’آج بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری دہائیوں کی ناقص پالیسیز کا نتیجہ ہے‘
ملک میں پُرتشدد حملوں کی حالیہ لہر نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن اب تک غلطیوں کی نشاندہی اور انہیں درست کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ نہ کبھی اپنی کوتاہی سمجھنے کی کوشش کی گئی اور نہ کبھی اس حوالے سے غور کیا گیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دہشتگردانہ حملے ملک کو لاحق ایک انتہائی وسیع خطرے کی یاددہانی کرواتے ہیں جبکہ یہ خطرہ اب سب سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔
دونوں صوبوں کو لاحق سیکیورٹی کے خطرات مختلف نوعیت کے ہیں لیکن ان دونوں کا امتزاج اس خطرے کو پیچیدہ بناتا ہے۔ بیرونی عناصر اور اندرونی عدم استحکام نے حکومت کے لیے چیلنجز کو مزید سنگین رخ دیا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ لوگوں کو مجبور کرنے اور انہیں حقوق دینے سے انکار سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں جو ہورہا ہے وہ دہائیوں سے وسیع پیمانے پر رائج ہماری ناقص پالیسیز کا نتیجہ ہے۔ فوجی کارروائیوں کی صورت میں ردعمل دینے سے سیاسی مسائل نے بہت سے لوگوں کو عسکریت پسندی کی جانب دھکیلا ہے۔ ایک ایسی صوبائی انتظامیہ جوکہ سیاسی انجنیئرنگ کا نتیجہ ہے اور جسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، تباہی کے دہانے پر ہے۔ بہت سے حلقے اسے صوبے میں تقریباً خانہ جنگی کی صورت حال کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں باغیوں کا بیانیہ غالب ہے۔
چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والے ایک تنازعہ نے گزشتہ دو دہائیوں سے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے اور اب یہ تیزی سے ایک مکمل شورش میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں مقامی آبادی ریاست کی جانب سے نظرانداز کیے جانے کے احساس کے زیرِاثر ہے۔ صوبائی انتظامیہ کی رٹ کم ہونے پر علیحدگی پسند گروہ صوبے میں حملے کررہے ہیں۔
ٹرین ہائی جیکنگ کے چند روز بعد ایک بس کے قریب دھماکا ہوا جس میں سیکیورٹی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے۔ حملوں کی تازہ لہر میں زیادہ تر سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ علیحدگی پسندوں کی جانب سے حملے کرنے کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے جو اب ہائی پروفائل حملے کررہے ہیں۔ یہ حملے تیزی سے وسیع پیمانے پر پھیل رہے ہیں۔
رواں سال جنوری میں مبینہ طور پر بھاری ہتھیاروں سے لیس درجنوں عسکریت پسندوں نے ضلع خضدار میں لیویز اسٹیشن پر حملہ کیا اور شہر کے اطراف میں اپنی چوکیاں قائم کردیں۔ اگرچہ یہ حملہ صرف چند گھنٹوں تک جاری رہا لیکن اس واقعے نے عموماً عسکریت پسندوں کی ’ہٹ اینڈ رن‘ حکمت عملی سے کنٹرول حاصل کرنے کی روش کی جانب اشارہ کیا۔ سڑکوں پر بھی رکاوٹیں لگانے کا سلسلہ بھی زیادہ ہوگیا۔ گزشتہ ماہ قلات ضلع میں رات گئے ہونے والے باغیوں کے حملے میں 18 فوجی جان سے گئے تھے جوکہ کسی بھی واقعے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی سب سے زیادہ اموات تھیں۔
سال 2024ء میں پاکستان میں دس سالوں میں سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر باقاعدہ ٹارگٹڈ حملے تھے لیکن مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں جبکہ صوبے کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی شاہراہوں کو بھی بند کیا گیا۔ حالیہ غیر مصدقہ فوٹیج میں مسلح افراد صوبے کے دوسرے بڑے شہر تربت کی سڑکوں پر آزادانہ گشت کررہے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ شورش زدہ اضلاع میں مکمل تباہی کے مناظر تھے۔
