی ٹی آئی نے شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی عمران خان کے لیے پسندیدگی کو غلط پیرایے میں لے لیا ہے۔

جو بھی ہو چند امریکی کانگریس اراکین کی جانب سے بیانات نے پاکستانی حکومت کو پریشان کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کی کوششوں پر جوابی اقدامات لیتے ہوئے وزیر داخلہ عجلت میں دورہِ واشنگٹن پر پہنچے۔ رپورٹس کے مطابق امریکی قانون سازوں سے اپنی ملاقات میں انہوں نے حکومت کا پالیسی ایجنڈا ان کے سامنے رکھا۔ دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے بھی کپیٹل ہل میں اجلاس منعقد کیے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی اندرونی سیاسی جنگ کا دائرہ امریکا تک پھیل چکا ہے جبکہ امریکا میں موجود پاکستانی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی جانب سے متحرک کردار ادا کرنے اور امریکی حمایت کے حصول کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ان کی کوششوں میں واضح طور پر تیزی آئی ہے۔

ان میں سے زیادہ تر نے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اس لیے کی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ وہ عمران خان کی اقتدار سے برطرفی میں جو بائیڈن انتظامیہ کے مبینہ کردار کے پی ٹی آئی الزامات کو بہتر انداز میں سمجھیں گے۔ نام نہاد سائفر جس میں پاکستانی سفیر اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینیئر اہلکار ڈونلڈ لو کے درمیان تفصیلی گفتگو تھی، عمران خان عوامی حمایت سمیٹنے کے لیے اس سائفر کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی حکومت جانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا تھا، ’ہم کوئی غلام ہیں؟‘

ان پاپولسٹ نعروں نے عوام میں امریکا مخالف جذبات کو ہوا دی اور اس سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس مؤقف کی وجہ وہ ایک ایسے قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے بیرونی دراندازی کے خلاف مزاحمت کی۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی برطرف حکومت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ تمام منصوبہ بندی بائیڈن انتظامیہ کی تھی جسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں نے اس مؤقف پر یقین کیا۔

امریکا میں مقیم پاکستانی شہریوں میں عمران خان بہت طویل عرصے سے انتہائی مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت صرف اس لیے نہیں کہ انہوں نے پاکستان کو کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنایا بلکہ لوگ ان کے فلاحی کاموں کے بھی معترف ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا مرکزی دھارے کی دو بڑی جماعتوں پر بڑھتا عدم اعتماد تھا جو دہائیوں سے اقتدار پر براجمان ہیں۔ شاید یہی وہ وجہ ہوسکتی ہے جس کی بنا پر ماضی میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ایک نمایاں حصے نے آمرانہ حکومتوں کی حمایت کی۔

لیکن اسٹیبلشمنٹ کی روایتی حمایت اس وقت ختم ہوگئی جب عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی حلقوں میں بڑے پیمانے پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں غیرسیاسی قوتیں ملوث تھیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی جیت کو تسلیم نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اقتدار دیا۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات بڑھتے گئے جن کی جھلک بیرونِ ملک مقیم پاکستان کے تعلیم یافتہ پیشہ ور اور تعلیم یافتہ طبقے میں نظر آتی ہے۔

گزشتہ موسمِ گرما میں امریکا اور کینیڈا کے دورے کے دوران میں نے جب پاکستانیوں سے گفتگو کی تو مجھے یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس ہوئی۔ عوام میں جو عدم اعتماد آج پایا جاتا ہے، ہمیں ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی عمران خان کی رہائی اور پاکستان میں جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے مہم میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کے لیے وہ واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے سے بھی دریخ نہیں کررہے جنہیں وہ ماضی میں عمران خان کے دشمن قرار دیتے تھے۔

بہت سے بااثر پاکستانی نژاد امریکی شہری عمران خان کی رہائی کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد پاکستانی-امریکیوں کی سیاسی سرگرمیوں کی کمیٹی میں شامل ہیں جسے پاک پیک کہا جارہا ہے۔ اس کمیٹی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی بدتر ہوتی صورت حال اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن پر کانگریس اور سینیٹ اراکین سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں وہ گروپ جو اپنے آپ کو غیرجانبدار کہتا تھا، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے سب سے طاقتور اور بااثر گروہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں کپیٹل ہل میں کئی میٹنگز کا انعقاد کیا ہے اور چند کانگریس اراکین کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے مطالبے نے انہیں کسی حد تک کامیابی بھی دلوائی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی متزلزل معاشی صورت حال اور ملک کو درپیش دیگر چیلنجز کو بھی امریکی قانون سازوں کے سامنے اٹھایا ہے۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، ملک میں رائج آمرانہ طرزِ حکمرانی کے خلاف جتنی مضبوط لابنگ کررہے ہیں، اتنی مضبوط لابنگ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ لیکن وہ اب تک ٹرمپ انتظامیہ سے کسی طرح کا ردعمل حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ شاید کوئی ردعمل آئے بھی نہیں کیونکہ چند تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ واشنگٹن، پاکستان پالیسی میں امریکا اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ترجیح دے گا جبکہ اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے کوئی خدشات نہیں ہوں گے۔

ملکی اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو دعوت دینا پاکستان کے مفادات کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ امریکا پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے بالخصوص آمرانہ حکومتوں میں۔ ہمیں جمہوریت کے لیے جنگ خود لڑنی ہے۔ تاہم، یہ احساس کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں، نے بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں کو انتہائی حدود تک جانے کے لیے جواز فراہم کیا ہے۔

یقیناً بیرونی مداخلت کو دعوت دینے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی لیکن قصور کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت کا بھی ہے جس نے حالات ہی اس طرح کے پیدا کردیے کہ عوام کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی نے پاکستان کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچائی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 فروری 2025
کارٹون : 19 فروری 2025