بُک ریویو: معین اختر- ون مین شو
کہا جاتا ہے کہ کتاب کو کبھی بھی اس کے سرورق سے پرکھنا نہیں چاہیے۔ لیکن لیجنڈری کامیڈین، میزبان اور اداکار معین اختر پر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی کتاب کو کون نظرانداز کرسکتا ہے جس کا پیش لفظ معروف صداکار اور اداکار ضیامحی الدین نے لکھا ہو اور جس کا دیباچہ مزاح نگار، میزبان اور معین اختر کے دیرینہ دوست انور مقصود نے تحریر کیا ہو؟
یہ کتاب جس کا زیادہ تر مواد معین اختر نے خود لکھا ہے، ان کی وفات کے 13 سال بعد شائع ہوئی ہے۔ مرکزی بیانیے کی شروعات سے قبل اشاعت میں تاخیر کی وجوہات ان ابواب میں بتائی گئی ہیں جو ان کے بہن بھائیوں اور بچوں کی جانب سے تحریر کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب سوانح عمری، یادگار اور خراجِ تحسین ہے جبکہ یہ معین اختر کی بےمثال میراث کا جشن مناتی ہے۔ ضیا محی الدین کے پیش لفظ آپ کو 1970ء کی دہائی کے معین اختر کے دور میں لے جائیں گے کہ جب وہ ایک اُبھرتا ہوا ٹیلنٹ تھے جو اپنی شناخت بنانے کی کوشش میں مصروفِ عمل تھے جبکہ انور مقصود کے دیباچے میں اس معین کا ذکر ہے جسے ہم سب جانتے اور سراہتے ہیں۔ اس کتاب کے ابتدائی 35 صفحات میں معین اختر کے اقربا کی جانب سے خوبصورت جذباتی نوٹس ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کی آنکھیں پُرنم ہوجائیں گی۔
یہ بہتر ہوگا کہ معین اختر کے لکھے الفاظ پڑھنے سے قبل ان کے بچوں اور بہن بھائیوں کی جانب سے لکھے گئے ان کلمات کو پڑھا جائے کیونکہ اگر آپ میری طرح ہیں تو آپ کتاب کی تحریر پر توجہ دینے کے بجائے اپنے چشمے کو آنسوؤں کی نمی سے صاف کرتے رہ جائیں گے۔
اگلے حصے میں معین اختر کی جانب سے تحریر کردہ 5 ابواب ہیں جو معین اختر کی ابتدائی زندگی یعنی شہرت سے پہلے کے ایام کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ اپنی پیدائش اور بچپن سے لے کر لاہور کی گلیوں میں دوڑتے اس بچے تک جس نے شوبز میں انٹری دی جبکہ ان ابواب میں انہوں نے اپنے خاندان سے متعلق تفصیلات کو بھی شامل کیا ہے۔ اپنی کمپیئرنگ کی طرح انہوں نے اسے مختصر رکھا ہے جس سے قارئین کو اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب میں آگے کچھ بہت کچھ پڑھنے کے لیے ہوگا۔
اگلے 8 ابواب میں معین اختر نے اپنے قریبی لوگوں پر بات کی ہے اور ان کے اندازِ تحریر سے یوں لگےگا جیسے وہ قارئین سے ہم کلام ہیں کیونکہ قدرتی طور پر ان کی تحریر انتہائی واضح اور ان کا لہجہ ان کی شخصیت کا عکاس ہے۔ ہر باب میں پیش لفظ موجود ہے جو اس شخص کا مختصر تعارف کرواتا ہے جن کا ذکر اس باب میں کیا گیا ہے جبکہ ان میں معین اختر کے انتقال کے بعد کے 13 سالوں کے واقعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
پہلے آٹھ حصوں میں سے پہلا حصہ فلم اداکاروں کے ساتھ ان کے مناظرے کا ذکر کیا گیا ہے، دوسرے باب میں ٹی وی اداکاروں، تیسرے اور چوتھے میں گلوکاروں کے ساتھ ان کے تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پانچویں حصے میں ان لکھاریوں اور ڈائریکٹرز کا تذکرہ کیا ہے جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا جبکہ چھٹے حصے میں بالی وڈ کے معروف ناموں کے ساتھ ان کے تعلقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اگلے دو ابواب میں سیاسی رہنماؤں اور متعدد قابلِ ذکر شخصیات کا ذکر ہے۔
