• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
شائع 21 مارچ 2025 02:45pm

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


حیات کے منظرناموں کو موسم، حالات اور خیالات تبدیل کرتے ہیں۔ یہ ہمیں تب سمجھ میں آتا ہے جب ہم تاریخ کی عقابی آنکھ سے ان گزرے زمانوں کے حالات کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس وقت ہم اپنے اطراف کے حالات کو دیکھیں اور آنے والے وقتوں پر بات کرنا چاہیں تو وہ فقط ایک تجزیے کی صورت میں ہی ممکن ہوسکتی ہے اور تجزیہ کبھی مکمل تصویر پیش نہیں کرتا۔

ہاں، ناں اور شاید کے ان تین الفاظ میں الجھا رہے گا۔ مگر تاریخ تجزیہ پیش نہیں کرتی، تاریخ آپ سے سیدھی زبان میں بات کرتی ہے کہ ایسا ایسا ہوا۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ تاریخ کے بتائے ہوئے حقائق کس طرح سنتے ہیں اور لوگوں کو کس طرح سناتے ہیں۔

   1770ء میں بنایا گیا جنوبی سندھ کا نقشہ جو ان دنوں کی عکاسی کرتا ہے کہ جب سندھ مغل حکومت کا ایک صوبہ تھا
1770ء میں بنایا گیا جنوبی سندھ کا نقشہ جو ان دنوں کی عکاسی کرتا ہے کہ جب سندھ مغل حکومت کا ایک صوبہ تھا

میں اگر کہوں کہ 1758ء میں ماحولیات کی تبدیلی اور دریا کے نئے بہاؤ، سوکھا اور پلیگ اور پھر 1819ء میں آئے ہوئے زلزلے نے جہاں انڈس ڈیلٹا میں آباد بندرگاہوں اور گھاٹوں کو بری طرح متاثر کیا اور ساتھ میں سیاسی حالات نے نئے معاشی اُتھل پُتھل کو جنم دے کر منظرنامے میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کیں۔ یہ سطر اس سلسلے میں بہت سے گزرے زمانے کے صفحات پڑھنے کے بعد میں تحریر کر پایا ہوں اور آپ کو ماننا اس لیے پڑے گا کیونکہ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ یہ گزرے زمانوں کے حقائق ہیں۔

   سر تھامس رو جہانگیر کے دیوان عام اجمیر میں
سر تھامس رو جہانگیر کے دیوان عام اجمیر میں

ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلی بار 1635ء (شاہجہان کے دورِ حکومت) میں ٹھٹہ میں بیوپاری کوٹھی قائم کی جو تقریباً 30 برس چلی اور 1662ء (اورنگزیب کے دورِ حکومت) میں بند ہوئی۔ ایک صدی کی خاموشی کے بعد کلہوڑا دور حکومت میں 1758ء میں کمپنی نے پھر سے بیوپار شروع کیا اور 17 برس فعال رہنے کے بعد یہ کوٹھی 1775ء میں بند ہوگئی۔ سندھ میں ان برسوں میں کمپنی کے فقط تجارتی مقاصد تھے۔ مگر 1775ء کے بعد کمپنی کی ترجیحات بدل چکی تھیں کیونکہ وہ تقریباً آدھے ہندوستان پر قبضہ کر چکی تھی، اس لیے تجارتی اسٹیج کی جگہ سیاسی اسٹیج نے لے لی۔

1799ء میں کمپنی نے کراچی میں مسٹر کرو کی سربراہی میں بیوپاری کوٹھی کھولی۔ یہ وہ دن تھے جب کراچی کی بھوجوانی خاندان کے ساتھ سندھ کے حاکم تالپوروں سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ کراچی میں کوٹھی کھولنے کی دلچسپ روداد میں ابھی کچھ برس ہیں۔ اس سے قبل ہم تالپوروں کے کراچی واپس لینے والے سالوں میں چلتے ہیں جہاں لیاری ندی کے کنارے کراچی کا قلعہ ہے جبکہ لیاری باغات اور شیریں پانی کے کنوؤں کی وجہ سے مشہور تھا۔

