نئی ٹیم سیلیکشن کے نام پر قوم سے ایک بار پھر دھوکا
پاکستان کرکٹ ٹیم کی چیمپیئنز ٹرافی میں شرمناک کارکردگی کے بعد عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ اس بدترین کارکردگی کے ہر ذمہ دار کو سخت سزا دی جائے گی اور جن لوگوں نے قوم کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے ان کا حساب ہوگا۔
چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی جو اپنی تیز رفتاری اور جانفشانی کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے باحیثیت چیئرمین اپنی انتظامی ذمہ داریاں تو بخیر و خوبی انجام دیں لیکن وہ پاکستان کرکٹ کے بدمست ہاتھیوں کو سنبھالنے میں ناکام رہے۔ یہ کھلاڑی جو ہر دور میں مختلف حیلے بہانوں سے ٹیم میں واپس آجاتے ہیں، ان کی سرپرستی سابق ٹیسٹ کرکٹرز کررہے ہیں جو پس پردہ پروموشن کمپنیز چلارہے ہیں۔ ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے تو چیف سلیکٹر ہوتے ہوئے پروموشن کمپنی بنائی اور اس کے کاروبار کے لیے کھلاڑیوں پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس وقت کے پی سی بی چیئرمین نے انکوائری کمیٹی بنائی تھی لیکن اس کمیٹی کا آج تک کوئی اجلاس نہ ہوسکا اور نہ کسی کو معاہدہ کی شقیں توڑنے پر سزا مل سکی۔
اب وہی سابق ٹیسٹ کرکٹر اور ان کے پرانے پیٹی بند بھائی مل کر ایک بار پھر پاکستانی ٹیم میں اپنی پسند کے کھلاڑی منتخب کرارہے ہیں اور جس بے شرمی سے سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے ایک ایسے کھلاڑی کو کپتان بنوانے کے لیے تحریک چلائی جو ٹیم میں شامل بھی نہیں تھا وہ صرف ہمارے معاشرہ میں ہی ہوسکتا ہے۔
من و عن وہی ٹیم
چیمپیئنز ٹرافی کی شرمناک کارکردگی کے بعد قوم کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا ہے اور وہ کھلاڑی جن کی اس ایونٹ میں کارکردگی کا گراف افغانستان اور بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں سے بھی بدتر تھا، وہ ایک بار پھر منتخب ہوگئے ہیں جبکہ جس کھلاڑی نے سب سے زیادہ رنز بنائے اسے دونوں فارمیٹ سے نکال دیا گیا ہے۔
سعود شکیل جو بھارت کے خلاف دبئی میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے، انہیں اس کارکردگی پر یہ صلہ ملا کہ انہیں ٹیم سے ہی ڈراپ کردیا گیا۔ ستم بالائے ستم کہ لاہور میں جب چیف کوچ عاقب جاوید ٹیم کا اعلان کررہے تھے تو کسی صحافی نے سوال تک نہیں کیا کہ سعود شکیل کیوں ڈراپ ہوئے۔
فہیم اشرف بغیر کسی کارکردگی کے دوبارہ منتخب ہوگئے لیکن عامر جمال کا کوئی ذکر نہیں۔ ٹیم کے بقیہ منتخب 15 کھلاڑیوں میں نیا اضافہ عرفان خان نیازی محمد علی اور وسیم جونیئر ہیں۔ عرفان خان کو جنوبی افریقہ کے دورے کے بعد ڈراپ کیا گیا تھا۔ اب انہوں نے نہ معلوم کون سا ہمالیہ سر کرلیا جو دو ماہ بعد انہیں ٹیم میں دوبارہ شامل کرلیا گیا ہے۔ محمد علی اور وسیم جونیئر نے بھی کوئی تیر نہیں مارا لیکن محمد حسنین بغیر کھیلے باہر ہوگئے یا شاید وہ پانی پلانے میں سستی کرگئے تھے۔