ہر باب کے ساتھ ساتھ قارئین نہ صرف ان کی شخصیت کے بارے میں روشناس ہوں گے بلکہ انہیں معین اختر کو گہرائی سے جاننے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے اپنے سینئرز کو خراجِ تحسین پیش کیا، اپنے ساتھیوں کی یادیں پیش کیں جبکہ معروف شخصیات کے لیے گہری عقیدت کا مظاہرہ کیا جو ان کے کردار اور فطرت کی نمائندگی کرتی ہے۔
وہ لوگ جو 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں پلے بڑھے ہیں، انہوں نے خود معین اختر کو اپنی آنکھوں کے سامنے عروج پاتے دیکھا تھا۔ یہ کتاب انہیں اس دور میں واپس لے جائے گی کہ جب وہ ایک بےمثال فنکار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس کتاب سے وہ لیجنڈری فنکار کے سفر سے روشناس ہو پائیں گے اور معین اختر کی جدوجہد، ان کے ارتقا اور انہیں بیان کرنے والی شاندار صفات سے پردہ اٹھائیں گے۔
جس انداز میں معین اختر نے یہ ابواب لکھے ہیں، اس سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے میں لیجنڈری اداکار کے ساتھ فون کال پر تھا جہاں وہ مجھے تمام عناصر کے بارے میں گہرائی سے سمجھا رہے تھے۔ خود معین اختر کے بقول ان کا پی ٹی وی کے ساتھ تجربہ سہل نہیں رہا جبکہ وہ ایک نئے ذرائع ابلاغ کی وجہ سے خوفزدہ تھے۔ درحقیقت پہلے ٹی وی آڈیشن میں انہیں مسترد کردیا گیا تھا لیکن انہیں ٹی وی میں واپس لانے میں ایک خاتون نے معاونت کی جن سے ان کی ملاقات ہسپتال میں اپنے دوست کی عیادت کرتے ہوئی تھی۔ ان کے حوالے سے سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے سینئرز کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے اور اپنے جونیئرز کے لیے وہ جو لہجہ اپناتے تھے، اس کی وجہ سے وہ سب ہی کی پسندیدہ شخصیت تھے۔
چاہے وہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن ہوں یا لازوال گلوکارہ لتا منگیشکر، گلوکار اور بعدازاں نعت خواں بننے والے جنید جمشید ہوں یا لیجنڈری گلوکار احمد رشدی، یا وہ جس طرح نوجوان علی حیدر کو چھیڑتے تھے، یہ تمام کہانیاں معین اختر کے گہرے روابط کو ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے وہ ٹیلنٹ اور ٹینلٹ رکھنے والوں کی قدر کرتے تھے۔
میں معین اختر کے بولی وڈ ستاروں کے ساتھ تعلقات جاننے کا متمنی تھا اور 1986ء کے معروف ’یہ پی ٹی وی ایوارڈ ہے‘ سیگمنٹ کے پیچھے کی کہانی جاننا چاہتا تھا جبکہ میں یہ بھی جاننے کی خواہش رکھتا تھا کہ خاتون اداکارہ کے بجائے انہوں نے ’لیڈی پرنسپل‘ کا کردار کیوں نبھایا۔ معین اختر اس وقت کو یاد کرتے ہیں کہ جب اپنی گجراتی سے انہوں نے بھارتی اداکارہ پروین بوبی کو پیچھے چھوڑا تھا جبکہ انہوں نے بولی وڈ اداکار اکشے کمار کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا احوال بھی بیان کیا جس کے بعد انہوں نے معین اختر کی ’یہ پی ٹی وی ایوارڈ ہے‘ کی لائن کو کاپی کرتے ہوئے ’یہ زی ٹی وی ایوارڈ ہے‘ کہا تھا۔ یہ تمام احوال دلچسپ بھی ہیں جبکہ یہ آپ کو ماضی کے جھروکوں میں لے جائیں گے۔ یہ اور بہت سی دیگر کہانیاں، مزاح، اور ناقابل فراموش تجربات سے بھرے ہوئے وقت کی جاندار تصویر پیش کرتی ہیں۔
ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کیسے ٹی وی پروڈیوسر کے ساتھ نوک جھوک کی انہیں 700 روپے قیمت چکانا پڑی اور کس طرح اداکار جمشید انصاری نے کریئر کے ابتدائی دنوں میں ان کی غیرمشروط مدد کی تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ انہوں نے اداکار طلعت حسین کے ولیمے میں اسی دن شرکت کی جس دن معین اختر کا اپنا ولیمہ تھا۔ اس کتاب میں ایسی کئی کہانیاں ہیں جو 1970ء اور 1980ء کے کراچی کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
سب سے دلچسپ ابواب وہ ہیں جن میں لیجنڈری اداکار محمد علی اور دلیپ کمار کا ذکر ہے جن کے ساتھ معین اختر کا قریبی تعلق تھا جبکہ ان لیجنڈری اداکاروں کے ساتھ ان کی یادداشتیں ضرور آپ کے دل کو بھائیں گی۔ انہیں دیو آنند کے ساتھ ملاقات کا موقع نہیں ملا جن کے نام پر انہوں نے اپنی کتاب میں ایک باب مختص کیا ہے لیکن یہ جاننا دلچسپ تھا کہ دیو آنند معین اختر کو خوب پسند کرتے تھے اور فون پر ان کے کام کو بارہا سراہتے تھے۔ اداکار متھن چکرورتی نے ایک بار معین اختر کی میزبانی کے بغیر شو کرنے سے انکار کیا تھا جبکہ ’خاموش‘ اداکار شتروگھن سنہا ممبئی میں معین اختر کی آڈیو کیسیٹ کی سپلائی کیا کرتے تھے۔
معین اختر نے چند ہی فلموں میں کام کیا لیکن انہوں نے جاوید شیخ میں اسٹار بننے کی اہلیت کو بھانپ لیا تھا حالانکہ وہ اس وقت اپنے کریئر میں جدوجہد کررہے تھے۔ لاہور سے واپس آنے پر انہوں نے دلبرداشتہ گلوکار مجیب عالم کو دلاسہ دیا جبکہ وہ کامیڈین لہری سے بھی قریب تھے اور انہیں خوب سراہتے تھے۔
انور مقصود کے ساتھ ان کی دوستی کو بھولا جاسکتا اور نہ اداکارہ بشریٰ انصاری کے ساتھ ان کی ’مسابقت‘ کو۔ ان کی اس کتاب میں ان تمام پہلوؤں کی جھلک پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کامیڈین عمر شریف، رنگیلا اور ننھا کے ساتھ اپنے دلچسپ لمحات بھی اس کتاب میں شامل کیے ہیں جو کہ بہت سے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں۔
اگرچہ ٹی وی فنکار وقت کے حکمرانوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن معین اختر کو کسی کا خوف نہ تھا۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ تھے جبکہ اپنی کتاب میں انہوں نے ضیاالحق کے ساتھ اپنے چند تنازعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ضیاالحق کی آمریت کے ابتدائی دنوں میں ان کی نقل کرنے پر وہ سزا سے بال بال بچے تھے۔ معین اختر کی فیملی ایک بار متحدہ قومی موومنٹ کے سابق لیڈر ڈاکٹر عشرت العباد کے والد کے مہمان بنے تھے اور یوں وہ سابق گورنر کے ’بڑے بھائی‘ کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ معین اختر نے کراچی شہر کی رونقیں دوبارہ بحال کرنے کے لیے سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی بھی تعریف کی ہے۔
ریڈیو کو اپنی زندگی کے 60 سال دینے والے پروڈیوسرز ہوں یا سیٹ دیزائن کرنے والا دوست، معین اختر ان گمنام ہیروز کی بھی اپنی کتاب میں تعریف کرنے سے نہیں ہچکچائے۔
معین اختر جن کے نام کا مطلب ’مددگار ستارے‘ کے ہیں، انہوں نے اپنے نام کے عین مطابق زندگی گزاری۔ یہ کتاب ان کے مینٹورز اور دوستوں سے تشکر اور ان سے وفاداری کا ثبوت ہے۔ یہ ایک لیجنڈری میزبان، کامیڈین اور اداکار کے طور پر ان کی شخصیت کی حقیقی گواہی ہے۔
کتاب: ون مین شو
مصنف: معین اختر
ناشر: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
صفحات: 416
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