بلوچستان کی ’قاتل‘ شاہراہیں
’کیا یہ راستہ محفوظ ہے؟‘ 15 سال بعد کوئٹہ سے ڈیرہ اسمعٰیل خان کا سفر کرنے والے محمد احمد نے بس ڈرائیور سے سوال کیا۔ گزشتہ چند ماہ میں سامنے آنے والی خبروں نے انہیں تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔
ڈرائیور نواز جنہوں نے برسوں بلوچستان کی سڑکوں پر بس دوڑاتے گزارے ہیں، جواب دینے سے قبل تھوڑا سا ہچکچائے اور سوچ سمجھ کر جواب دیا، ’دن میں ڈیرہ اسمعٰیل خان کی جانب سفر رات کے مقابلے میں محفوظ ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں تو صوبے کے کسی بھی ہائی وے کو مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔
بلوچستان کی سڑکیں جو اپنے خطرناک موڑ کی وجہ سے جانی جاتی تھیں، اب احمد جیسے مسافروں کے لیے پُرخطر راستے میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ 19 فروری کو پنجاب جانے والے 7 مسافروں کو برخان-ڈیرہ غازی خان ہائی وے پر قتل کردیا گیا۔ مسافر لاہور جارہے تھے جنہیں بس سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کیے گئے اور انہیں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ درحقیقت حالیہ دنوں بلوچستان میں ایسے لاتعداد واقعات رپورٹ ہوئے جہاں پنجاب جانے والی بسوں کو انتہاپسندوں نے نشانہ بنایا۔ مسلسل بدتر ہوتی صورت حال نے صوبے میں عوامی نقل و حمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی، لاقانونیت بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کی ٹارگڈ کلنگ نے ڈر اور بے یقینی کا ماحول پیدا کیا ہے۔
لیکن عوام کا واحد خوف پُرتشدد حالات نہیں بلکہ ان ہائی ویز پر ڈکیتیاں اور وارداتیں بھی تیزی سے عام ہورہی ہیں جن کی وجہ سے ان راستوں کے ذریعے سفر کرنے والوں کو خطرات لاحق ہیں جبکہ مقامی لوگ روزگار کے مسائل کا شکار ہیں۔
سلسلہ وار پُرتشدد واقعات
2025ء کے صرف ابتدائی دو ماہ میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں بالخصوص بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے بشیر زیب دھڑے نے 4 مختلف مواقع پر صوبے کی تین بڑی ہائی ویز پر ناکہ بندی کرکے گھنٹوں تک مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے۔
جبکہ امکان ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 2 مارچ کو بلوچ باغی تنظیموں کے ایک گروپ بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) نے ’ریاست کے لاجسٹک، اقتصادی اور فوجی مفادات کو متاثر کرنے کے لیے بلوچستان کی تمام اہم شاہراہوں کی ناکہ بندی کا سلسلہ تیز کرنے‘ کے منصوبے کا اعلان کیا۔
گزشتہ ماہ انتہاپسندوں نے بولان کے پہاڑی علاقے میں کوئٹہ-سکھر این-65 ہائی وے کی مختلف مقامات پر ناکہ بندی کی جس دوران انہوں نے صوبائی پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ لیاقت لہری کی سیکیورٹی ٹیم سے تین رائفلز بھی چھین لیں۔ لیاقت لہری سبی سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ واپس آ رہے تھے۔ اس واقعے کے صرف ایک دن بعد سیندک پروجیکٹ سے بلاسٹر تانبے کو کراچی لے جانے والے ٹرکوں کا قافلہ ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں عسکریت پسند حملے کی زد میں آیا۔