   ننگر ٹھٹہ میں برطانوی تجارتی کوٹھی ایک اسکیچ
ننگر ٹھٹہ میں برطانوی تجارتی کوٹھی ایک اسکیچ

احسان سلیم لکھتے ہیں کہ ’کلہوڑوں کے بعد سندھ پر تالپور بلوچوں کی حکومت قائم ہوئی۔ کلہوڑے تالپوروں کے مرشد تھے جنہوں نے انہیں اپنی حکومت میں اہم عہدوں پر بھی مقرر کیا مگر زمانے کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوا۔ کلہوڑوں کے دورِ حکومت کے آخر میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ کلہوڑوں نے اپنے وفادار مریدوں پر سختیاں کیں اور ان کی کئی اہم شخصیات کو تو قتل تک کروا دیا۔

یہ جھگڑے اور کشت و خون کا سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک تالپوروں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوا۔ احترام اور صبر کی زمین وسیع ہوسکتی ہے مگر یہ سوچنا کہ اس کی کوئی سرحد نہیں ہے، مثبت اور ذہین خیال نہیں ہے۔

وقت کی بساط نے اپنی چال بدلی تو تخت پر جہاں کلہوڑا حکمران بیٹھ کر راج کرتے وہاں اب تالپور حکمران بیٹھ کر حکومت کررہے تھے۔ کلہوڑا اور تالپور ہالانی نامی جنگ میں آپس میں گتھم گتھا ہوئے تو جنگ کے میدان میں کیا ہونا تھا؟ وہی جو صدیوں سے ہر جگہ ہوتا آیا ہے۔ سر تَن سے جدا ہوئے، خون جو بوند بوند بن کر جسم کو سینچتا ہے، وہ جنگ کے میدان میں پانی کی طرح بہا، اپنا کون پرایا کون؟

جنگ کی آنکھیں نہیں ہوتیں وہ اندھی ہوتی ہے۔ جنگ کے سوکھے جنگل کو آگ تب ہی لگتی ہے جب سارے رشتوں میں زندگی کا کوئی رنگ باقی نہیں رہتا۔ خون بہانے کے اس کھیل کے بعد 1782ء میں میر فتح علی خان (وفات 1802ء) سندھ کا حاکم بنا جبکہ ان کے تین بھائی میر غلام علی خان تالپور (حکومت 1802 سے 1812ء)، میر کرم علی خان تالپور (حکومت 1812ء سے 1828ء) اور میر مراد علی خان تالپور (حکومت 1828 سے 1833ء) اس کے ساتھ حکومت میں رہے۔ (اس قائم حکومت کو تاریخ کے صفحات ’چویاری‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ ان چاروں نے مل کر تقریباً 50 برس حکمرانی کی تھی۔)

تالپوروں کے انتظامی ڈھانچے کو Joint Stock Company سے مشابہت دی جا سکتی ہے بس اس میں فرق محض اتنا ہے کہ تالپور اکاؤنٹس رکھنے کے قائل نہ تھے اور شاید نہ ہی انہیں اس کی ضرورت تھی۔ تالپوروں کی ایمانداری اور شرافت میں شک کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی مگر یہ پہلی چویاری کی کتھا ہے۔

    تالپور حکومت کی پہلی چویاری
تالپور حکومت کی پہلی چویاری

میر فتح علی خان جب تخت پر بیٹھا تو ان کے فیصلوں سے ایک دور اندیش انسان ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نے کراچی کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا کیونکہ سمندر کنارے جو مشہور بندرگاہیں تھیں وہ گاد بھرنے سے یا ختم ہوگئی تھیں یا ختم ہونے جا رہی تھیں۔ لاڑی بندر جو ایک زمانے میں ایک بہت مصروف اور شاندار بندر تھا وہ بھی بنبھور بندر کی طرح گاد بھرنے سے 1700ء تک اپنے کمال کے دن پورے کر چکا تھا۔

