پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کا پھیکا اختتام اور بھارت کا ’ایڈوانٹیج‘
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین احسان مانی اور اس وقت کے چیف آپریٹنگ آفیسر وسیم خان کی کوششوں سے پاکستان میں 29 سال بعد آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کا اعلان ہوا تو یہ پورے پاکستان کی طرح بطور کھیلوں کے صحافی میرے لیے بھی ایک زبردست خبر تھی۔
ایک ایسا ملک جس سے 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے بین الاقوامی کرکٹ روٹھ گئی تھی اور 2009ء سے 2019ء تک پاکستان کو اپنے میچز نیوٹرل مقام پر کھیلنے پڑے تھے، ایسے ملک میں آئی سی سی ایونٹ کا انعقاد کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
احسان مانی اور وسیم خان کو داد دینی پڑے گی کہ جنہوں نے آئی سی سی کے فورم پر بہترین انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑا اور پھر رمیز راجا کے دور میں چیمپیئنز ٹرافی کے حوالے سے جب حتمی خبر سامنے آئی تو پوری قوم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
2007ء میں جب بطور اسپورٹس صحافی میں نے اپنے کریئر کا آغاز کیا تو 2008ء میں ہی کراچی میں ایشیا کپ کور کرنے کا موقع ملا جس کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ اس وقت نہ صرف بھارتی ٹیم پاکستان آئی تھی بلکہ سری لنکا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اگرچہ پاکستان 2008ء کے ایشیا کپ فائنل میں نہیں پہنچ سکا تھا لیکن بھارتی ٹیم کی پاکستان آمد، ایونٹ کے پاکستان میں مکمل انعقاد اور فائنل بھی کراچی میں ہونے کے باعث ایونٹ کا لطف خوب آیا تھا۔
گو کہ فائنل میں پاکستان کی کمی پاکستانی شائقین نے شدت سے محسوس کی لیکن مجھے آج بھی یاد ہے کہ فائنل میں سری لنکا کے مسٹری اسپنر اجنتا مینڈس نے بھارتی بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ اجنتا مینڈس کا اسپیل اتنا یادگار تھا کہ بھارت کے کامیاب ترین کپتان مہندرا سنگھ دھونی سے جب فائنل کے حوالے سے سوالات کیے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ آج ہر سوال کا جواب اجنتا مینڈس سے ہی شروع ہوگا۔
خیر اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں پہلا آئی سی سی ایونٹ کور کرنے کے لیے 17 سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔
پی سی بی نے کہاں غلطی کی؟
ایونٹ کی میزبانی کے اعلان کے کچھ عرصے بعد ہی بھارتی میڈیا اور ان کے صحافیوں نے یہ خبر دینا شروع کردی کہ بھارتی ٹیم کسی صورت پاکستان نہیں جائے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام سے بھی گاہے بہ گاہے اس حوالے سے سوالات ہوتے رہے لیکن سب اچھا ہے کی خبر ملتی رہی مگر پھر ہوا وہی جو بھارتی میڈیا رپورٹ کررہا تھا۔ یعنی چیمپیئنز ٹرافی سے چند ماہ قبل بھارت نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے خوب مزاحمت کی اور کوشش کی کہ دنیا کی دیگر ٹیموں کی طرح بھارت بھی پاکستان آکر آئی سی سی ایونٹ کھیلے۔ مودی سرکار ایک بار پھر کھیلوں میں سیاست کو لے آئی مگر محسن نقوی اور پی سی بی کی مزاحمت جاری رہی۔ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ آئی سی سی بے بس ہوا تو ایونٹ کی پاکستان سے منتقلی یا منسوخی کی خبریں سامنے آنے لگیں۔
مسئلے کا حل پھر یوں نکالا گیا کہ آئی سی سی اور دیگر بورڈز کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت ایک فارمولے پر راضی ہوئے اور جس ہائبرڈ فارمولے کا ذکر پہلی بار ایشیا کپ میں سنا گیا تھا، وہی فارمولا چیمپیئنز ٹرافی میں بھی لاگو ہوگیا۔ شاید ایشیا کپ میں ہائبرڈ ماڈل تسلیم کرنا پاکستان کی وہ سنگین غلطی تھی جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی ایونٹ بھی ہائبرڈ ماڈل پر منتقل ہوگیا۔
