• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:41am
  • LHR: Fajr 4:52am Sunrise 6:13am
  • ISB: Fajr 4:56am Sunrise 6:18am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:41am
  • LHR: Fajr 4:52am Sunrise 6:13am
  • ISB: Fajr 4:56am Sunrise 6:18am

مشرقی پڑوسی بھارت، پاکستان میں دہشت گردی کا مین اسپانسر ہے، ترجمان پاک فوج

شائع March 14, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ مشرقی پڑوسی پاکستان میں دہشت گردی کا مین اسپانسر ہے، جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈا کرتا رہا اور دہشت گردوں کی پروپیگنڈا ویڈیوز دنیا کو دکھاتا رہا۔

اسلام آباد میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ دہشت گردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی، جعفر ایکسپریس واقعہ انتہائی دشوار گزار علاقے میں پیش آیا، ٹرین سے پہلے دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا،جہاں ایف سی کے 3 جوان شہید ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے آئی ای ڈی کی مدد سے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا اور مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا،سوشل میڈیا پر ٹرین واقعے کی اے آئی سے جعلی ویڈیوز بنائی گئیں، بھارتی میڈیا جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈا کرتا رہا۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ جعلی ویڈیوز کے ذریعے پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی،بھارتی میڈیا نے جھوٹی ویڈیوز سے ملکی تشخص خراب کرنے کی کوشش کی۔

ترجمان پاک فوج نے مزید بتایا کہ دہشت گردوں نے 11مارچ کی رات یرغمالیوں کے ایک گروپ کو لسانی بنیاد پر چھوڑا، جسی کی کچھ لاجسٹک وجوہات تھیں کیونکہ اتنے لوگوں کو قابو نہیں کیا جاسکتا، دوسرا یہ کہ انہیں خود کو انسانیت دوست ہونے کا تاثر دینا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ٹرین پر چھوڑا اور ایک بڑی تعداد پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں کی جانب چلی گئی، جن کی نگرانی کرنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بناکر ختم کیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

’دہشت گرد افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے مسلسل رابطے میں تھے‘

ترجمان پاک فوج کے مطابق دہشت گردی کی پوری کارروائی کے دوران دہشت گرد افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے مسلسل رابطے میں تھے، انہوں نے بتایا کہ 12 مارچ کی صبح ہماری فورسز نے اسنائپرز کے ذریعے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کا ایک گروپ دہشتگردوں کے چنگل سے بھاگ نکلا، جنہیں ایف سی کے جوانوں نے ریسکیو کیا جبکہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے کچھ یرغمالی شہید بھی ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ 12 مارچ کی دوپہر اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی ضرار کمپنی نے آپریشن کی کمان سنبھالی اور یرغمالیوں کے درمیان موجود خودکش بمباروں کو اسنائپر کی مدد سے نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کو پھر بچ نکلنے کا موقع ملا اور دہشت گردوں کے نرغے سے نکل مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے۔

ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے جوان انجن سے ٹرین میں داخل ہوئے— فوٹو: ڈان نیوز
ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے جوان انجن سے ٹرین میں داخل ہوئے— فوٹو: ڈان نیوز

لیفٹیننٹ جنرل احمد شہریف نے بتایا کہ ٹرین کے باہر سے یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے جوان انجن کے راستے ٹرین میں داخل ہوئے بوگی بہ بوگی پوری ٹرین کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور یرغمال بنائے گئے خواتین اور بچوں کو ریسکیو کیا۔

انہوں نے بتایا کہ آپریشن اس قدر مہارت سے کیا گیا کہ پوری کارروائی کے دوران کسی معصوم یرغمالی کی جان نہیں گئی، جو شہادتیں ہوئیں وہ آپریشن شروع کیے جانے سے قبل ہوئیں، دہشتگردوں نے 24 گھنٹے کے دوران کئی یرغمالیوں کو شہید کیا تاہم آپریشن کے دوران وہ چاہ کر بھی کسی کی جان نہیں لے سکے، دوران آپریشن ضرار کمپنی کی جانب ایک اسنائپر کا فائر آیا تھا، بعدازاں مذکورہ دہشت گرد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ دہشت گردوں کے پاس غیرملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے، آپریشن میں بازیاب ہونے والے مسافروں کو خوراک مہیا کی گئی اور فورسز کی نگرانی میں محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا،

