اینکرز آف ایئر: ’اب تو امریکا بھی خوش ہے پھر حکومت گھبراہٹ کا شکار کیوں؟‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے تشکر کے پیغامات، بارشوں اور نئے وزرا کی کابینہ میں شمولیت کے درمیان ایک چیز جو غیرمتوقع تھی، وہ معذرتیں تھیں جس نے سب ہی کو حیران کیا۔ اگرچہ ہم سب شدید دباؤ اور مزید سخت ضوابط سے واقف ہیں لیکن کوئی بھی ایسی صورت حال کی توقع نہیں کررہا تھا۔
وہ لوگ جو پریس میں کام نہیں کرتے اور یہ نہیں جانتے کہ میڈیا انڈسٹری میں کیا چل رہا ہے، ان کے لیے بتاتی چلوں کہ حالیہ دونوں میں دو ٹاک شوز کی جانب سے معذرتی بیانات جاری کیے گئے۔
ایک ٹاک شو میں میزبان نے حالیہ پروگرامز میں مدعو مہمانوں کی جانب سے کیے گئے تبصروں پر معذرت کی جبکہ دوسری معذرت میزبان کی جانب سے پروگرام کے ابتدائیہ میں دیے گئے بیان پر دی گئی جو عموماً پروگرام کے شروعاتی لمحات میں دیا جاتا ہے اور یہی پروگرام کے موضوع کی سمت واضح کرتا ہے۔
صرف دارالحکومت میں نہیں بلکہ اسٹوڈیوز میں بھی موسم تبدیل ہورہا ہے۔
ایک ایسے کڑے وقت میں کہ جب پریس حملے کی زد میں ہے، ان معذرتوں نے دھچکا پہنچایا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ صحافیوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا یا کوتاہیوں کو تسلیم کرکے انہیں درست کرنا غلط ہے بلکہ یہ معذرتی بیانات جس وجہ سے جاری کیے گئے وہ تشویش ناک ہے۔ دونوں ٹاک شوز نے نقطہ نظر پیش کرنے پر معذرت کی۔
کئی ماہ سے ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں تمام برائیوں کی جڑ فیک نیوز ہے۔ سوشل میڈیا لوگوں کو آزادی دیتا ہے کہ وہ خود مواد، حقائق یا واقعات بنائیں۔ یہ جھوٹ اور بدگمانیاں معاشرے کو مضطرب کرتی ہیں جبکہ اس سے ’اچھے‘ لوگوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ اور یہ کہ اس جھوٹ کو روکنے کا حل یہی ہے کہ پابندیاں عائد کی جائیں اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جائے جہاں جھوٹ پھیلایا جاتا ہے۔
لیکن اگر مسئلہ غلط حقائق کے پھیلاؤ کا ہے تو پھر اپنی رائے دینے پر معذرت کیوں کی جارہی ہے؟ اور اگر اب آرا بھی قابلِ قبول نہیں رہیں تو ہم باحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں؟
جیسا کہ دی گارڈین کہتا ہے کہ پاکستان میں نقطہ نظر پیش کرنے کی آزادی ہے اور دہائیوں سے پاکستان میں نقطہ نظر کا اشتراک کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مارشل لا کے دوران بھی سخت گیر رپورٹنگ سے زیادہ نقطہ نظر کے اظہار کو آزادی حاصل تھی۔ یہ ضیاالحق کا ہی دور تھا جب صحافت کی دنیا میں آردشیر کاؤس جی اور عرفان حسین جیسے نام ابھر کر سامنے آئے جن کے لکھے گئے کالمز ان کی وجہِ شہرت بنے۔
لیکن پاکستانی سیاست کے موجودہ دور میں تو اقتدار پر براجمان عناصر کو نقطہ نظر کا اظہار بھی گراں گزرتا ہے پھر چاہے وہ صحافیوں کی ذاتی رائے ہو یا ٹاک شو میں مدعو مہمانوں کی۔ تاہم ملبہ صرف صحافیوں پر گرتا ہے جو اپنے اور دیگر افراد کی جانب سے خیالات کے اظہار پر معذرت بلکہ معذرت سے کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہم نے چند اینکرز کو آف ایئر کرنے کی بازگشت سنیں۔ کچھ کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے پروگرام کی ریٹنگز نہیں آرہی تھیں، کچھ پروگرام کے لیے موزوں نہ تھے جبکہ کچھ تو خود پروگرام چھوڑ کر چلے گئے۔ شاید یہ وجوہات اتنی ہی قابلِ اعتماد ہیں جتنی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں صحافیوں کو آف ایئر کرنے کے حوالے سے پیش کی گئی تھیں۔ آخر کوئی یہ کیوں سوچے گا کہ بااثر عناصر کو مشتعل کرنے کی وجہ سے ان صحافیوں کو ان کے ٹاک شوز سے ہٹایا گیا ہے؟ یہ تو اس وقت بھی سچ نہیں تھا اور اب بھی نہیں۔
