کیا بی ایل اے کے خلاف جنگ میں چین پاکستان کو فوجی و مالی امداد فراہم کرے گا؟
بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد توقع ہے کہ ریاست کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا جس میں ممکنہ طور پر مختلف محاذوں پر فوجی کارروائیاں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ تاہم صوبے کے سیاسی مسائل اور بالخصوص بات چیت کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کے طریقوں پر توجہ مرکوز رہے گی خواہ پھر وہ بات چیت کتنی خاموشی سے کیوں نہ ہو۔
اس بحث میں ایک اہم نکتہ بھی شامل ہوگا اور وہ باغیوں کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے بیرونی حمایت کا کردار ہوگا جو دوسرے ممالک کی جانب سے وسائل کی امداد اور سفارتی پشت پناہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں تین عناصر اہم ہیں۔
سب سے پہلے بلوچ انتہا پسندوں نے حال ہی میں ایک میٹنگ کے دوران چین کو اپنے منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اس سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ چین پاکستان کو باغیوں کے خلاف کوششوں میں مدد کرنے کے لیے رقم اور وسائل کی پیشکش کے معاملے میں کس طرح کا ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ پاکستان کو شاید امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں سے زیادہ مادی مدد نہیں مل پائے گی جس کی وجہ صرف سیاسی کشیدگی، یوکرین میں جاری تنازع نہیں بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ مغرب اکثر علیحدگی پسند گروپس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ مذہبی دہشت گردی اور انتہاپسندی کو مختلف انداز میں پیش کرتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان، بھارت کی بیرونی لابنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے سفارتی حمایت حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دے گا۔ بھارت بلوچ علیحدگی پسندی کے پیغام کو پھیلانے اور بیرون ملک بلوچ کمیونٹی باغیوں کو دی جانے والی مالی اور سیاسی مدد کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تیسرا عنصر یہ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ بیرونی فوجی مدد ہمیشہ سے بہت اہم رہی ہے۔ مثال کے طور پر 1970ء کی دہائی میں باغیوں کے خلاف لڑائی کے دوران پاکستان کو شاہ ایران کی اہم فوجی مدد حاصل رہی تھی۔ اب ماہرین کا خیال ہے کہ کیا چین پاکستان کو باغیوں کے خلاف اس کی حالیہ جنگ میں اسی نوعیت کی مدد فراہم کرے گا جو کہ اس وقت ایران نے فراہم کی تھی۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر چھوٹے باغی گروپ باقاعدگی سے چینی شہریوں اور پاکستان میں چین کے تجارتی اور سفارتی مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔ ان گروہوں نے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جیسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور بلوچستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ چین کے پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چین پاکستان میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب ماحول اس کے شہریوں کے لیے محفوظ ہو۔
دہشت گردانہ حملے جس کی مثال گزشتہ سال اکتوبر میں کراچی میں چینی شہریوں کو ایئرپورٹ سے نکلتے ہی نشانہ بنانا ہے، اس واقعے سے دونوں ممالک کے درمیان عارضی کشیدگی پیدا ہوئی۔ تاہم بعد میں اعتماد سازی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو کم کیا گیا۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ قریبی شراکت داری کی وجہ سے چین کو دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ چونکہ چین نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس لیے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا چین پاکستان کی فوج کو بی ایل اے سے لڑنے کے لیے براہ راست مدد فراہم کرسکتا ہے؟
ماضی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے چین نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے لیکن عملی تعاون محدود رہا ہے۔ مثال کے طور پر 2007ء میں اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف آپریشن چینی صدر ہوجن تاؤ کی جانب سے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو کال کرنے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ یہ کال جامعہ حفصہ مدرسہ کی طالبات کے ہاتھوں چینی ہیلتھ ورکرز کے اغوا کے بعد کی گئی تھی۔
یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ 2014ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے پاکستان کے فیصلے میں بھی چین ملوث رہا ہوگا۔ کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد چین نے ایک بار پھر پاکستان پر زور دیا کہ وہ بلوچ باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ تاہم چین واضح مالی یا لاجسٹک مدد فراہم کرکے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہونے کے بارے میں احتیاط برت رہا ہے۔