پریس کانفرنس کے دوران آپریشن کے مختلف مراحل اور یرغمالیوں کی محفوظ مقام پر منتقلی کی وڈیو بھی دکھائی گئی۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ تاریخ میں ٹرین کو یرغمال بنانے کے جتنے واقعات ہیں، یہ واقعہ آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ کامیاب ترین تھا، جہاں 36 گھنٹے کے اندر انتہائی دور افتادہ مقام پر خودکش بمباروں کی موجودگی کے باوجود پاک فوج، ایئرفورس اور ایف سی نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو مکمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردی کا ایک اور واقعہ ہے جس کے لنکس پڑوسی ملک افغانستان سے ملتے ہیں، یہ جاری عمل کا ایک حصہ ہے، کیوں کہ یہاں جو تشکیلات آتی ہیں، افغانی اس کا حصہ ہوتے ہیں، یہاں جو خودکش بمبار آتے ہیں وہ افغانی ہوتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اسکرین پر تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ حال میں ہلاک خارجی بدرالدین یہ نائب گورنر صوبہ باغدیس کا بیٹا تھا، خارجی میجب الرحمٰن افغانستان کی آرمی میں ایک بٹالین کمانڈر تھا اور یہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہا تھا، اسی طرح ابھی بنوں واقعہ ہوا، اس میں بھی افغان دہشت گرد ملوث تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ان کے پاس سے جو ہتھیار ملے وہ بھی افغانستان سے لائے گئے تھے، لیکن جو بلوچستان میں واقعہ ہوا ہے اور اس سے پہلے جو واقعات ہوئے ہیں، اس کا مین اسپانسر مشرقی پڑوسی ہے۔

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی ویڈیو بیانات دکھائے گئے، جس میں وہ کہا رہا ہے کہ را کا ہدف اور مقصد بلوچستان میں متعدد دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا ہے، اس وقت میرا پاکستان آنے کا مقصد بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور را کے 30 سے 40 کارندوں کے مکران کوسٹ کے اطراف بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ کارروائی کرنا ہے اور مقصد یہ ہے کہ را کے کارندے فیلڈ میں رہیں کہ وہ بلوچ قوم پرستوں کی مدد اور ان کی سہولت کاری کرسکیں تاکہ وہ مخصوص اہداف کو نشانہ بنا سکیں، اور ملٹری کی طرز کا کنشکن تمام آپریشن کیا جاسکے کیونکہ بلوچستان کی تحریک سمندر کے ذریعے نہیں ہوتی، مقصد ہے کہ بلوچ قوم پرستوں کو محفوظ زمین فراہم ہوسکے اور سمندر کی طرف سے مکمل طور پر کوآرڈینیڈ ہو’

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق بھارتی آرمی چیف کا بیان میں چلوایا، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ’اگر ہم قوم پرست تحریکوں کو بڑھاوا دیتے ہیں تو اگر ہم تیل پھینکیں گے تو یقیناً پاکستان فوج، جو ان کا اندرونی ماحول ہے‘

انہوں نے ہتھیار ڈالنے والے بلوچوں کا بیان بھی دکھایا، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے، لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے عام معصوم بلوچوں کو مروا رہے ہیں، اس تمام سازشوں میں خاص کر بھارت کا ہاتھ ہے‘۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اس لیے جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوا ہے، یہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے، وہیں سے پش کیا گیا کہ یہ کام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں، ان بہادر جوانوں کو جنہوں نے اپنی مصنوبہ بندی، دلیری سے ایک انتہائی خطرناک صورتحال سے معصوم جانوں کو بچایا۔

’دہشت گردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے‘

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ جو گرد ہے، اس کے خلاف افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لڑتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے، اگر آپ احاطہ کریں تو 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اتفاق رائے ہوا تھا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح پچھلی حکومت نے نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان دیا تھا، جس میں 14 نکات تھے، اور ہی 14 نکات وژن عزم استحکام میں شامل ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں کہ یہ 14 کام کریں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ 14 پوائنٹ میں ایک پوائنٹ ہے، جس کا تعلق کائنیٹک کے ساتھ ہے کہ کسی ملٹری / مسلحہ گروپ کو آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگلا پوائنٹ ہے کہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کو میڈیا (سوشل، پرنٹ، الیکٹرانک) کے ذریعے روکا جائے، اسی طرح مذہبی فرقہ ورانہ دہشتگردی کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے، جبکہ یہ بھی پوائنٹ ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کو روکا جائے گا، غیر قانونی اسپیکٹرم پر قابو پایا جائے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اگلا پوائنٹ ہے کہ اسی طرح انسداد دہشت گردی کے کیسز کا عدالتوں میں مستعدی سے کام کیا جائے گا، محکملہ انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بڑھایا جائے گا، مدارس کی ریگولیشن اور رجسٹریشن کی جائے گی۔