بلوچ علیحدگی پسند دھڑوں بالخصوص بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے پُرتشدد حملوں میں گزشتہ سال تقریباً 225 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر حملے ایسے علاقے میں ہوئے ہیں جو طویل عرصے سے سیاسی عدم اطمینان کا مرکز رہے ہیں۔ ہر دہشتگردانہ حملے کے نتیجے میں فوج نے ایک نئے متحرک آپریشن کا آغاز کیا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں ساحلی پٹی اور ایران کی سرحد سے متصل علاقے شامل ہیں۔ یہ وہ خطے بھی ہے جہاں چین ترقیاتی کاموں میں پاکستان کی شراکت داری میں کام کررہا ہے۔
بلوچستان میں سی پیک کے مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر حملوں میں حالیہ اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کے علاوہ عام پاکستانی شہری، خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بعض صورتوں میں مسافروں کو مرکزی شاہراہ پر بسوں سے اتار کر گولی مار دی گئی ہے۔ اس طرح کے واقعات نے علیحدگی پسند عسکریت پسندی کو ایک ہولناک رخ دیا ہے۔
بلوچستان کئی دہائیوں سے ناقص سیکیورٹی کے مسائل سے نبردآزما ہے۔ یہ خطہ بی ایل اے سمیت متعدد مسلح گروہوں کا گڑھ بن چکا ہے اور یہ تنظیمیں بلوچستان کو الگ کرنا چاہتی ہیں۔ عسکریت پسند گروپ جو 1970ء کی دہائی میں تشکیل دیا گیا تھا، اصل میں نواب خیر بخش مری کے وفادار مری قبائلیوں پر مشتمل تھا۔ لیکن بعد میں معاملات بدل گئے۔ آج بی ایل اے اپنے تعلیم یافتہ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے اراکین پر فخر کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی بے چینی سے پڑھے لکھے بلوچ اور قبائلی ایک صفحے پر آگئے ہیں۔
بلوچ ایک عرصے سے مرکزی حکومت پر امتیازی سلوک کا الزام لگاتے آ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جمہوری اور قانونی طریقوں سے اپنے حقوق حاصل نہیں کر پائیں گے۔ جوڑ توڑ کے ذریعے ہونے والی سیاسی انجینئرنگ نے ایسی بدگمانیوں کو تقویت دی ہے۔ یہاں تک کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں جو وفاق کے دائرے میں رہ کر اپنے سیاسی اور معاشی حقوق کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اب انہیں بھی نظرانداز کردیا گیا ہے۔
ایسے میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ 2024ء کے انتخابات کے بعد صوبے میں عسکریت پسندوں کے پُرتشدد واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی۔ ایسے عناصر سیاسی استحکام نہیں دے سکتے جنہیں عوام اپنا نمائندہ نہ سمجھیں۔ صوبے پر عملی طور پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی رہی ہے جس سے عوام اور ریاست کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔
جمہوری حقوق دینے سے انکار، ریاستی جبر اور غربت نے بہت سے لوگوں خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی جانب راغب کیا ہے۔ علیحدگی پسند گروپ جنہیں مبینہ طور پر دوسرے ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے، اب بہتر منظم اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جس کی وجہ سے وہ اس قسم کے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس نوعیت کے حملوں کا حال ہی میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے۔
علیحدگی پسند گروپوں کے پاکستان دشمن ممالک سے روابط کے پختہ ثبوت ضرور موجود ہیں لیکن یہ اندرونی بے چینی ہے جس کا فائدہ بیرونی طاقتیں اٹھا رہی ہے۔ کسی بھی غیرملکی مداخلت کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے گھر کے معاملات درست کرنا ہوں گے۔
علیحدگی پسند شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے ریاستی حق سے کوئی انکاری نہیں لیکن سیاسی اور معاشی عدم اعتماد کی وجوہات کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے جو صوبے میں بڑھتی ہوئی شورش کو جنم دے رہی ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو ریاست کے ایسے ردعمل کی ضرورت ہے جس سے ان کے زخموں کا علاج ہو۔ اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے ان پر طاقت کا زور چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ دائمی ہے جو جابرانہ نظام کا نتیجہ ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