ٹرمپ کا اظہارِ تشکر اور امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی
جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک کو خوش کرنا اور انہیں ایک دوسرے سے غیرمحفوظ محسوس کروانا کس قدر آسان ہے، اس کا ثبوت ہم نے گزشتہ ہفتے دیکھا کہ جب کانگریس سے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل ایئرپورٹ پر ’ایبے گیٹ‘ بم حملے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مبینہ ملزم کی گرفتاری میں مدد اور اس کی امریکا حوالگی پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
اگست 2021ء میں یہ خودکش حملہ اس وقت ہوا کہ جب طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے چند دن بعد امریکا افغانستان سے جلدبازی میں انخلا کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اس حملے میں 170 بےبس افغان شہری جاں بحق ہوئے جو تنازعات سے متاثرہ اپنے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے لیکن یہ بم حملہ زیادہ افسوسناک اس لیے تھا کیونکہ اس میں 13 امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
افسوسناک اس لیے تھا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم جیسے لوگوں یعنی افغان، پاکستانی، عراقی، سوڈانی، فلسطینی (اور اس فہرست میں بہت سے دیگر ممالک کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے) کی جانوں کی قیمت بہت کم ہے اور ہم جیسے ہزاروں لوگوں کو نتائج کی پروا کیے بغیر مارا جا سکتا ہے لیکن جب کسی ’قابلِ قدر‘ قیمتی شہری کی جانب چلی جاتی ہے تو دنیا کا ردعمل انتہائی مختلف ہوتا ہے۔
ہماری حالت زار کی وجہ ہمارے رویوں میں عیاں ہے۔ ذرا یہی ملاحظہ کیجیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے شکریہ ادا کرنے پر ہمارا ردعمل کیسا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی صدر سے اظہارِ تشکر میں ایک طویل پیغام ایکس پر پوسٹ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ ایک اکاؤنٹ نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم نے پہلے ٹرمپ کو اپنی پوسٹ میں ٹیگ کیا لیکن بعدازاں تنقید کے باعث انہوں نے ٹیگ ہٹا دیا۔
پاکستان کا امریکا اور امریکی مالی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن بھارت خود کو امریکا کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے جو چین پر مرکوز امریکی پالیسی کا اہم کردار ہے جبکہ بھارت کا ماننا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ کسی ایک ملک پر بھروسہ کیے بغیر دیگر ممالک کے ساتھ مساوی تعلقات کو سنبھال سکتا ہے۔
اگرچہ بھارت کی جانب سے امریکی صدر کی پاکستان کی تعریف پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن یہ نیوز رپورٹ کی صورت میں سامنے آیا جس میں ’سرکاری ذرائع‘ (یعنی سیکیورٹی) کا مؤقف شامل تھا۔ اس رپورٹ میں ایبے گیٹ بم حملے کے ملزم کی گرفتاری کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اس بم حملے میں مذکورہ ملزم کا کردار بہت کم تھا۔ لیکن اس رپورٹ میں شامل بہت سے مواد کو ان ماہرین نے چیلنج کیا ہے جو خطے میں دہشت گردی کی صورت حال پر قریبی نظر رکھتے ہیں۔
پاکستانی ٹی وی چینل اور سی آئی اے کے سابق اہلکار نے مشتبہ شخص کی گرفتاری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی ویب سائٹ نے اس شخص کو داعش کے ایبے گیٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے حملے میں اس کے کردار کے حوالے سے مکمل تفصیلات فراہم کی ہیں کہ ملزم نے جیل میں خودکش بمبار کے ساتھ حملے کی مکمل منصوبہ بندی کی۔ 2021ء میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو انہیں جیل سے رہا کردیا تھا۔
ورجینیا کی الیگزینڈریا کورٹ جہاں شریف اللہ کو گزشتہ ہفتے پیش کیا گیا، وہاں جمع کروائے گئے ایک حلف نامے میں ملزم سے تفتیش کرنے والے ایف بی آئی ایجنٹ نے بتایا کہ بم حملے میں شریف اللہ کا کردار کیا رہا۔ ایجنٹ کے مطابق شریف اللہ نے بم دھماکے کے حوالے سے دیگر کارروائیوں کے ساتھ ساتھ حملے میں نشانہ بنائے گئے مقام کی تلاش میں بھی مدد کی۔
اب ملزم کا کیا کردار تھا اور یہ بحث کہ یہ کردار کتنا اہم تھا، سب سے قطع نظر امریکی صدر نے اسے بڑی جیت قرار دیتے ہوئے ’مونسٹر‘ کو پکڑنے میں معاونت پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ توقع کے عین مطابق ٹرمپ کے پیغام سے پاکستان متمنی ہے۔ اور ظاہر ہے اس نے بھارت کو بےچین کیا ہے۔