’2024 میں 59 ہزار 775 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے‘

انہوں نے کہا کہ اس میں سے جو ایک پوائنٹ ہے، میں بتاتا ہوں کہ اس میں ہم کہاں پر ہیں، 2024 میں قانون نافذ کرنے والے ادراوں نے 59 ہزار 775 انٹیلی جنس بیسڈ چھوٹے بڑے آپریشن کیے، 2025 میں مارچ کے وسط تک 11 ہزار 654 انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے، اس کا مطلب ہے کہ روزانہ اوسطاً 180 آپریشن کر رہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ 1250 کے قریب دہشتگرد 2024 اور 2025 میں واصل جہنم کیے جا چکے ہیں، 563 جوان پاکستان کے عوام کی حفاظت کی راہ میں اپنی جان اللہ کو سپرد کر چکے ہیں، لہٰذا اس پر تو ہر وقت، ہر لمحہ کام ہو رہا ہے، اس کے لیے جانیں دی جا رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کو آہستہ آہستہ اسپیس مل رہی ہے، افغانستان میں فتنہ خوارج کے مراکز ہیں، ان کی وہاں پر قیادت موجود ہے، وہاں پر ان کی تربیت ہو رہی ہے۔

’ریاست پاکستان غیر قانونی اسپیکٹرم کے خلاف جہاد کررہی ہے‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا ہوا ہے، تو نائٹ وژن ڈیوائسز بڑی تعداد میں وہاں پر موجود ہیں، جو ان دہشت گرد تنظیموں کو دستیاب ہیں، اسی طرح اگلی وجہ یہ ہے کہ ہمیں لازمی تسلیم کرنا ہوگا کہ پہلی بار ریاست پاکستان اس غیر قانونی اسپیکٹرم کے خلاف جہاد کررہی ہے، جس میں نارکو، اسمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ وہیکلز شامل ہیں، جس میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کا بہت بڑا مافیا شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سیکڑوں ارب ڈالر کا مافیا ہے، وہ جو مافیا ہے وہ نہیں چاہتے کہ یہ کام ختم ہو جو وہ آزادی کے ساتھ اس ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں، وہ بھی دہشتگردی کو سپورٹ کرتے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ریاست کے دشمن جو نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پوٹیشنل پر ترقی کرے، جن کے کوئی نظریات نہیں ہیں۔

’لاپتا افراد کے معاملے پر کمیشن بنا ہوا ہے‘

لاپتا افراد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ایشو پر ایک کمیشن بنا ہوا ہے اور یہ 2011 سے کام کر رہا ہے، جو بھی کلیم کرتے ہیں کہ مسنگ پرسن ہیں، انہیں حق حاصل ہے کہ اس کمیشن کے پاس جائیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اس کمیشن کے پاس 10 ہزار 405 کیسز لائے گئے، اس میں 8 ہزار 144 کیسز حل ہو چکے ہیں، ابھی 2261 کیسز پر تحقیقات ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس کمیشن پر جو کل کیسز رپورٹ ہوئے وہ 2 ہزار 911 ہیں، اس میں صرف 452 رہ گئے ہیں باقی سب حل ہوچکے ہیں، لہٰذا ریاست اس مسئلے کو حل کر رہی ہے، تاہم ریاست کی طرف سے بھی کچھ سوالات بنتے ہیں، یہ جو بی ایل اے ہے، ان میں کون لوگ ہیں، ان کی فہرست کہاں ہے؟ آپ وہ لسٹ دے دیں، کیا وہ مسنگ پرسن نہیں ہیں، فتنہ خوارج کی فہرست دے دیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو لوگ تربیتی مراکز میں ہیں، ان کی فہرست دے دیں کہ وہ کون لوگ ہیں، ان کا کیا اسٹیٹس ہے؟ یہ ہیومن اسمگنگ میں آپ کے بچے ڈوب جاتے ہیں، ان میں سے کافی مسنگ ہیں، کراچی میں ہر روز فٹ پاتھوں پر جو محنت مزدوری کرنے آتے ہیں، ان میں کئی لوگ اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں، لاورث قرار دے کر انہیں دفنا دیا جاچکا ہوتا ہے، سیکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو دفنایا جاچکا ہے، کسی کے وہ مسنگ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور بھارت میں بھی مسنگ ہیں، کس ملک میں کہاں پر وہ اپنی افواج پر اور اپنے اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں؟ مزید کہا کہ اگر یہ مسنگ ہیں تو پاکستان میں جو ہزاروں لوگ اس دہشتگردی کے ہاتھوں شکار ہوئے ہیں، جس میں سویلین، فوج کے جوان اور پولیس والے بھی ہیں، کیا ان کے بچے اپنے ماں باپ کو مس نہیں کرتے؟ وہ اپنے شہید باپ کو مس نہیں کرتے؟