ویسے کارنامہ تو محمد رضوان کا بھی کوئی خاص نہیں لیکن وہ ہار ہار کر بھی کپتان برقرار ہیں۔ دو میچز میں 5 رنز بنانے والے سپرمین طیب طاہر تو ٹیم میں ہیں لیکن ان کی بدترین کارکردگی پر کوئی سوال یا جواب نہیں اور سوال ہو بھی کیوں جب بابر اعظم اور رضوان کی کارکردگی صفر ہے تو ان سے بھی پوچھنے والا کوئی نہیں۔
امام الحق جنہیں بڑے دعووں سے ٹیم میں واپس لایا گیا ہے کہ وہ ڈومیسٹک کے سپر ہیرو ہیں، ان کی ڈومیسٹک کی سنچریوں کا پول اس وقت کھل گیا کہ جب وہ بھارت کے تیسرے درجے کے فاسٹ باؤلر ہرشت رانا کی ایک گیند بھی ٹچ نہیں کرسکے تھے۔ نیوزی لینڈ کی پچز پر اگر کیویز کی پوری ٹیم کھیلی تو امام الحق کی جلد گھر واپسی ہوجائے گی۔
سب کو توقع تھی کہ بابر اعظم، محمد رضوان، نسیم شاہ کو آرام دیا جائے گا لیکن سب ہی اسی طرح ٹیم پر مسلط ہیں۔
ون ڈے سیریز کے لیے منتخب ٹیم من وعن وہی ہے جس نے چیمپیئنز ٹرافی میں قومی پرچم سرنگوں کیا تھا بس ٹیم سے کراچی کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔ اب اکیلے ابرار احمد 4 کروڑ آبادی والے شہر کی نمائندگی کریں گے اور باقی کراچی رمضان میں ٹیپ بال کھیلے گا۔
ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بھی گھپلے
جس ڈھٹائی اور بے حسی سے شاداب خان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے، اس نے سب کو حیران کردیا۔ ایک ایسا کھلاڑی جو 8 ماہ سے ٹیم سے باہر ہے جس نے آخری میچ تیسرے درجہ کی ٹیم آئر لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں کھیلا ہو اور صفر رنز کا کارنامہ انجام دیا ہو، اسے براہ راست کپتان بنانے کا مشن ہو تو انسان صرف اس عقل پر ماتم کرسکتا ہے۔ موصوف نے آخری ڈومیسٹک میچ باحیثیت بلے بازکھیلا تھا اور ناکام رہے۔ اس پاکستانی گارفیلڈ سوبرز کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے ٹی وی پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز مہم چلارہے تھے۔ ایک سابق کپتان تو شاداب کے اتنے قصیدے پڑھ رہے تھے کہ اینکر کو روکنا پڑا۔ شاید شاداب کپتان بن جاتے لیکن چیئرمین صاحب نے منع کردیا اور نائب کپتانی پر اکتفا ہوا۔
اب منصوبے کے تحت ٹی ٹوئنٹی کپتان سلمان علی آغا پہلے ہی میچ میں زخمی ہوجائیں گے اور باقی 4 میچ مسٹر دوسرا کے داماد کپتانی کریں گے۔ دھوکا دینے کے لیے دو تین نوجوان کھلاڑی شامل کیے گئے ہیں لیکن انہیں کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ عمیر بن یوسف، عبدالصمد اور حسن نواز بس سفر کے مزے لیں گے کیونکہ بار بار ڈراپ ہونے والے محمد حارث اور عثمان خان ٹیم میں جو شامل ہیں جو اولیں انتخاب ہوں گے۔ لہٰذا نوجوان کھلاڑیوں کے لیے مواقع کم ہیں۔
حارث رؤف جن کی تیسرے اوور میں سانس پھول جاتی ہے، انہیں ون ڈے سے ٹی ٹوئنٹی میں سوئچ کرکے عاقب جاوید نے دوستی نبھادی ہے تاکہ طویل باؤلنگ کا بار ہی نہ ہو۔
