• KHI: Maghrib 6:40pm Isha 7:55pm
  • LHR: Maghrib 6:09pm Isha 7:29pm
  • ISB: Maghrib 6:13pm Isha 7:36pm
  • KHI: Maghrib 6:40pm Isha 7:55pm
  • LHR: Maghrib 6:09pm Isha 7:29pm
  • ISB: Maghrib 6:13pm Isha 7:36pm

’اسرائیل کی حکمران اشرافیہ کی تو صہیونیت بھی نازیوں سے متاثر ہے‘

شائع 12 مارچ 2025 03:10pm

بن یامن نیتن یاہو کی انتہائی نیو فاشسٹ کابینہ میں شامل بدترین اراکین میں سے ایک نے گزشتہ اتوار کو غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ’مائیگریشن انتظامیہ‘ کے قیام کا ذکر کیا۔ حال ہی میں دورہ امریکا سے واپس آنے والے اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزالل اسموٹرک نے اعلان کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے تعاون سے فلسطینیوں کو زمین چھوڑنے پر مجبور کرنے کا منصوبہ ’حتمی شکل اختیار کررہا ہے‘۔

شاید یہ 1930ء کی دہائی کے اواخر میں نازیوں کی جانب سے قائم کردہ ریخ کے مرکزی دفتر کے تصور سے متاثر ہوسکتا ہے جس کا مقصد یہودیوں کو بےدخل کرنا تھا۔ اس دفتر کا صدر مرکز تو برلن میں تھا لیکن آسٹریا کے دارالحکومت ویانا، چیک ری پبلک کے دارالحکومت پراگ اور نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں بھی اس کی اہم شاخیں تھیں تاکہ نازی کے زیرِکنٹرول علاقوں سے یہودیوں کو نکالا جاسکے۔

اس منصوبے سے وابستہ اہم افراد جن میں ایڈولف ہٹلر کے ڈپٹی ہیرمان گوئرنگ (جنہیں نیورمبرگ ٹرائل 1946ء میں سزائے موت دی گئی لیکن پھانسی سے چند گھنٹے قبل انہوں نے خودکشی کرلی تھی)، رائنہارڈ ہائیڈرچ (جنہیں برطانیہ کی حمایت یافتہ چیک ری پبلک کی مزاحمتی تحریک نے 1942ء میں قتل کردیا تھا) اور ایڈولف ایش مان (جن کا اسرائیلی ایجنٹس نے تعاقب کیا اور 1962ء میں انہیں پھانسی ہوئی) شامل تھے۔ تاہم یہ یہودیوں کو بےدخل کرنے کا منصوبہ جلد ہی ناکام ہوگیا اور ’آخری حل‘ کے طور پر بڑی تعداد میں یہودیوں کو صنعتی طریقہ کار کے تحت قتل کردیا گیا۔

ہینا ارینڈٹ نے ’دی نیو یارکر‘ کے لیے ایش مان کے ٹرائل کے حوالے سے لکھا اور یہیں سے وہ ’برائی کی ممنوعیت‘ کے بارے میں اپنا مشہور خیال سامنے لے کر آئیں جس کے مطابق برے اعمال اکثر عام لوگ انجام دیتے ہیں جو بہ ظاہر چہروں سے برے نہیں لگتے۔

کینیڈین گلوکار، شاعر، موسیقار لینارڈ کوہن نے بھی ردعمل دیا لیکن کم ہی لوگ اس بارے میں جانتے ہیں۔ انہوں نے ایڈولف ایش مان کے عام آدمی جیسے لگنے پر تبصرہ کیا کہ ’آپ کیا توقع کررہے تھے؟ شکاری پنجے؟ بڑے بڑے درندے نما دانت؟ خونخوار جانور کی طرح منہ سے ٹپکتی رال؟ یا چہرے سے عیاں پاگل پن؟‘

رائنہارڈ ہائیڈرچ پر حملے کی وجہ سے نازیوں کو گمان ہوا کہ لڈائس نامی گاؤں کے لوگ اس میں ملوث تھے، اس لیے انہوں نے وہاں موجود تمام افراد کو اس غلط معلومات کی بنا پر مار دیا۔ صرف 6 سال بعد فلسطینی گاؤں دیر یاسین میں ایسا ہی ظلم ہوا۔ تاہم یہ پورے گاؤں کو قتل کرنے کا واحد واقعہ نہیں تھا جو نکبہ کے دوران پیش آیا۔

یورپ میں ہولناک یہود کشی کے بعد چند ممتاز یہودیوں نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صہیونیوں اور نازیوں کی حکمت عملی میں مماثلت کی نشاندہی کی۔ لیکن اسرائیل کی حکمران اشرافیہ، صہیونی-نازی کے امتزاج کو بنیادی نظریہ بنا کر پروان چڑھی ہے۔