انٹیلی جنس ناکامی پر سوال کے جواب میں بات کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس کے لیے بہت زیادہ معلومات چاہیے ہوتی ہے، کیونکہ بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اگر آپ بلوچستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ صوبہ پاکستان کا 44 فیصد پر مشتمل ہے جبکہ اس کا 50 فیصد حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اور 20 فیصد صحراوں پر مشتمل ہے، یہ بہت زیادہ چیلنجنگ انٹیلی جنس کا ماحول ہے، اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں وہ رات دن کام کر رہی ہیں تاکہ لیڈز کا پتا چلا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ کوئی حادثہ ہو، اس کو نیوٹرلائز کریں، لیکن انٹیلی جنس میں جہاں آپ کو ناکامی نظر آتی ہے، جس کی آپ نشاندہی کرتے ہیں، جس طرح آپ نے کہا کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، جس سے میں اتفاق نہیں کرتا، اس کے پیچھے انٹیلی جنس کی کامیابی کی ہزاروں اسٹوریاں بھی ہوتی ہیں، جو آپ نہیں جانتے کیونکہ واقعہ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات پاکستان کے شہریوں کے لیے دل و جان سے لگی ہوئی ہیں، اس کو انٹیلی جنس ناکامی کہنے سے احتیاط کرنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ جعفر ایکسپریس آپریشن میں 33 دہشتگردوں جہنم واصل ہوئے ہیں، تعداد ان کی زیادہ تھی، جب انہوں نے ٹرین سے لوگوں کو نکال کر یرغمال بنا لیا تو ایک اسمال گروپ کو انہوں نے یہاں چھوڑ دیا اور باقی بڑی تعداد میں گروپ واپس پہاڑوں کی طرف جا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ فورسز سے رابطہ کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے لیکن آبزرویشن جلد ہی شروع ہو جاتی ہے، تو وہ خاص فاصلے پر آگے چلے گئے تھے، وہ مختلف پارٹیوں میں جا رہے تھے، ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ ان کی بڑی تعداد وہاں پر ماری گئی، لیکن تمام نہیں مارے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرین پر جہاں آپریشن ہوا، جو اسنائپرس اور ضرار نے کیا، وہاں پر مجموعی طور پر 33 جہنم واصل ہوئے۔

’دہشتگرد کسی کو یرغمال بنا کر نہیں لے گئے‘

بی ایل اے کی جانب سے اب بھی یرغمال بنانے کے دعوے پر سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ کسی یرغمالی کو اپنے خفیہ ٹھکانوں پر لے جاسکیں، دہشتگرد خود جا رہے تھے ان کے ساتھ کوئی یرغمالی نہیں تھے، تمام یرغمالی وہیں موجود تھے۔

’جعفر ایکسپریس پر حملے میں 18 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد شہید ہوئے‘