آئی سی سی نے جب یہ اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت آئندہ تین سالوں کے لیے ایک دوسرے کے ملک میں کرکٹ نہیں کھیلیں گے تو اس پر تنقید کرنے والے بھی کم نہیں تھے لیکن بہت سے حلقوں نے پاکستان میں 29 سال بعد آئی سی سی ایونٹ اور دنیا کی 6 بہترین ٹیموں کی پاکستان آمد کی خوش آئند خبر پر اکتفا کرلیا۔
پاکستان نے بطور میزبان ہائبرڈ ماڈل کے لیے سری لنکا اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں سے یو اے ای کا انتخاب کیا جس کی وجہ 2009ء سے 2019ء تک یو اے ای کا پاکستان کرکٹ کا دوسرا گھر کہلانا تھا۔ امارات کرکٹ بورڈ کے ساتھ انتہائی دیرینہ تعلقات اور پھر دبئی کے جدید اسٹیڈیم میں پاک-بھارت اور بھارت کے دیگرمیچز کے مہنگے داموں ٹکٹوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی گیٹ منی کی رقم بھی وجوہات میں شامل تھی۔
اس فیصلے نے بھارت کو جہاں بے پناہ فائدہ پہنچایا وہیں سابق کرکٹرز بھی چیمپیئنز ٹرافی سے قبل اور دوران شدید تنقید کرتے رہے۔ ناصر حسین ہوں یا مائیکل ایتھرٹن، پیٹ کمنز ہوں یا مائیکل کلارک جبکہ ایونٹ کے آخری مراحل میں جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کے کرکٹرز، سب نے اسے بھارت کے لیے بڑا ’ایڈوانٹیج‘ قرار دیا۔
افسوس تو تب ہوا جب سابق بھارتی کپتان سنیل گواسکر نے معاملے پر لب کشائی کی بھی تو انگلش کمنٹیٹرز کو بھارت سے کمائی کا طعنہ دے ڈالا۔
چیمپیئنز ٹرافی کا جوش ماند
چیمپیئنز ٹرافی سے قبل پاکستان میں ہونے والی سہ ملکی سیریز میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والا فائنل چیمپیئنز ٹرافی جیسے میگا ایونٹ سے قبل جوش بڑھانے کے لیے زبردست اقدام تھا۔ تاہم سہ ملکی سیریز میں پہلے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں گروپ میچ میں شکست اور پھر فائنل میں شکست نے اس بات کا تو عندیہ دے دیا تھا کہ آنے والی چیمپیئنز ٹرافی پاکستان کے لیے کسی طور آسان نہیں ہوگی۔
چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کا اعلان ہوا تو شائقین سے کرکٹ ماہرین تک حتیٰ کہ بین الاقوامی تجزیہ کاروں اور کرکٹرز نے بھی صرف ایک اسپیشلسٹ اسپنر کی پاکستان اسکواڈ بھی شمولیت پر حیرانی کا اظہار کیا تھا۔ حتیٰ کہ سہ ملکی سیریز میں پاکستان ٹیم کی ملی جلی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بھی سیلیکٹرز اور ہیڈ کوچ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور پھر ہوا وہی جس کا خدشہ تھا۔
خوب انتظار کے بعد 19 فروری کی تاریخ آئی۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں چیمپیئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں آمنے سامنے آئیں تو ایسا لگا جیسے وطن عزیز میں حقیقی معنوں میں کوئی میلہ سج گیا ہے۔ تاہم پہلے ہی میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کی وہ درگت بنائی کہ شائقین کرکٹ کو ایونٹ کے پہلے ہی دن پاکستان کے چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہونے کا خدشہ لاحق ہوگیا۔
سوال یہ تھا کہ بورڈ کے آفیشل اس وقت کیا کررہے تھے جب آئی سی سی شیڈول بنا رہا تھا۔ بطور میزبان پاکستان نے نہ صرف پہلا میچ نیوزی لینڈ جیسی تگڑی ٹیم سے کھیلا بلکہ صرف تین ہی دن بعد پاکستان کو بھارت کی فیورٹ ٹیم سے بھی مقابلہ کرنا تھا۔ پاکستان کی نسبت بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش سے پہلے میچ کھیل کر بڑے میچز کی تیاری کی بلکہ ساتھ ہی اپنا مورال بھی بلند کیا۔