لیکن سرگوشیوں اور معذرتوں نے ایک سادہ سے سوال کو جنم دیا ہے۔ اگر چیزیں اتنی ہی اچھی ہیں جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے تو پھر حکومت گھبراہٹ کا شکار کیوں ہے؟ عدلیہ کو اب قابو کیا جاچکا ہے، زیادہ تر کوریج واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے کی جاتی ہے جبکہ اپوزیشن بھی بری طرح تقسیم کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ اب تو نئی امریکی انتظامیہ بھی پاکستان سے خوش ہے تو پھر صحافیوں کا نقطہ نظر حکومت کو اتنا برا کیوں لگ رہا ہے؟
کچھ حلقے کہتے ہیں کہ یہ گھبراہٹ اور نئی حدود متعین کرنے کی کوششیں (تاکہ حکومت مخالف باتیں نہ ہوں) اس لیے ہورہی ہیں کیونکہ حکومت میں واضح طور پر بیانیے کی کمی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ ملکی حالات پر تنقید اور سوالات اٹھانے والے نقطہ نظر سے بھی انہیں تکلیف ہورہی ہے۔ لیکن اگر متعلقہ حکام غور کریں تو شاید وہ سمجھ جائیں کہ اس ناکامی کے ذمہ دار صحافیوں سے زیادہ وہ خود ہیں۔
جزوی طور پر شاید یہ مین اسٹریم میڈیا کی ساکھ کے بحران سے متعلق بھی ہے جوکہ ریاست کی جانب سے پیدا کیا گیا ہے۔ سخت ترین سنسر شپ، محدود رپورٹنگ اور حتیٰ کہ یک طرفہ تبصرے کو یقینی بنانے کی تمام تر کوششوں نے بڑی تعداد میں عوام کو یہ یقین دلایا ہے کہ مین اسٹریم چینلز ملکی حالات کی اب درست تصویر پیش نہیں کرتے۔ پاکستان کے زیادہ تر عوام نے انہیں سننا ہی چھوڑ دیا ہے اور اب وہ کسی دھوکے میں نہیں آتے۔
سب سے بڑھ کر ٹی وی اسکرینز پر بٹھائے جانے والے افراد نے بھی چینلز کی ساکھ کو بحران میں دھکیلا ہے کیونکہ ریاست نے اس کام کے لیے زیادہ تر نئے چہروں کو چنا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ان کی اکثریت اتنا یک طرفہ مؤقف پیش کرتی ہے کہ انہیں اکثر صحافیوں کے بجائے حکومت کا نمائندہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کچھ کے ذاتی مفادات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ساکھ بنانے اور اعتماد کی فضا بنانے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور یہی وہ بڑی وجہ ہے جس کی بنیاد پر چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ مسلم لیگ (ن) بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام ہے (اور یہ صرف حکمران جماعت کے لیے مسئلہ نہیں)۔
لیکن صرف بہتر ساکھ سے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیا انہیں’اسٹوریز’ کو بیچ سکتا ہے جو حقیقت سے قریب ہوں۔
مہنگائی کنٹرول میں ہے یا یہ حکومت جمہوری ہے، ان دعووں پر سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے بالخصوص جب سیاسی جماعتوں، طلبہ یا عوام کو مظاہرہ کرنے پر غیرضروری تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ اگر لوگ اپنے اردگرد کے گھروں میں پولیس کو چھاپے مارتے دیکھیں گے تو وہ کبھی بھی یقین نہیں کریں گے کہ وہ ایسے بہترین ملک میں رہ رہے ہیں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔
میڈیا پر ملکی صورت حال کی بہتر تصویر پیش کرنے کے دباؤ سے مجھے شیشے اور عکس کی ایک پرانی مشہور کہاوت یاد آتی ہے لیکن معذرتوں کے موسم میں اگر میں اس کہاوت کا ذکر نہ ہی کروں تو بہتر ہوگا۔
یہ کہنا محفوظ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے میرے ذہن میں پرانی بھارتی فلم ’امر، اکبر انتھونی‘ کا ایک مشہور سین چل رہا ہے۔ اس سین میں بری طرح پٹنے والے امیتابھ بچن اپنے زخموں کو شیشے میں دیکھتے ہوئے پٹی بھی شیشے کو ہی لگا رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب اس سین پر خوب ہنسے تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ اس مرہم پٹی سے زخم ٹھیک نہیں ہوں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