اس نظریے کو مزید تقویت غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروا کر تھیم پارک میں تبدیل کرنے کے ٹرمپ کے خواب سے ملی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل کے اکاؤنٹ پر ایک مختصر ویڈیو ری پوسٹ کی جبکہ انہیں احساس بھی نہیں کہ یہ ویڈیو تو حقیقتاً ان کی بڑی انا یا خود کو سب سے برتر سمجھنے پر طنز تھی۔

تاہم مصر اور اردن جیسے اتحادیوں کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کو مشرقِ وسطیٰ کا سیاحتی مقام بنانے کے اپنے عجیب (اور نسل کش) منصوبے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

لیکن جس طرح وہ اندرونی اور عالمی معاملات کو چلا رہے ہیں، اس سے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کیا ایک ایسا وقت آسکتا ہے کہ جب پاناما کینال، گرین لینڈ یا کینیڈا سے زیادہ قبضے کے لیے غزہ ان کا مرکزی ہدف بن جائے؟

ٹرمپ انتظامیہ کا ابہام ان کے اقدامات سے ظاہر ہے جو دوحہ میں حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں مصروف ہے جبکہ ٹرمپ غزہ میں موجود تمام افراد کو عبرتناک موت کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسری جانب کولمبیا یونیورسٹی کے گرین کارڈ رکھنے والے گریجویٹ طالب علم امریکا کی زیرِ حراست ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ گزشتہ 500 دنوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک تھے۔ محمود خلیل کا مبینہ جرم حماس کے ساتھ منسلک سرگرمیوں’ کی قیادت کرنا ہے۔ اگر پیر کو نیویارک کے جج کی جانب سے اسٹے آرڈر کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو اس جرم کی پاداش میں انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔

ٹرمپ نے اس حوالے سے کہا کہ ’یہ پہلی گرفتاری ہے، ایسی بہت سی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی‘۔ ساتھ ہی کہا کہ ’اگر آپ دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں جو بےگناہ مرد، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہی ہو تو آپ کی اس ملک پر موجودگی ہماری قومی اور بین الاقوامی مفادات کے متصادم ہے۔ اس ملک میں آپ کے لیے جگہ نہیں‘۔

اگر یہی معیار ہے تو نیتن یاہو کی حکومت کے کسی بھی نمائندے کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے جبکہ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے بہت سے اراکین اور سپورٹرز کو اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکا سے بےدخل کردینا چاہیے۔ شاید امریکی مذاکرت کار ایڈم بوہلر کو حماس کی چند شرائط ’معقول‘ قرار دینے پر سماجی دائرے سے الگ کردینا چاہیے۔

اسرائیل تواتر سے غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کررہا ہے جبکہ وہ مغربی کنارے میں اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن واشنگٹن کی جانب سے اس کی سرزش بھی نہیں کی گئی۔ دوسری جانب ’نو آدر لینڈ‘ آسکر جیتنے والی وہ واحد دستاویزی فلم بن چکی ہے جس کی عام آؤٹ لیٹس سے امریکا میں ڈسٹری بیوشن بند ہے۔

فلسطینی اور اسرائیلی صحافیوں کے اشتراک سے بنائی گئی فلم کے ڈائریکٹرز کی اسٹیج پر تقریر سے پہلے ہی حاضرین کی جانب سے بھرپور تالیاں بجائی گئیں۔ وینیسا ریڈگریو اور مائیکل مور کی بالترتیب 1978ء اور 2003ء کی تقاریر کے بعد، ان دونوں صحافیوں کی تقریر ممکنہ طور پر اکیڈمی ایوارڈز میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔

غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب منصوبے کو بہت سے یورپی ممالک نے مثبت انداز میں لیا ہے لیکن آگے کیا ہونے والا ہے، اس حوالے سے بے یقینی برقرار ہے۔

امریکا کے ناقدین اپنے آئین کی پہلی ترمیم کو ملاحظہ کرسکتے ہیں جس کے مطابق، ’کانگریس مذہب کے قیام یا اس کی آزادانہ پیروی پر پابندی کا کوئی قانون نہیں بنائے گی۔ نہ وہ آزادی اظہار پر پابندی لگائے گی اور نہ پریس پر۔۔۔ نہ وہ لوگوں کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ بنے گی کہ جس کے تحت انہیں پُرامن انداز میں جمع ہونے اور حکومت سے مسائل کے حل کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 12 مارچ 2025
کارٹون : 11 مارچ 2025