1652ء میں اورنگزیب نے جو لاڑی بندر پر زوال آنے کے بعد ’اورنگا بندر‘ تعمیر کروایا تھا، اس کا زوال 1755ء میں ہوا تو 1758ء میں غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ بندر کو تعمیر کروایا اور اورنگا بندر کے بیوپاریوں کو شاہ بندر لے آیا اور کمپنی کی بیوپاری کوٹھی بھی وہاں قائم کی گئی اس لیے شاہ بندر اپنے زمانے کی مشہور اور مصروف بندرگاہ رہی۔ چونکہ شاہ بندر کا زوال 19ویں صدی میں ہوا تھا تو اس کے زوال کا ذکر ہم 19ویں صدی کے تذکرے میں کریں گے۔

   1750ء کے بعد بنایا ہوا لاڑی، ٹھٹہ، وکر اور دوسری بندرگاہوں کا نقشہ
1750ء کے بعد بنایا ہوا لاڑی، ٹھٹہ، وکر اور دوسری بندرگاہوں کا نقشہ

وقت کے ساتھ ساتھ بیوپار بڑھ رہا تھا اور ساتھ میں کراچی کے اچھے دنوں کی ابتدا ہونے والی تھی۔ میر فتح علی خان کراچی کو اپنے کنٹرول میں کرنے اور قلات سے واپس لینے کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا۔ دوسری جانب قلات کے خان کے لیے یہ علاقہ کوئی خاص پُرکشش نہیں تھا کیونکہ یہ علاقہ قلات سے بہت دور تھا۔

کراچی اور قلات کے بیچ میں غیر آباد علاقہ تھا جہاں قافلوں کو لوٹنے والے قبائل کا زور تھا اور ساتھ ہی خان کو اور بھی سیاسی مسائل درپیش تھے جن کی وجہ سے وہ اس طرف خاص دھیان نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی کراچی سے اسے خاص دلچسپی تھی۔ وہ بغیر کسی پریشانی کے یہاں سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔

1792ء میں قلات کے خان کی جانب سے کراچی میں مقرر کیے گئے نواب شفیع علی خان نے ہندوؤں کے ایک مندر ’دریا تھان‘ پر حملہ کروایا اور مندر اور دریانو مل کی رہائش کے بیچ میں مسجد کی تعمیر کروائی جس کی وجہ سے ہندو مسلم تنازع ہوا۔ اس واقعہ کے بعد دریانو مل نے قلات کے خان کے پاس شفیع علی کی شکایت کی، قلات کے خان نے شفیع علی خان کو معطل کیا اور اس کی جگہ حاجی سعدو نامی نواب مقرر کیا جو آخر تک فائز رہا۔

اب ہم 1792ء میں پیش آئے اس واقعہ کا بیان مسٹر ناؤنمل سے سنیں گے کہ جب تالپوروں نے پہلی بار کراچی پر کنٹرول کرنے کے لیے میاں فقیرے اور میاں پالئے کی سربراہی میں 15 ہزار کے فوجی جتھے کو کراچی بھیجا تھا۔

    1870ء کی دہائی میں خان آف قلات
1870ء کی دہائی میں خان آف قلات

ناؤنمل کہتا ہے، ’میروں کے بلوچ فوج کا جتھا توپوں اور گولوں سے مسلح تھا۔ انہوں نے اپنی چھاؤنی لیاری نئے کے اس پار، شہر کے شمال-مشرق میں باغیچوں میں لگائی۔ کراچی اس وقت قلات کے خان کے ماتحت تھا مگر خان کی طرف سے تحفظ کے لیے کوئی انتظام نہیں تھا۔ تمام شہر والے قلعے کے اندر رہتے تھے۔ قلعے کے گرد تمر اور زقوم کی جھاڑیوں کا جنگل پھیلا ہوا تھا۔

میروں کی آئی ہوئی فوج نے قلعے کی طرف توپیں جمائیں۔ قلعے کے اندر سے حفاظت کے لیے، قلعے میں رہنے والے 500 میربحر تیار ہوئے اور ہمارے جہازوں پر کام کرنے والے لوگوں نے سیٹھ بلرامداس کی نگرانی میں شہر کے دفاع کے لیے ہمارے گداموں میں جمع گولا بارود اکٹھا کیا تاکہ ضرورت کے وقت کام آ سکے’۔

    تالپور حاکموں کے سپاہی— اسکیچ: ہینری پوٹنجر 1809ء
تالپور حاکموں کے سپاہی— اسکیچ: ہینری پوٹنجر 1809ء

