اسلام آباد میں عورت مارچ اختتام پذیر، پولیس نے شرکا کو ڈی چوک جانے سے روک دیا
اسلام آباد میں عورت مارچ ہفتہ کی سہ پہر اس وقت اختتام پذیر ہوا جب پولیس نے مارچ کے شرکا کو ڈی چوک کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق 2018 میں عورت مارچ کے آغاز سے اب تک خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہر سال ملک بھر میں عورت مارچ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
مارچ سے ایک روز قبل، وفاقی دارالحکومت میں عورت مارچ کے منتظمین نے انتظامیہ سے باضابطہ اجازت نہ ملنے کے باوجود اپنے مجوزہ پروگرام کو آگے بڑھانے اور نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی نکالنے کا عہد کیا تھا۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم گزشتہ سالوں کی طرح نیشنل پریس کلب (این پی سی) کے باہر مظاہرہ کریں گے، اور (خواتین کے عالمی دن کے موقع پر) ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کریں گے۔
آج عورت مارچ کے شرکا نیشنل پریس کلب کے باہر پلے کارڈز، بینرز اور لاؤڈ اسپیکرز کے ساتھ جمع ہوئے۔
شرکا کی جانب سے احتجاج کے مقام پر خالی چارپائیاں رکھی گئیں جن پر ’خواتین کے حقوق‘ اور ’جمہوریت‘ کے پلے کارڈ لگائے گئے، یعنی ان کا اشارہ ملک میں خواتین کے حقوق اور جمہوریت کی غیر موجودگی کی جانب تھا، جب کہ مارچ کے شرکا نے ڈھول بجاتے ہوئے نعرے بازی بھی کی۔
دوسری جانب، عورت مارچ کے مقام پر ہی امریکا میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ایک ایک مظاہرہ بھی کیا گیا۔
عورت مارچ کے شرکا نے جیسے ہی این پی سی سے ڈی چوک کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے اہم سڑکیں بند کردیں جس کے باعث مارچ منسوخ کردیا گیا۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ منتظمین کو معمول کے مطابق این او سی نہیں ملا۔
انہوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے مظاہرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کے پاس ساؤنڈ سسٹم موجود تھا لیکن ہماری گاڑی میں موجود سسٹم کو وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ہم خواتین کا دن مناتے ہیں تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں جب کہ خواتین کی طاقت اور ہمت کی وجہ سے ہم رمضان المبارک میں بھی اس مارچ کو انجام دینے میں کامیاب رہے۔
ایک سوال کے جواب میں فرازانہ باری نے کہا کہ ہمارے مطالبات آج بھی وہی ہیں جو ہم گزشتہ کئی سالوں سے کرتے آرہے ہیں لیکن کبھی عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال ہم نے ریاست سے کہا ہے کہ اگر وہ پاکستان کی 12 کروڑ خواتین اور ان کی صحت، تعلیم اور تحفظ کو ترجیح دینے میں ناکام رہے تو وہ ریاست سے مزید کٹ جائیں گی، لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر خواتین خود مختار اور آزاد ہو جائیں گی تو قوم بھی آزاد ہو جائے گی۔
عورت مارچ کے انسٹاگرام کے ایک پوسٹ کے مطابق رواں سال پہلی بار ملک بھر میں مختلف تاریخوں پر مارچ کا انعقاد کیا جائے گا، اس سال لاہور، ملتان، کراچی اور پہلی بار میرپور خاص میں مارچ اسی جذبے کے ساتھ لیکن نئی تاریخوں پر ہوں گے جب کہ کراچی اور میرپور خاص میں مارچ 11 مئی کو ہوں گے۔
12 فروری کو سینکڑوں خواتین نے لاہور میں عورت مارچ میں شرکت کی جس میں خواتین کے لیے آزادی اور سماجی انصاف کا مطالبہ کیا گیا۔