پاکستان نے سی پیک اور چینی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع سیکیورٹی میکانزم ترتیب دیا ہے جس میں ایک خصوصی سیکیورٹی ڈویژن کی تشکیل بھی شامل ہے۔ تاہم چین خطرات سے نمٹنے کے معاملے میں بالکل بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتا اور وہ اپنے اتحادیوں جیسے پاکستان سے توقع کرتا ہے کہ کسی بھی خطرات کے خلاف اسی کی طرح سخت مؤقف اپنائے۔
پاکستان انتشار پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن پر بہت لاگت آئے گی خاص طور پر چونکہ ملک پہلے ہی دیگر مہمات میں مصروف ہے جس میں بلوچستان میں علیحدگی پسند باغیوں اور خیبر پختونخواہ میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عزمِ استحکام آپریشن نمایاں ہے۔ ایسے فوجی آپریشن کے اخراجات اور سیاسی نتائج بہت اہم ہوتے ہیں۔ ریاستی ادارے ایسا سیاسی عمل شروع کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے اقتدار پر ان کا کنٹرول کمزور ہو۔ انہیں خوف ہے کہ اس سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔
سیاسی قیادت خطرہ مول لینے کے لیے زیادہ تیار ہے لیکن بہت سے رہنما خاص طور پر اقتدار میں براجمان لوگ بلوچستان کے حالات کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے۔ وہ کارروائی کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری میں نہیں بلکہ معاملہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ہے۔
سیاسی حل کے بغیر فوجی کارروائیاں صرف سیکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم ہوں گی۔ چینی ماہرین اکثر اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ چین موجودہ فریم ورک سے آگے بڑھ کر کس طرح پاکستان کو مدد فراہم کر سکتا ہے جیسے کہ آلات فراہم کرنا، انٹیلی جنس کا تبادلہ اور مشترکہ سیکیورٹی مشقیں وغیرہ جبکہ چین پہلے بھی گہرے تعاون کی تجویز دے چکا ہے جیسا کہ پاکستان میں نجی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی مگر پاکستان کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے پیش رفت سست رہی ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا چین نگرانی کے سازوسامان، فوجی آلات کی فراہمی یا بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے لیے فنڈز فراہم کرکے سیکیورٹی تعاون کو گہرا کرنے پر دوبارہ غور کرے گا یا نہیں۔ اگرچہ چین بی ایل اے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) و دیگر اتحادی گروپس کی جانب سے اس کے مفادات کو نشانہ بنانے اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات سے پریشان ہے مگر یہ غیر یقینی ہے کہ چین انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں کس حد تک حصہ لے گا۔
چین کو تشویش ہے کہ خطے میں غیرمحفوظ ماحول، عالمی سطح پر دہشت گردی کے خطرات کو بڑھاتا ہے اور اس کے اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف سے توجہ ہٹاتا ہے جس سے اس کے وسیع تر جغرافیائی اقتصادی مقاصد پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے چین ہمسایہ ممالک میں فوجی مہمات کی بھرپور حمایت کرنے کے بارے میں محتاط رہا ہے مگر استثنیٰ بھی تھیں جیسے میانمار میں وہ فوجی جنتا کی حمایت کرتا ہے اور کچھ عسکریت پسند گروپس کے ساتھ امن مذاکرات میں ثالثی بھی کرتا ہے۔ اگرچہ چین پاکستانی فوجی آپریشن کے اخراجات کا اشتراک کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوسکتا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان گہرے سیکیورٹی تعاون کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔
چین اور پاکستان ایک ایسا تعاون کا فریم ورک بنا سکتے ہیں جس میں چینی نجی سیکیورٹی اہلکاروں کی براہِ راست شرکت شامل نہ ہو۔ یہ فریم ورک انٹیلی جنس کے اشتراک، ٹریننگ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص بلوچستان اور سندھ میں پولیس اور انسداد دہشت گردی یونٹس کو سامان فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے۔ اس میں مشترکہ سیکھنے کے تجربات اور سرحدوں کے انتظام کے لیے زمین، سمندر اور ہوا مشترکہ پروٹوکول بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعاون کو غیرروایتی سیکیورٹی خطرات اور سنگین منظم جرائم سے نمٹنے کے لیے وسعت دی جا سکتی ہے۔
بالآخر پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج بلوچستان میں استحکام لانا ہے۔ اس طرح کے مشکل وقت میں ممالک قدرتی طور پر اکثر مدد اور حمایت کے لیے اپنے اتحادیوں کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