بقول ناؤنمل کے حملہ آور جن کی تعداد 15 ہزار تھی وہ ڈھائی ماہ تک ڈیرے ڈالے بیٹھے رہے۔ قلعے کے اندر شہر میں خوراک بہت تھی تو اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا البتہ میٹھا پانی جو وہ قلعہ سے شمال-مشرق سے لاتے تھے وہ نہیں لا سکتے تھے، اس لیے کوٹ کے اندر جو کنویں تھے ان کا پانی نہ میٹھا تھا اور نہ زیادہ کڑوا تھا۔ اس سے ڈھائی ماہ تک پیٹ کی آگ اور تشنگی بجھتی رہی۔ اس طرح ڈھائی ماہ کے بعد فوج وہاں بیٹھ بیٹھ کر بیزار ہوگئی اور واپس حیدرآباد چلی گئی۔

ممکن ہے کہ ان دنوں میں ہمیں ڈھائی ماہ زیادہ لگیں کیونکہ ہمارے اطراف میں پکی سڑکیں ہیں، تیز ترین گاڑیاں ہیں، موبائل فون ہیں بلکہ ویڈیو کال تک ہے۔ مگر جن زمانوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں تب ان میں سے کچھ بھی نہ تھا۔ کراچی سے حیدرآباد یا حیدرآباد سے قلات اور قلات سے کراچی کسی پیغام پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ گھوڑے یا اونٹ کی سواری ہوتی تھی، راستے کم اور پگڈنڈیاں زیادہ تھیں تو سفر انتہائی مشکل تھا۔

ممکن ہے ان ڈھائی مہینوں میں حیدرآباد اور قلات میں کوئی سیاسی گفت و شنید ہورہی ہو جن کی وجہ سے بھیجی گئی فوج کو کوئی سخت قسم کا اقدام اُٹھانے سے روکا گیا ہو اور فقط ایک نفسیاتی دباؤ تخلیق کرنے کے لیے یہ پہلا فوجی جتھا بھیجا گیا ہو۔

مگر کچھ ماہ کے بعد 1793ء میں میر فتح علی خان نے پھر فوج کا جتھا بھیجا اور اسی جگہ پر کیمپ لگایا جہاں پہلے لگایا تھا۔ توپ زنی بھی کی گئی جس کا جواب قلعے کے اندر سے دیا گیا اس گھیراؤ کا عرصہ تین ماہ رہا اور دوسری بار بھی تالپوروں کی فوج موج میلہ کرکے واپس لوٹ گئی۔

پھر تیسری بار 1794ء میں بارشوں کے موسم میں 20 ہزار فوجیوں کا لشکر کراچی پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ سیدھی بات ہے کیمپ وہاں ہی لگایا گیا ہوگا جہاں پہلے دو بار لگایا گیا تھا کہ باغات بھی تھے اور شیرین پانی بھی تھا۔ اب اس موقع پر دریانو مل، میر فتح علی خان کو ایک خط تحریر کرتا ہے۔

مسلسل دو یا تین برس تالپوروں کے سیاسی اور فوجی دباؤ کے بعد لگتا ہے کہ کراچی قلعے والے قلات سے بالکل بھی مایوس ہوچکے تھے۔ اور قلعے سے باہر جو قبائل تھے وہ تالپوروں کو حاکم مانتے تھے۔

اس پوری صورت حال کو جانچ پرکھ کر جو تالپور حاکم کو خط تحریر کیا گیا، میں ضرور چاہوں گا کہ اس تحریر کی عبارت آپ بھی پڑھ لیں، ’اب ہم کو یقین ہوگیا ہے کہ کراچی میں قلات کے خان کو حفاظتی فوج بھیجنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ وہ لڑنا چاہتا ہے۔ ہمیں یہ سن کر دکھ ہوا ہے کہ آپ نے ہمارے آدمیوں کی مخالفت کی ہے اور اپنے جہازوں کا گولہ بارود ہماری فوج کے خلاف استعمال کرکے ان کو دو بار شکست سے دوچار کی۔ ہماری اور آپ کی کافی عرصے سے دوستی ہے اور ہم وطن ہیں، اس لیے آپ کو ہمارے مخالفت نہیں کرنی چاہیے‘۔