اس سے قبل 31 جنوری کو کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی آر سی ڈی ہائی وے (این-25) پر قلات کے علاقے منگچر میں کالعدم بی ایل اے سے وابستہ عسکریت پسندوں نے ناکہ بندی کی جس کے نتیجے میں 18 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ اس سڑک پر ہونے والے حادثات اور اموات کی وجہ سے یہ اب ’قاتل شاہراہ‘ بن چکی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ سال اگست میں بی ایل اے نے منظم کارروائی کرتے ہوئے موسیٰ خیل ضلع میں شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد 40 مسافروں کو قتل کیا جوکہ حالیہ برسوں میں خطے میں اس نوعیت کا بدترین واقعہ تھا۔ یہ 2024ء میں دوسرا واقعہ تھا۔ اپریل 2024ء میں بلوچستان کے نوشکی شہر کے قریب 9 مسافروں کو بس سے اتار کر شناخت کے بعد مسلح افراد نے قتل کردیا تھا۔
بس ڈرائیور نواز نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ گزشتہ ماہ درابند جو مقامی لوگوں میں علاقہِ غیر کے نام سے جانا جاتا ہے، میں ڈیرہ اسمعٰیل خان اور بلوچستان کے شیرانی کے درمیان ان کا سامنا عسکریت پسندوں سے ہوا۔ انہوں نے بتایا، ’میں اس مقام کے بارے میں پہلے سے واقف تھا اس لیے میں نے اپنی بس سیکیورٹی چوکی کی جانب موڑ لی لیکن سیکیورٹی اہلکاروں نے ہم سے کہا کہ ہم کوئی اور راستہ تلاش کریں‘۔
محصور اور پریشان حال مسافر
بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور ریاست کی بڑھتی پابندیوں کے درمیان بلوچ عوام بیگانگی کے احساس میں مبتلا ہیں جہاں وہ انسانی، سیاسی اور معاشی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کے لیے اپنی آواز اٹھانے کا واحد راستہ احتجاج ہے۔
تاہم یہ مظاہرین عموماً ہائی ویز سے سفر کرتے ہیں جس سے مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق یکم جنوری سے مختلف وجوہات کی بنا پر نیشنل ہائی وے 76 بار بند ہوچکی ہے۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب سرفراز بگٹی نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہجوم قومی شاہراہیں بلاک کردیتے ہیں اور جبری گمشدگیوں کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ سڑکوں کو دوبارہ کھولنے میں کسی بھی نااہلی کا مظاہرہ کرنے پر متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کراچی کے یوسف گوٹھ میں ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور زاہد بلوچ نے بہت زیادہ بندشیں اور ناکہ بندی دیکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’مکران پٹی سے زیادہ تر مسافر علاج کے لیے کراچی جاتے ہیں، اگرچہ یہ کوئٹہ جتنا ہی دور ہے مگر لوگ کراچی سے زیادہ مانوس ہیں۔ لیکن اب احتجاج کی وجہ سے زیادہ تر سڑکیں بند ہی رہتی ہیں‘۔
کراچی-کوئٹہ شاہراہ سب سے زیادہ متاثرہ سڑکوں میں شامل ہے جوکہ بلوچستان کے لوگوں کے لیے نقل و حمل کی اہم ترین شاہراہ ہے جبکہ متاثرہ لوگوں میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں جو طبی علاج، کاروبار اور بیرونِ ملک سفر کرنے کے لیے اسی شاہراہ کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو ماہ میں یہ راستہ سیکیورٹی خطرات، ناکہ بندی اور مظاہروں کی وجہ سے بند ہے جس نے ہزاروں مسافروں کو محصور کررکھا ہے۔
کوئٹہ میں مقیم صحافی زین الدین احمد کہتے ہیں کہ ’کراچی کے ایک ہسپتال میں میرے بیٹے کی اپائنٹمنٹ تھی لیکن شاہراہ کی بندش کے باعث مجھے تین بار اپائنٹمنٹ منسوخ کرنا پڑی۔ جب بھی میں سفر کا اعادہ کرتا ہوں تو کوئی نیا سیکیورٹی خطرہ پیدا ہوجاتا ہے یا مظاہرہ شروع ہوجاتا جس کے باعث میرے لیے سفر کرنا ناممکن ہوجاتا ہے‘۔