یہاں میں سابق کپتان وقار یونس کی اس بات سے 100 فیصد متفق ہوں کہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی یا اس طرح کے کسی بھی ایونٹ کے فارمیٹ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھے کھیل کی بدولت کوئی بھی ٹیم کسی فارمیٹ میں آگے بڑھ سکتی ہے لیکن ایونٹ کے تیسرے یا چوتھے دن ہی میزبان ملک پھر پانچویں دن بنگلہ دیش کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہوئی تو ٹورنامنٹ سے آدھی دلچسپی ہی ختم ہوگئی۔
میزبان پاکستان چونکہ ہائبر ماڈل تسلیم کر چکا تھا تو فائنل ہونے کی صورت میں بھارتی ٹیم کو دبئی میں کھیلنے کا فائدہ دے بیٹھا تھا۔ چوتھے ہی دن بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان کا ایونٹ سے باہر ہوجانا ایک ایسا دھچکا تھا جس سے پاکستانی شائقین کرکٹ اب تک نکل نہیں پائے ہیں۔ غلط سلیکشن، کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی نے پاکستان کو ایونٹ کے چوتھے ہی دن ایونٹ سے باہر کردیا۔
ابتدا میں پاکستانیوں نے نیوٹرل میچز جیسے کہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے میچ کو انتہائی یادگار بنایا اور پھر کراچی میں افغانستان اور جنوبی افریقہ کے میچ میں بھی 80 فیصد میدان تماشائیوں سے بھرا تھا جبکہ ان کے شور نے نیوزی لینڈ اور افغان کھلاڑیوں کو بھی حیران کردیا تھا لیکن جیسے ہی پاکستان ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہوئی جوش و خروش کا پارا نیچے آگرا۔
ایونٹ پاکستان کا تھا یا بھارت کا؟
دوسری جانب بھارتی کرکٹ ٹیم کا ایڈوانٹیج ہر گزرتے دن کے ساتھ عیاں ہوتا گیا۔ حتی کہ جس روز بھارت اور نیوزی لینڈ ٹورنامنٹ کا آخری گروپ میچ کھیل رہے تھے، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں بھی دبئی میں موجود تھیں اور پاکستان میں بیٹھے شائقین کرکٹ اور صحافی یہ بات سوچنے پر مجبور تھے کہ میزبان پاکستان سے زیادہ اس ایونٹ کا فائدہ بھارت نے اٹھایا ہے۔
پاکستان سمیت ایونٹ میں شریک تمام ٹیمیں کبھی لاہور کبھی کراچی کبھی راولپنڈی اور پھر آخری دنوں میں دبئی کا بھی چکر لگاتی رہیں لیکن بھارت کی ٹیم وی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ دبئی کے اسٹیڈیم کے قریب ہوٹل میں رہائش پذیر رہی اور ان کو صرف اتنی ہی زحمت کرنا پڑی کہ روز ہوٹل سے چند منٹ کی مسافت طے کرکے دبئی کے اسٹیڈیم میں آنے جانے کی ذرا سی تکلیف کرلیں۔
کرکٹ کو سمجھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ ایک ہی وینیو اور پچ پر کھیلنے کی وجہ سے آپ کی سیلیکشن بھی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ بھارت نے ایونٹ کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب انتہائی مہارت سے کیا اور اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔
یہاں تک کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سینئر فاسٹ فاؤلر محمد شامی نے بھی آسٹریلیا کے خلاف میچ میں فتح کے بعد اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ’ یقینی طور پر پچ کنڈیشن اور ایک میدان نے ہماری مدد کی ہے، یہ ایک پلس پوائنٹ ہے کہ آپ تمام میچز ایک ہی مقام پر کھیل رہے ہیں۔’
تادمِ تحریر بھارت اور نیوزی لینڈ کی ٹیم میں فائنل میں پہنچ چکی ہیں۔ بھارت نے اپنے تمام میچز دبئی کی ایک ہی اسٹیڈیم پر کھیلے جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پہلا میچ کراچی، دوسرا راولپنڈی پھر دبئی اور پھر سیمی فائنل لاہور میں کھیل چکی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر جنوبی افریقہ کی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچتی تو یہ وہ ٹیم تھی جس نے تمام میچز پاکستان میں کھیلے جبکہ اسے فائنل دبئی میں جا کر کھیلنا پڑتا۔