عموماً ڈونلڈ ٹرمپ افراتفری پھیلانے (منظم انداز میں) اور شہ سرخیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے 7 دنوں میں جو جو پیش رفت ہوئیں، انہوں نے ٹرمپ پالیسی کی ایک اور جھلک پیش کی۔
جب امریکا کی حماس کے ساتھ براہ راست بات چیت کی خبر سامنے آئی تو بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا گیا کہ امریکی پالیسی مؤقف میں کیوں تبدیلی آئی ہے کیونکہ امریکا تو ’دہشت گردوں سے مذاکرات‘ نہیں کرتا۔ لیکن اس سے قبل یہ سوال پوچھے جاتے، ٹرمپ نے بیان دیا کہ حماس تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کرے ورنہ انہیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ٹرمپ کا یہ بیان شہ سرخیوں کی زینت بن گیا جبکہ اس نے حماس-امریکا مذاکرات کے معاملے سے توجہ ہٹا دی۔
جب غزہ کی بحالی و تعمیر نو کے عرب منصوبے کا اعلان کیا گیا تو اسرائیل نے اسے یکسر مسترد کردیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے اسرائیل جیسے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن انہوں نے کہا کہ غزہ کے لیے واحد قابلِ عمل منصوبہ ٹرمپ کا غزہ منصوبہ ہے۔
دو روز بعد مشرقِ وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اور ساتھی پراپرٹی ٹائیکون اسٹیو وٹیکوف جو ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری سے قبل بنیامن نیتن یاہو کو اپنی بھرپور کوششوں سے جنگ بندی پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، نے وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران عرب رہنماؤں کی جانب سے منظور کردہ مصر منصوبے پر بات کرکے صحافیوں کو حیران کردیا۔
انہوں نے کہا، ’اس منصوبے میں بہت سے مضبوط نکات شامل ہیں۔۔۔ ہمیں اس پر مزید گفتگو کرنے کی ضرورت ہے جبکہ یہ مصر کی جانب سے مثبت پہلا قدم ہے۔ وسیع نقطہ نظر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ سے متعلق بیان مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کو اپنے خیالات پیش کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جن پر امریکا غور کر سکتا ہے‘۔
اسٹیو ویٹکوف نے اشارہ دیا کہ ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے کا مقصد علاقائی اتحادیوں کو متبادل پیش کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ یہ سوال کہ کیا آپ عرب منصوبے کے اس نکتے سے متفق ہیں کہ فلسطینیوں کو بے دخل کیے بغیر بھی غزہ کی تعمیرِ نو ہو سکتی ہے؟ اسٹیو ویٹکوف نے جواب دیا کہ ’ہم تمام صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنا قبل ازوقت ہوگا‘۔
اس بات چیت کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اسرائیلی میڈیا تنظیم نے اپنے ناظرین کو یاد دہانی کروائی کہ ٹرمپ کے ماتحت امریکا میں سی آئی اے، نیشنل سیکیورٹی کونسل حتیٰ کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ غزہ کے فیصلے نہیں کریں گے بلکہ اسٹیو ویٹکوف سب سے طاقتور بااختیار مندوب ہیں جو صدر کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی منظم افراتفری گزشتہ ہفتے جاری رہی جہاں ٹرمپ نے اپنے ملک میں جنگ کے بعد امریکا پہنچنے والے دسیوں ہزاروں یوکرینی شہریوں کو بے دخل کرنے کی اپنی انتظامیہ کی دھمکی کو واپس لے لیا۔
انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ یوکرین میں جنگ بندی شاید چند دنوں میں ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے مطابق روس اور یوکرین دونوں جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان امن کے قیام کو فروغ دیتے ہوئے ٹرمپ نے کینیڈا کی سرزمین پر امریکی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ نئے تنازع کو جنم دیا ہے جبکہ دونوں کے درمیان تجارت یا ٹیرف کی جنگ پہلے ہی ایک بڑے تنازع کی صورت اختیار کرچکی ہے۔
تو یہ ہیں ٹرمپ!
ان سے اچھی امیدیں وابستہ کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ جتنے کھلے عام انداز میں لین دین کی پالیسی اپناتے ہیں کہ ان کے اگلے قدم کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ممکن ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ 4 سالوں میں ون ٹریلین ڈالرز کا بڑا معاہدہ جس کا انہوں نے بارہا ذکر کیا ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں تعلقات کو معمول پر لانے کے محرک کے طور پر کام کرسکتا ہے اور ٹرمپ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے سعودی عرب کی ’دو ریاستی حل‘ کی شرط پر آمادگی ظاہر کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