ایران میں یورینیم کے ذخیرے میں اضافہ، ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا، رپورٹ
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی 2 رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دسمبر میں یورینیم کی افزودگی میں تیزی کے اعلان کے بعد سے ایران کے پاس اس کے ذخیرے میں اضافہ ہوا ہے اور یہ جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد کے قریب ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران نے یورینیم کی افزودگی 60 فیصد حاصل کر لی ہے، جو یورینیم بم گریڈ بنانے کےلیے درکار 90 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے، یہ صورتحال مغربی طاقتوں کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔
مغربی قوتوں کا کہنا ہے کہ اتنی زیادہ سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے تاہم، ایران کا کہنا ہے کہ وہ صرف پرامن جوہری توانائی کا خواہاں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایران پر جوہری پروگرام کے حوالے سے دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے جب کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا ہے کہ ایران کی سرگرمیوں پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے سفارت کاری کا وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔
انٹرنیشنل ایجنسی نے ایران کے بارے میں اپنی دونوں سہ ماہی رپورٹوں میں غیر معمولی طور پر ایک حوالہ دیا ’جوہری مواد تیار کرنے والی واحد جوہری ہتھیار نہ رکھنے والی ریاست کی جانب سے اعلیٰ یورینیم کی پیداوار میں نمایاں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے‘۔
رائٹرز کے مطابق بدھ کے روز رکن ممالک کو بھیجی گئی ان خفیہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ 60 فیصد مواد کا ذخیرہ آدھا بڑھ گیا ہے لیکن غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کی غیر واضح موجودگی سمیت طویل عرصے سے زیر التوا مسائل کو حل کرنے میں کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
آئی اے ای اے کی 2 خفیہ رپورٹوں میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ یورینیم ہیکسا فلورائڈ کی شکل میں 60 فیصد تک ریفائنڈ یورینیم کا ذخیرہ گزشتہ سہ ماہی میں 92.5 کلوگرام بڑھ کر 274.8 کلوگرام تک پہنچ گیا۔
آئی اے ای اے کے معیار کے مطابق اگر مزید یورنیئم افزودہ کیا جائے تو یہ اصولی طور پر 6 جوہری بموں کے لیے کافی ہے جب کہ کم افزودگی کی سطح پر مزید ہتھیاروں کے لیے یورنیئم کافی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے تاریخی معاہدے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا جس کے تحت ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کے بدلے تہران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں، تاہم 2018 میں ٹرمپ کی جانب سے معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران نے ان حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔
تاہم اب یہ معاہدہ کافی حد تک تعطل کا شکار ہے اور یورپی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام پر نئی حدود پر اتفاق کرنے کے لیے امریکا کی مدد حاصل کرنا چاہتی ہیں یا پھر وہ اکتوبر میں معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ایران پر تمام پابندیاں دوباہ عائد کرنے کے لیے معاہدے میں ایک طریقہ کار استعمال کرنا چاہتی ہیں۔