اور پھر 32 سالہ عمر رسیدہ محمد علی کو عاکف جاوید پر ترجیح دینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہرحال جہانداد خان اور سفیان مقیم کا انتخاب ایک خوش آئند بات ہے۔ جہانداد اگر محنت کریں اور عاقب جاوید کے سائے سے بچیں تو وہ پاکستان کے مارکو جانسن بن سکتے ہیں۔
کیا واقعی بیک اپ ٹیلنٹ موجود نہیں؟
چیف کوچ عاقب جاوید کی گزشتہ تین پریس کانفرنسز سماعت کی جائیں تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ بیک اپ ٹیلنٹ موجود نہیں اور موجودہ کھلاڑی منتخب کرنا ہماری مجبوری ہے۔ عاقب جاوید جو کرکٹ کے جون ایلیا بننے کی کوشش کرنے لگے ہیں، ہر پریس گفتگو میں فلسفہ جھاڑنے لگتے ہیں اور بات اصل موضوع سے دور لے جاتے ہیں۔ ہر سوال کا طویل جواب ان کی عادت بن چکی ہے۔ عاقب کی ذہانت سے اختلاف نہیں اور وہ بلاشبہ ایک محنتی کوچ ہیں مگر کیا واقعی ایسا ہے جیسا وہ کہہ رہے ہیں کہ بیک اپ ٹیلنٹ موجود نہیں؟
شاید ان کی بات سچ ہی ہے کیونکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں جو کھلاڑی کھیل رہے ہیں، وہ بنیادی تکنیک سے بے خبر اور فٹنس میں لاپرواہی کا شکار ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک جس کا کرکٹ کلچر ہم سے بہت مماثلت رکھتا ہے، اس کے پاس اتنا بیک اپ موجود ہے کہ سوریا کمار یادو اور رشبھ پنٹ جیسے کھلاڑی باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک ہمارا سسٹم جس میں پانچویں دفعہ کم بیک کرنے والے امام الحق ٹیم کی مجبوری بن چکے ہیں۔
اس وقت ملک میں ایک بھی معیاری اسپنر نہیں اور نہ ہی عمدہ اوپنر ہے۔ اس وقت ایک ہزار سے زائد کھلاڑی پی سی بی کے نیٹ ورک پر ہیں لیکن ان میں کوئی ایک بھی بین الاقوامی معیار کا نہیں کیونکہ ڈومیسٹک کرکٹ صرف اعداد وشمار کے لیے ہورہی ہے۔ مقدار تو بہت ہے جبکہ معیار بالکل نہیں۔ تمام سابق کرکٹرز ٹی وی پر تبصرے کررہے ہیں جبکہ موجودہ کھلاڑی ٹیم میں گروپنگ، کسی کو محنت کا شوق ہے اور نہ معیار بلند کرنے کی آرزو!
سنجیدگی کا عالم تو یہ ہے کہ بابر اعظم بھارت سے اہم ترین میچ سے قبل نیٹ پریکٹس کرنے نہیں آتے جبکہ ویرات کوہلی جیسا بلے باز 4 گھنٹے مسلسل نیٹ پریکٹس کرتا ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے، اگلے دن بابر اعظم نے چند رنز جبکہ ویرات کوہلی نے سنچری اسکور کی۔
کین ولیمسن اتنے تجربے کے باوجود تین تین گھنٹہ نیٹ کرتے ہیں جبکہ ہمارے بلے باز فوٹو اور ویڈیو شوٹ ہی کرتے رہتے ہیں۔
ویرات کوہلی اور کین ولیمسن کی محنت دیکھ کر رشک آتا ہے۔ سخت گرمی میں پسینہ پسینہ ہوکر بھی اپنی تکنیک پر محنت کرنا کوئی ان جیسے کھلاڑیوں سے سیکھے۔ دراصل یہ وہ ذہنی تربیت اور خودسازی ہے جو صرف اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ تعلیم سے ملتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی کھلاڑی اس سے بہت دور ہیں۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