یہ ایک طویل خط تھا جس میں دوستی کی گزارش کی گئی تھی اور جب تقریباً فریقین راضی ہوگئے تب دریانو مل نے اپنے خاص ملازم فقیرے (جو بھرامی یا برہمانی بلوچوں کا معزز تھا) کے ہاتھوں تالپوروں کے حاکم میر کرم علی خان کو الگ ایک خط تحریر کیا جس کا مضمون کچھ اس طرح سے تھا، ’ آپ سے ایک زمانے سے دوستی کا رشتہ ہے، ہم قلعہ دینے کے لیے راضی ہیں مگر جب قلعہ آپ کی حکومت کے حوالے کیا جائے تو بلوچ سپاہیوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ وہ کسی کی نہیں سنتے اور اپنی مرضی کی کرتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔

’دوسری گزارش یہ کہ کراچی میں جو نواب آپ کی حکومت کی طرف سے مقرر کیا جائے اس میں ہمارا صلاح و مشورہ شامل ہونا چاہیے کہ وہ یہاں ہماری صلاح سے کاروبار چلائے گا اور رعایا پر ظلم نہیں کرے گا‘۔ اس خط کے جواب میں میر کرم علی خان نے دریانو مل کی کہی گئی ساری باتوں سے اتفاق کیا۔

    سندھ کا ایک بلوچ سپاہی اور ہندو بیوپاری کا رچرڈ برٹن کا ایک اسکیچ
سندھ کا ایک بلوچ سپاہی اور ہندو بیوپاری کا رچرڈ برٹن کا ایک اسکیچ

اس طرح قلات کے مقرر کیے گئے نواب سعدو کو واپس قلات بھیج دیا گیا اور اگست یا ستمبر 1794ء میں سیٹھ دریانو مل نے کراچی قلعے کے دونوں مرکزی دروازوں کی چابیاں جا کر تالپور لشکر کے سالاروں کے حوالے کیں۔ ناؤنمل لکھتے ہیں، ’سیٹھ دریانو مل نے اپنے ملازم فقیرے خان کی معرفت ’فقیرے‘ اور ’پلئے‘ (تالپور لشکر کے سپہ سالار) کو اپنے آنے کی خبر بھیجی۔ اِن دونوں نے باہر نکل کر دَریانو مل کا استقبال کیا اور سیٹھ نے میٹھے اور کھارے در کی چابیاں ان کے حوالے کیں اور ان نے وعدہ کیا کہ اس موقع پر کسی بھی بلوچ سپاہی کو شہر کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

میاں فقیرو اور پَلیو، سیٹھ دریانو مل کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے اور قلعے کے برجوں اور شہر کو دیکھتے ہوئے دریانو مل کی اوطاق (بیٹھک) پر آئے جہاں شربت وغیرہ پی کر اپنی چھاؤنی کی طرف لوٹ گئے۔ شہر کے نواب نے اپنا عہدہ سنبھالا اور شہر کی حفاظت کے لیے 100 کلمتی بلوچوں کو مقرر کیا گیا اس کے بعد فوج واپس حیدرآباد لوٹ گئی’۔

ہمیں ابھی ناؤنمل سے بہت سارے حقائق جاننے ہیں مگر میرے سامنے چیتن لال ماڑی والا کی کتاب ہے جس میں اس نے 18ویں صدی کے متعلق سندھ کے حوالے سے انتہائی اہم اور بنیادی حقائق کو بیان کیا ہے، خاص طور پر کمپنی کے بیوپار اور ہندوستان، افغانستان اور ایران کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ کلہوڑوں اور تالپوروں نے سوچا تھا کہ وہ خود کو ان حالات سے الگ رکھیں گے۔ یہ ان کا خیال تھا جن کے لیے انہوں نے کوششیں بھی کیں مگر ایسا ہو نہ سکا۔

