• KHI: Zuhr 12:42pm Asr 4:58pm
  • LHR: Zuhr 12:13pm Asr 4:25pm
  • ISB: Zuhr 12:18pm Asr 4:29pm
  • KHI: Zuhr 12:42pm Asr 4:58pm
  • LHR: Zuhr 12:13pm Asr 4:25pm
  • ISB: Zuhr 12:18pm Asr 4:29pm

اداریہ: گلوبل ٹیررازم انڈیکس پر پاکستان کی ناقابلِ رشک ’کامیابی‘

شائع March 7, 2025
20 سال قبل بھی پاکستان کو اسی طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا تھا — فوٹو: اے پی
20 سال قبل بھی پاکستان کو اسی طرح کی مشکل صورتحال کا سامنا تھا — فوٹو: اے پی

پاکستان نے ایک اور ناقابلِ رشک ’کامیابی‘ حاصل کرلی ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025ء کے مطابق دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر آچکا ہے جبکہ اس سے اوپر صرف برکینا فاسو اور اس سے نیچے شام ہے۔

اس کے علاوہ فہرست کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو پاکستان کی ریاست اور عوام کے خلاف خونریز مہم چلا رہی ہے، دنیا کی 4 خطرناک ترین دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہے۔

یہ بحث چھیڑنے سے قبل کہ اس طرح کی رینکنگ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی، اس مطالعے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کو احتیاط سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار اچھے اشارے نہیں دے رہے۔

مثال کے طور پر 2023ء میں 517 دہشت گرد حملے ہوئے لیکن گزشتہ سال ایک ہزار 99 حملے ہوئے جن میں نصف سے بھی زائد حملوں کی ذمہ دار ٹی ٹی پی تھی۔ یہ انڈیکس اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ حصے ہیں جہاں 96 فیصد دہشت گرد حملے ہوئے۔

اگرچہ ٹی ٹی پی نے سب سے زیادہ دہشت گرد حملے کیے لیکن یہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) تھی جو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے خودکش حملے میں ملوث تھی جس میں 2024ء میں کسی بھی ایک حملے میں سب سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئیں۔

رپورٹ جس پریشان کُن صورتحال کی جانب اشارہ کرتی ہے، وہ ہمیں اس مشکل دور کی یاد دلاتا ہے کہ جس کا پاکستان کو تقریباً 20 سال قبل سامنا کرنا پڑا تھا جب وہ اسی طرح کی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹ رہا تھا جس کی قیادت ان کے لیے نقصان دہ عناصر نے کی تھی۔

بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد ٹی ٹی پی اور دیگر انتہا پسند گروہوں کو پاکستان میں اپنی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کرنے کا حوصلہ ملا ہے۔ انڈیکس اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر پاک فوج نے کہا ہے کہ بنوں کینٹ پر حالیہ حملے میں افغان شہری ملوث تھے۔

تاہم جو چیز پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو دشوار بنا رہی ہے، وہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات اب بھی خراب ہیں۔ مثال کے طور پر طورخم بارڈر تنازع پر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان کئی دنوں سے جھڑپ جاری ہے۔ بلاشبہ یہ مشکل ہے لیکن ٹی ٹی پی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائی جائے۔

گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان عسکریت پسندی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ’فوجی، سیاسی اور سماجی اقتصادی اقدامات‘ لے۔ اس کے باوجود سیاسی حلقے آپس میں جھگڑنے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں احساس نہیں کہ ہمارا ملک دہشت گردی کے بڑے بحران کا سامنا کر رہا ہے جبکہ دیگر طاقتور ادارے ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ اور اس طرح کے دیگر ’خطرات‘ کے حوالے سے زیادہ فکر مند نظر آتے ہیں۔

اگر ہم دہشت گردی کے موجودہ خطرے سے نمٹنے کے لیے وقت پر بیدار نہیں ہوئے تو معاشی بحالی اور قومی ہم آہنگی کے خواب چکناچور ہوسکتے ہیں۔ متحرک حکمت عملی اور طویل مدتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے سول اور فوجی ایجنسیوں، قانون سازوں اور آزاد ماہرین کی مدد سے ایک مؤثر انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی تیار کرنا انتہائی ضرروی ہے۔

اس حوالے سے بین الاقوامی شرکت داروں کے ساتھ تعاون بھی کلیدی ثابت ہوگا جیسا کہ کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث داعش کے دہشت گرد کی کامیاب گرفتاری نے ظاہر کیا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 9 مارچ 2025
کارٹون : 8 مارچ 2025