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حملے میں ہونے والے جانی نقصان سے متعلق سوال پربتایا کہ واقعے میں مجموعی طور پر 26 مسافروں کی شہادتیں ہوئیں، 354 یرغمالیوں کی زندہ بازیاب کروایا گیا ہے جن میں 37 زخمی بھی شامل ہیں، انہوں نے بتایا کہ 18 شہدا کا تعلق آرمی اور ایف سی سے ہے، 3 شہدا ریلوے اور دیگر محکموں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ 5 عام شہری تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس پوری کارروائی کے دوران ایف سی کی 5 آپریشنل شہادتیں بھی ہوئی ہیں جن میں ایف سی کے 3 جوانوں کو دہشت گردوں نے ٹرین کو نشانہ بنانے سے قبل چوکی پر حملہ کرکے شہید کیا، ایف سی کا ایک جوان 12 مارچ کی صبح دہشتگردوں کو نشانہ بنانے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں شہید ہوا، اس جوان کی فائرنگ کے نتیجے میں یرغمالیوں کو دہشگردی کے شکنجے سے بھاگ نکلنے کا موقع ملا، انہوں نے بتایا کہ ٹرین میں ڈیوٹی پر مامور ایف سی کے جوان کی بھی حملے کے دوران شہادت ہوئی ہے۔

علیحدگی پسندوں سے دہشت گردوں والا برتاؤ کیا جائے گا، وزیراعلیٰ بلوچستان

قبل ازیں، پریس کانفرنس کے آغاز میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو کامیاب کارروائی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، پاک فوج کا یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانا قابل تعریف ہے۔

سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بدامنی پھیلانے والے عناصر سے کوئی رعایت نہیں برتی جائےگی، علیحدگی پسندوں سے دہشت گردوں جیسا برتاؤ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت کرنے پر امریکا، چین، روس، برطانیہ، ایران، ترکی ،اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، یورپ، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اور یورپی سفیر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

سرفراز بگٹی نے کہا بلوچ روایات میں اس طرح واقعات کو اس نظر سے دیکھاجاتا ہے جس کا بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں، بلوچ روایتوں کے امین ہیں مگر دہشت گردوں نے ان تمام روایات کو پامال کردیا ہے، اس لیے میں کہتاں ہیں انہیں بلوچ نہ کہا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے خوارج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح بلوچیت کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا بلوچیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لڑائی کا بلوچیت اور حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خالصتاً شیطانی قوتیں اور دہشتگرد ہیں، جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے اسے توڑنا چاہتے ہیں۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ میں سوال اور جواب سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے، بہت پہلے سے ہو رہی ہے، انہوں نے دوحہ میں دنیا کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ ان کی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، یہ دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خطرہ صرف پاکستان کے لیے نہیں ہے۔

کیا صرف پاکستان میں لاپتا افراد ہیں؟ وزیر اعلیٰ بلوچستان

ان سے سوال پوچھا گیا کہ لاپتا افراد کا معاملہ دہشت گردی کے ساتھ کتنا منسلک ہے، اس سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ایک شخص بھی لاپتا ہے تو اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، آپ نے دیکھنا ہے کہ ازخود لاپتا اور زبردستی لاپتا ہونے والوں کو، اس میں بڑا فرق ہے، اگرچہ یہ حکومت کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ڈھونڈیں کہ وہ کہاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم اگر اسے ریاست کے خلاف پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا جائے، تو اس کی مذمت کرنی چاہیے، دنیا میں دیکھیں تو کیا صرف پاکستان میں لاپتا افراد ہیں؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مسنگ پرسن کی تعداد کیا ہے؟ امریکا اور برطانیہ اور پھر ریجن میں کتنے افراد لاپتا ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان میں خیبرپختونخوا اور دیگر جگہوں پر بھی یہ ایشو ہےلیکن بلوچستان والے کو بار بار دہرایا کیوں جاتا ہے؟

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ دہشت گرد اس بنیاد پر نہیں لڑ رہا، دہشتگردی کا کوئی تعلق پسماندگی سے نہیں ہے، یہ بحث ہی ٹھیک نہیں ہے، ان کا مقصد ملک کو توڑنا ہے اور وہ تشدد کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ 11 مارچ کو دہشت گردوں نے بولان پاک کے علاقے میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا، اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

اگرچہ دور دراز علاقے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا، لیکن سیکیورٹی فورسز نے ڈھاڈر کے علاقے میں بولان پاس میں یرغمالیوں کو بچانے کے لیے ایک بڑا آپریشن کیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اگلے روز بتایا تھا کہ جعفر ایکسپریس کے یرغمالی مسافر بازیاب ہوگئے اور تمام 33 دہشت گرد ہلاک کردیے گیا، تاہم آپریشن شروع ہونے سے پہلے دہشت گردوں نے 21 شہریوں کو شہید کیا۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 مارچ 2025
کارٹون : 14 مارچ 2025