کمپنی کی گوری سرکار یہاں کے حاکموں کی نفسیات کو اچھی طرح جان چکی تھی کہ یہاں اپنوں کا اپنوں سے ذاتی عناد، انا اور دشمنیاں انتہائی گہری ہیں جن کی وجہ سے تھوڑی تھوڑی بات پر تلوار یں ان کے ہاتھوں میں آ جاتی ہیں اور شک و شبہات اور ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کا جنگل جلدی سے ان کے ذہنوں اور دلوں میں اُگ پڑتا ہے۔

یہ کیفیت گوری سرکار کے لیے زبردست نفع بخش بیوپار جیسی تھی، اُگی نفرتوں کے جنگل کی ذرخیزی میں تیزی سے اضافہ کرنا گوری سرکار کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ پاور اور پیسہ تو ان کے پاس تھا۔ ساتھ میں منافقت کے شہد میں لپٹی باتیں بھی وہ خوب کرنا جانتے تھے۔

’لڑاؤ اور حکومت کرو‘، یہ گوری سرکار میں ایک کامیاب جملہ تھا۔ وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے نفرتوں کے ان جنگلات میں ایسی ذرخیزی بھرتے تھے کہ کچھ ہی وقت میں نفرت اور دشمنی کا ثمر جلدی بار آور ہو جاتا اور اس طرح کمپنی سرکار وہاں کی مالک بن جاتی۔ بنیادی طور پر کمپنی سرکار سرمایہ داروں کے لگائے گئے پیسوں کو دگنا اور چوگنا کرنے کی غرض سے آئی تھی۔ اگر مقامی لوگ خود انہیں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے دعوت دیں تو انہیں تخت پر بیٹھ کر حکم چلانے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے۔ یہ سارے ہند اور سندھ کی رام کہانی تھی۔

    شاہ زمان خان درانی
شاہ زمان خان درانی

1799ء تک حالات بہت بدل چکے تھے۔ سندھ میں تالپوروں کا دور تھا اور پرسکون دور تھا۔ بمبئی میں بیٹھا گورنر اب سندھ میں کسی بھی حالت میں بیوپاری کوٹھی کھولنے کا فیصلہ کر چکا تھا کیونکہ ایک طرف ٹیپو سلطان کی بغاوت کا بڑھتا زور اور شمال میں زمان شاہ جو احمد شاہ ابدالی کا پوتا تھا اور 1792ء میں کابل کے تخت پر بیٹھا تھا جس نے ہندوستان پر حملے کی کھلی دھمکی دی تھی بلکہ وہ 1796ء میں 33 ہزار سپاہیوں کے ساتھ لاہور تک آ پہنچا تھا۔ اس پیش قدمی نے نہ فقط مرہٹوں بلکہ گوری سرکار کو بھی پریشان کردیا تھا۔

اتفاق سے اسی برس زمان شاہ کے بھائی نے کابل میں بغاوت کردی مگر 1798ء میں پھر یہ خبر ہواؤں میں پھیلی کہ اس برس اکتوبر تک زمان شاہ ہندوستان پر ضرور حملہ کرے گا۔ یہ انتہائی مشکل صورت حال بن رہی تھی کیونکہ اگر افغان، ٹیپو اور فرانسیسی قوتوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہوجاتا تو گوری سرکار کے لیے انتہائی مشکل صورت حال پیدا ہوسکتی تھی۔

    ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان

ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے کمپنی سرکار کو فوری طور پر کچھ قدم اٹھانے تھے، اس نے فوری طور پر یہ کیا کہ اس نے ایران کی طرف ایک تجارتی وفد بھیجا جسے ایران کو یہ صلاح دینی تھی کہ وہ افغان سرحد پر حملہ کرے اور ایران نے اس صلاح کو مان لیا کہ وہ افغان سرحد پر حملہ کرے گا۔ اس حملے کے بعد اگر افغان حکمران یا فرانسیسی جنہوں نے مرہٹوں کے نام پر سندھیا ملک کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا تھا، انہوں نے ایران پر حملہ کیا تو کمپنی سرکار ایران کی مدد کے لیے فوج، توپیں اور دیگر جنگی سامان دے گی۔