آئی سی سی چیمپینز ٹرافی 2025ء کا میگا ایونٹ جس کے 29 سال بعد پاکستان میں انعقاد پر جیسی خوشی اور جوش و خروش نیشنل اسٹیڈیم کراچی اور پاکستان میں محسوس کیا گیا، اس کا اختتام اتنی ہی پھیکے انداز اور خاموشی کے ساتھ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے دوسرے سیمی فائنل کے ساتھ ہوگیا۔
5 مارچ کو قذافی اسٹیڈیم میں نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے سیمی فائنل کے ساتھ ہی پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کا میلہ اختتام کو پہنچا تو پاکستانی شائقین، سابق کرکٹرز، صحافی حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر بھی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ آیا یہ ایونٹ پاکستان کا تھا یا بھارت کا؟
حرفِ آخر
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی ٹیم نے حالیہ عرصے میں آئی سی سی ایونٹس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے 2023ء کے ون ڈے فارمیٹ ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا، 2024ء کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فاتح بنی اور اب چیمپیئنز ٹرافی 2025ء کے فائنل میں بھی رسائی حاصل کرچکی ہے لیکن بقیہ دو میگا ایونٹ کی نسبت بھارتی ٹیم اگر ٹرافی جیت بھی گئی تو اسے متنازع ہی سمجھا جائے گا جس کی وجہ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں بھارت کا صرف ایک ہی وینیو پر تمام میچز کھیلنا ہے۔
بھارت کی ٹیم جس قدر ٹیلنٹڈ ہے شاید اس فائدے کے بغیر بھی ٹورنامنٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن اس پورے عمل نے ان کی کامیابی اور پوری چیمپیئنز ٹرافی پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔
اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ جب 2026ء کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ آئے گا تو پی سی بی، آئی سی سی اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے کیا معاملات ہوں گے۔ کیا پاکستان ٹیم کو بھی بھارت کی طرح سری لنکا کے ایک ہی وینیو پر تمام میچز کھیلنے کا موقع ملے گا؟ کیا بھارتی ٹیم اپنا میچ پاکستان کے خلاف بھارت کے بجائے سری لنکا میں کھیلنے پر آمادہ ہوگی؟ اور اگر پاکستان فائنل میں پہنچ گیا تو وہ فائنل بھارت کے بجائے سری لنکا میں ہوگا؟ تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
اس پوری صورت حال میں دیگر ٹیموں کے مقابلے میں بھارت کو موجودہ ایونٹ میں ملنے والی سہولیات اور فوائد جبکہ ممکنہ طور پر اگر پاکستان کو 2026ء ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہی تمام فوائد حاصل ہوئے تو دونوں میگا ایونٹ کی ساکھ تنقید کا نشانہ بنی رہے گی۔ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ کس طرح تمام ٹیموں کو یکساں طور پر ٹریٹ نہیں کیا گیا۔
چیمپیئنز ٹرافی کے بہانے قذافی اسٹیڈیم لاہور اور نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی تزئین و آرائش تو ہوگئی جبکہ ہمیں آئی سی سی کے 65 لاکھ ڈالرز بھی مل جائیں گے لیکن کیا ہم اس میگا ایونٹ سے وہ فائدہ اٹھا سکے جس کی بدولت پاکستان میں کرکٹ کو فروغ اور نئی نسل کا اس جانب رجحان بڑھتا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت اور مستقبل میں سامنے آنے والا ٹینلٹ دے گا۔
ہیڈر: 5 مارچ 2025ء کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیمی فائنل کرکٹ، تماشائی تقریباً خالی اسٹینڈز میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہیں—تصویر: عارف علی / اے ایف پی
لکھاری ڈان نیوز چینل کے اسپورٹس ہیڈ اور پروگرام ‘ری پلے’ کے اینکر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