زین الدین احمد کی طرح بلوچستان کے ہزاروں لوگ سستے متبادل کی کمی کے باعث صوبے سے آنے یا جانے کے لیے بذریعہ سڑک سفر کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ تاجر جاوید اچکزئی کے مطابق کراچی سے کوئٹہ کے ہوائی سفر کا ٹکٹ حالیہ دنوں 18 ہزار سے 60 ہزار تک پہنچ چکا ہے کیونکہ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے ہوائی سفر زیادہ کیا جارہا ہے۔
ٹرانسپورٹ کا شعبہ متاثر
عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں، بھتہ خوری اور طویل سیکیورٹی چیکنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے یقینی نے ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیورز کو پریشانی میں مبتلا کیا ہے جبکہ کاروباری حضرات اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ کام جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ اس کے باوجود متعدد ٹرانسپورٹ کمپنیز نے یا تو اپنی سروسز کم کردی ہیں یا پُرخطر راستوں سے سفر کرنے سے اجتناب کررہے ہیں۔ ان تمام عوامل سے شہریوں کی نقل و حمل شدید متاثر ہورہی ہے۔
بلوچستان ٹرانسپورٹ یونین کے ترجمان ناصر شاہوانی کے مطابق لوگ اب سفر کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ پہلے بلوچستان سے کراچی تک 200 مسافر بسیں فعال تھیں لیکن اب یہ تعداد کم ہوگر 100 رہ گئی ہے جوکہ صوبے کے ٹرانسپورٹ سیکٹر کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
اسی طرح سبزیوں، پھلوں اور دیگر مصنوعات کی ترسیل بھی متاثر ہے۔ ناصر شاہوانی بتاتے ہیں کہ ’بہت سے ٹرانسپورٹرز گاڑیوں کے لیے قرضے لیتے ہیں لیکن اب موجودہ صورت حال میں ان کے لیے بینک کی اقساط ادا کرنا مشکل ہوگیا ہے‘۔
بلوچستان کی ناقص اور سنگل لین ہائی ویز پر گاڑی چلانا پہلے سے ہی ایک تھکا دینے والا پُرخطر پیشہ ہے جس کی اجرت بھی کم ملتی ہے۔
50 سالہ محمود اختر کوئٹہ کے مصروف موسیٰ کالونی بس اسٹاپ کے انچارج ہیں۔ وہ 20 سال کی عمر میں ایک حادثے میں اپنے دائیں ٹانگ سے معذور ہوگئے تھے۔ وہ ہر روز بسوں اور کوچز کے درمیان لنگڑا لنگڑا کر اپنا کام کرتے ہیں۔
6 ماہ قبل کوئٹہ-سکھر سنگل لین ہائی وے پر پیش آنے والے ایک روڈ حادثے میں محمود نے اپنے بیٹے مقصود کو کھو دیا۔ مقصود وین کنڈکٹر تھے۔ پریشان حال والد ڈان ڈاٹ کام کو بتاتے ہیں کہ ’غربت کی وجہ سے ہم یہ نوکری کررہے ہیں جو اب ہماری جانیں لے رہی ہے‘۔
مچھ سے پنجاب تک کوئلے کی ترسیل کرنے والے ٹرک ڈرائیور مدتھ سومالانی بھی متفق ہیں۔ انہوں نے کہا ’یہ قابل احترام نوکری نہیں ہے‘۔ مزید کہا کہ ٹرانسپورٹ کا کاروبار، پولیس، ہوٹل بزنس، گاڑیوں کی صنعتوں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
حادثات میں نمایاں اضافہ
ٹرانسپورٹ کے اچھے نظام کی اہمیت کے ادراک کے باوجود بلوچستان کی شاہراہوں کی حالت ہمیشہ سے ہی بدتر ہے۔ اپنی کتاب ’A Cry for Justice‘ میں ماہر معاشیات قیصر بنگالی اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح خاران، واشک، آواران اور کیچ کے کچھ حصوں میں سڑکوں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی کمی ہے۔
3 لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے صوبہ بلچستان میں دوطرفہ سڑکوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے سفر سُست اور خطرناک بن چکا ہے۔
میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹر 1122 کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوری 2025ء میں صوبے میں ایک ہزار 831 روڈ حادثات رپورٹ ہوئے جن کے نتیجے میں 39 افراد ہلاک جبکہ 2 ہزار 409 افراد زخمی ہوئے۔ یہ حادثات مستونگ، قلات، لسبیلہ، چمن، قلعہ سیف اللہ، ژوب، سبی، لورالائی، جعفرآباد، کیچ، پنجگور اور خضدار سمیت دیگر علاقوں میں پیش آئے۔
ایم ای آر سی کے اعداد و شمار نے مزید بتایا کہ اکتوبر 2019ء اور جنوری 2025ء کے درمیان، بلوچستان کی شاہراہوں پر 80 فیصد سڑک حادثات کی زد میں موٹر سائیکل سوار آئے۔
ریسپانس سینٹر کے ڈائریکٹر ریاض رئیسانی نے نشاندہی کی کہ ڈرائیور اور مسافر دونوں نے حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں کیا تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ زیادہ تر موٹر سائیکل سوار ہائی ویز پر ہیلمٹ اور حفاظتی دستانے نہیں پہنتے۔ اسی طرح چھوٹی گاڑیوں کے مسافروں نے سیٹ بیلٹ نہیں لگایا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رات میں لائٹس نہ ہونے اور خطرناک موڑ بھی بڑھتے روڈ حادثات کی وجوہات میں شامل ہیں۔
’موت کا سفر‘
صوبائی حکومت کے لاتعداد وعدوں کے باوجود سڑکوں کو بہتر بنانے میں پیش رفت انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ شاہراہوں کی بروقت تعمیر کو یقینی بنانے کے لیے قانونی کوششیں کی گئی ہیں لیکن بڑے حصے اب بھی نامکمل ہیں۔
ایڈووکیٹ الہٰی بخش مینگل جنہوں نے چمن-کوئٹہ-کراچی ہائی وے ڈبل کیریج وے کی تکمیل میں تاخیر کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی، نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کی جانب سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو اس روٹ کے لیے 19 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن این ایچ اے اس رقم کے مؤثر استعمال میں ناکام رہا۔
اس کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس نے کئی سماعتوں کے بعد این ایچ اے کو حکم دیا کہ وہ کم رقم کے استعمال کا جواز فراہم کرے اور فوری طور پر تعمیر شروع کرے۔ الہٰی بخش نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا، ’اس کے بعد کچھ پیش رفت ہوئی لیکن منصوبے کا ایک بڑا حصہ اب بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے‘۔
حکومت کی عدم دلچسپی اور اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بلوچستان کی شاہراہیں ایسے خطرناک علاقوں میں تبدیل ہوچکی ہیں جہاں مسافروں، ٹرانسپورٹرز اور سیکیورٹی اہلکاروں کو جان کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ عسکریت پسندوں، ڈاکوؤں اور بار بار ہونے والے مظاہروں سے سفر میں خلل پڑتا ہے جبکہ صوبے کا ٹرانسپورٹ سیکٹر تباہی کے دہانے پر ہے۔
بہتر حفاظتی اقدامات، بنیادی انفرااسٹرکچر کی بہتری اور حکومتی مداخلت کی اشد ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاتا، بلوچستان کی سڑکوں پر گزرنے والوں کے لیے یہ موت کا سفر جاری رہے گا۔
ہیڈر: کراچی کوئٹہ ہائی وے پر سنگل کیریج وے پر اوور لوڈ گاڑی—تصویر: لکھاری
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
مصنف صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان اور ایران کے سیستان و بلوچستان صوبوں میں سیاسی ترقی اور سلامتی میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ کا ایکس ہینڈل ImtiazBaluch@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