اب ایسی صورت حال میں انگریزوں کو ایک ایسے حصے کی تلاش تھی جہاں سے انہیں زمان شاہ کے متعلق فوری معلومات ملتی رہے اور ساتھ میں ایران سے بھی آرام سے رابطہ رہے اور یہ حصہ سندھ تھا۔ لارڈ ویلزلے نے محسوس کیا کہ ان سیاسی مقاصد کے لیے سندھ میں بیوپاری کوٹھی کا کھلنا اہم اور وقت کی شدید ضرورت ہے اور چونکہ سندھ والے پہلے ہی خراج دے دے کر افغان سے بیزار بیٹھے ہیں تو یہ کام آسانی سے ہو جائے گا۔

    گورنر جنرل رچرڈ ویلزلے
گورنر جنرل رچرڈ ویلزلے

8 اکتوبر 1798ء پیر کے دن، گورنر جنرل نے بمبئی کے گورنر جوناتھن ڈنکن کو ایک خط لکھا۔ اس طویل خط سے کچھ اہم جملے اس طرح تھے، ’مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ ہم انڈس ڈیلٹا کے لوگوں کی ہمت افزائی کریں اور کوشش کریں کہ سندھ کے لوگ جو افغان سے پہلے ہی بیزار ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔ اس نفرت کو اور بڑھاوا دیا جائے اور قندھار اور ملتان والے لوگوں میں بھی افغانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے طریقے استعمال کیے جائیں اور یہاں تک کہ زمان شاہ کے ماتحت علاقوں میں حالات خراب ہوجائیں۔ اگر ممکن ہو سکے تو ان قبیلوں میں ہتھیار بھی دیے جائیں‘۔

    بمبئی گورنر جوناتھن ڈنکن
بمبئی گورنر جوناتھن ڈنکن

جوناتھن ڈنکن اس نئی ملی ہوئی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے کام میں جٹ گیا۔ اس نے بشائر کے آغا عبدالحسین کو انگریزوں کا سفیر وکیل بنا کر سندھ بھیجا کہ وہاں جا کر سندھ کے تالپور حکمرانوں سے بات کرے اور بیوپاری کوٹھی کے لیے اجازت نامہ حاصل کرے۔ آغا کو بمبئی کے گورنر نے دو خط دیے تھے۔ ایک خط میر فتح علی خان کے لیے اور دوسرا میر غلام علی خان کے لیے تھا۔

ان خطوط میں ننگر ٹھٹہ کی بیوپاری کوٹھی کو دوبارہ کھولنے کی بھی گزارش کی گئی تھی۔ یہ وفد اور خطوط بھیجنے کے بعد ڈنکن نے اپنی کارگردگی کی رپورٹ ویلزلے کو پیش کی۔ اس رپورٹ کے جواب میں 7 اپریل 1799ء اتوار کے دن جو خط بمبئی کے گورنر کو تحریر کیا گیا تھا۔ اس میں اس کی محنت اور کوشش کو سراہا گیا تھا اور یہ تاکید بھی کی گئی تھی کہ کُچھ بھی کرکے بیوپاری کوٹھی کھلنی چاہیے۔ اگر تالپور کوئی مطالبہ کریں تو فقط ہتھیاروں اور بارود دینے کا وعدہ کیا جائے اور کوئی بات نہ مانی جائے۔

ان دونوں خطوط کے الفاظ بظاہر دوستی کی گاڑھی شیرینی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مگر ان کے وجود میں دھوکے، فریب اور دغابازی کا کڑوا زہر بھرا ہوا تھا۔ آغا اپنے وفد کے ساتھ بمبئی سے سندھ کے لیے نکل پڑا ہے۔ ہم بھی جلد لوٹتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ یہاں پہنچ کر کس طرح آنے والے وقت کے لیے بساط بچھاتے ہیں اور مہروں کی چال چلنے کے لیے کیا سوچتے ہیں۔

حوالہ جات

  • Memoirs of Seth Naomul Hotchand, CS.L, Of Karachi. 1804-1878. Rao Bahadur Alumal Tikamdas Bhojwani. 1915.
  • Shah Abdul Latif of Bhit. Herbert Tower Sorley. Oxford, London. 1940.
  • British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
  • ’کلاچی کھاں کراچی‘۔ احسان سلیم ۔سندھیکا کراچی۔
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