• KHI: Zuhr 12:38pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:08pm Asr 4:33pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:38pm
  • KHI: Zuhr 12:38pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:08pm Asr 4:33pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:38pm

بی ایل اے کا بنیاد پرست طلبہ تنظیم سے عسکریت پسند قوت بننے تک کا سفر

شائع March 24, 2025
—السٹریشن: ابڑو
—السٹریشن: ابڑو

اگست 1974ء میں عبدالمجید بلوچ نامی شخص دستی بم لیے درخت کی اوٹ میں چھپا بیٹھا ہے۔ یہ درخت کوئٹہ میں اس مقام کے عین سامنے موجود ہے جہاں اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی جلسے کے سلسلے میں موجود ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب بلوچستان بغاوت کی لہر کی لپیٹ میں تھا۔ عبدالمجید ایک نوجوان باغی تھا جو ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ناکام رہا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے پکڑے جانے پر اس کے ہاتھ میں موجود بم غلطی سے پھٹ گیا اور عبدالمجید موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

36 سال بعد صوبے میں بپا بغاوت کی ایک اور لہر میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے خودکش بمباروں کا ایک یونٹ بنایا ہے۔ اس یونٹ کا نام عبدالمجید سے منسوب ہے جسے ’مجید بریگیڈ‘ کہا جاتا ہے۔

وسیع پیمانے پر یہ مانا جاتا ہے کہ بی ایل اے کا قیام سال 2000ء میں عمل میں آیا (جوکہ بالکل غلط ہے)۔ ہاں 2006ء میں یہ بہت زیادہ عسکریت پسند اس وقت ہوئی تھی کہ جب پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے معروف بلوچ قبائلی شخصیت نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔

پرویز مشرف نے بلوچ قبائلی رہنماؤں پر ’بلوچستان کی ترقی کو نقصان پہنچانے‘ اور ’صوبے کے لیے مختص ریاستی فنڈز کو ضائع کرنے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ 1970ء کی دہائی میں اٹھنے والی بغاوت کی لہر میں اکبر بگٹی نے ریاست پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔

1948ء سے اب تک بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے کم از کم پانچ مسلح بغاوتیں ہوچکی ہیں جبکہ ایک بغاوت اس وقت چل رہی ہے۔

2011ء کے بعد سے بی ایل اے نے علاقائی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دی اور یہ تنظیم صوبے سے باہر میڈیا کی نظروں میں بھی آنے لگی بالخصوص جب اس نے خودکش بمباری کا آغاز کیا کیونکہ یہ اس سے قبل صرف اسلامی عسکریت پسند تنظیمیں کیا کرتی تھیں۔ بی ایل اے مکمل طور پر سیکیولر تنظیم ہے جو اپنے پیش روؤں کی بائیں بازو کی میراث کو بھی کسی حد تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لٹریچر میں مارکس یا ماؤ زے تنگ کا ذکر ختم ہوتا چلا گیا لیکن بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے بلوچ قوم پرستوں کا لٹریچر نمایاں رہا۔

حیرت نہیں غیر بلوچ ’ترقی پسندوں‘ (وہ لوگ جو سماجی اور سیاسی تبدیلی کے حامی ہیں) نے یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ بی ایل اے اسلامی انتہاپسند تنظیموں سے مختلف ہے لیکن انہیں مخالفت اور طنز کا سامنا کرنا پڑا۔ بی ایل اے کی طرف سے نسلی امتیازی اور خودکش بم دھماکوں جیسے انتہائی ہتھکنڈوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے کچھ حلقوں نے یہ مؤقف اختیار کرنے والوں کو احمق قرار دیا۔

بی ایل اے کو اکثر بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے جوڑا جاتا ہے جس نے 1970ء کی دہائی کے دوران سب سے بڑی بلوچ بغاوت کی لہر میں متحرک کردار ادا کیا تھا۔ بی ایل ایف آزاد بلوچستان اور ’قومی کمیونزم‘ کے لیے کھڑی ہوئی تھی۔ قومی کمیونزم کی اصطلاح سب سے پہلے یوگوسلاوین مارکسسٹ میلووان ڈیجلس نے کمیونزم اور نسلی قوم پرستی کے امتزاج کو بیان کرنے کے لیے وضع کی تھی۔ اس کے باوجود جب کئی سال بعد بی ایل اے بنی تب بھی بی ایل ایف موجود تھی۔

بی ایل اے کی براہ راست جڑیں 1988ء کے انتخابات کے تجربے سے جا ملتی ہیں۔ اس وقت زیادہ تر بلوچ گروہوں کی سربراہی قبائلی رہنما کررہے تھے جبکہ بڑھتا ہوا بلوچ متوسط طبقہ اپنی شناخت کے حصول کی کوششوں کا آغاز کرچکا تھا۔ بلوچ طلبہ تنظیمیں اپنے قبائلی رہنماؤں سے مایوس ہوچکی تھیں اور وہ ان پر ’قضیہ بلوچ‘ کو کمزور کرنے کے الزامات عائد کررہی تھیں۔

1988ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل متوسط طبقے کے بلوچ کارکنان پر مبنی بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کا قیام عمل میں آیا۔ بلوچستان سے چند اہم نشستیں جیت کر اس پارٹی نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا تھا کیونکہ یہ حلقے بلوچ رہنماؤں کے گڑھ کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔

اگرچہ 1990ء کی دہائی کے وسط میں بی این ایم ٹوٹ گئی تھی لیکن یہ ’بغاوت‘ بلوچ قبائلی رہنماؤں اور نوجوان، متوسط طبقے کے بلوچ قوم پرستوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کا پہلا ثبوت تھی۔ ایک اور دلچسپ حقیقت جسے اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بی این ایم اور حتیٰ کہ بی ایل اے کا قیام انہی بنیاد پرست بلوچ طلبہ کی وجہ سے عمل میں آیا۔

2011ء میں امریکی، پاکستانی اور بھارتی رپورٹرز کے ایک گروپ نے ماسکو میں دو سابق سوویت ایجنٹس کا انٹرویو کیا جنہوں نے بتایا کہ بی ایل اے بنیادی طور پر سوویت انٹیلی جنس ایجنسیز کا پروجیکٹ تھا جو بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش تھی کیونکہ پاکستان 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین مخالف بغاوت میں ملوث تھا۔

تو ابتدائی طور پر بی ایل اے 1980ء کی دہائی میں منظم ہوئی لیکن سوویت یونین کے زوال کے ساتھ ساتھ وہ بھی بکھرنے لگی۔ درحقیقت بی ایل اے 2000ء میں دوبارہ زندہ ہوئی تھی، اس کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ وہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ چناچہ جب بی این ایم کے جن دھڑوں نے انتخابی سیاست کو ترک کردیا تھا، انہیں دھڑوں نے سب سے پہلے بی ایل اے کو زندہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ 2000ء کی دہائی کے وسط میں تقریباً پوری بی ایل اے کو متوسط طبقے کے بلوچ چلا رہے تھے۔

آج بی ایل اے سب سے بڑی اور سب سے زیادہ خوفناک ریاست مخالف بلوچ عسکریت پسند تنظیم ہے جبکہ اس کے پاس کافی زیادہ وسائل بھی ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں بی ایل ایف جیسی تنظیموں کو عراق کی سابقہ بعث سوشلسٹ حکومت اور سردار داؤد کی سربراہی میں افغان قوم پرست حکومت سے کچھ فنڈز اور اسلحہ ملا تھا لیکن کبھی بھی یہ شواہد نہیں ملے کہ بی ایل ایف کو بھارت یا سوویت یونین کی جانب سے اہم امداد ملی ہو۔

1980ء کی دہائی میں بلوچستان میں سوویت یونین کی دلچسپی بڑھی تھی لیکن 1991ء میں سوویت کے خاتمے کے ساتھ وہ بھی ختم ہوگئی تھی۔ اس وقت تک صوبے کی ’پختون بیلٹ‘ پر اسلام پسند گروپس کا غلبہ شروع ہوچکا تھا جن میں سے اکثر کو ریاست نے 1980ء کی دہائی کی ’افغان جہاد‘ کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔

نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود بی ایل اے اور اسلامی انتہاپسند تنظیموں نے صوبے میں بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کی موجودگی کو برداشت کیا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے آپس میں تعاون بھی کیا ہے۔ یہ بیانیہ کہ ناراض بلوچوں اور ریاست کے درمیان سنجیدہ مذاکرات ہونے چاہئیں جس کی بازگشت بارہا سنائی دیتی ہے، متوسط طبقے کے بلوچ بنیاد پرست اس بیانیے پر کان نہیں دھرتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ غیرمؤثر قبائلی رہنماؤں اور روایتی سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ مؤقف ہے۔

بی ایل اے کو اہم فنڈنگ فراہم کرنے والے توقع کرتے ہیں کہ عسکریت پسند گروپ اپنی کارروائیاں تیز کرے اور ان کی حمایت کے بدلے میں ریاست کے خلاف مزید سخت رویہ اختیار کرے۔ 1970ء کی دہائی کے کمزور مسلح بلوچ عسکریت پسندوں کے برعکس، آج کی بی ایل اے کے جنگجو یونیفارم پہنتے ہیں اور جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں یہ سامان آخر کون فراہم کر رہا ہے؟

ماہر سیاسیات سیما خان کے مطابق، بھارت بی ایل اے کا اہم مالی معاون ہے۔ 2024ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’بلوچستان اینڈ دی میلانج آف وائلنس‘ میں وہ کہتی ہیں، ’بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں کو اسلحہ، فنڈز، ٹریننگ اور پناہ دیتا ہے‘۔ بھارت خطے میں چینی منصوبوں کو متاثر کرنے کے لیے بلوچستان میں تنازع جاری رکھنا چاہتا ہے۔

بی ایل اے نے ایک طرف پاکستان اور چین کے درمیان علاقائی کشیدگی کا فائدہ اٹھایا جبکہ دوسری جانب بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان تناؤ سے بھی بی ایل اے مستفید ہوا۔ تاہم شاید اسے اس کی قیمت بھی چکانی پڑے جیسا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا امکان بڑھتا جا رہا ہے تو بی ایل اے جس کے افغانستان میں گڑھ موجود ہیں، اس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کابل میں ’بھارت نواز‘ طالبان دھڑے کے ساتھ مل کر ’پاکستان نواز‘ طالبان دھڑے کے خلاف لڑے جوکہ حقانی گروپ ہے۔ اس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار نجم سیٹھی کے مطابق افغانستان میں متوقع خانہ جنگی بھارت نواز طالبان، ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بی ایل اے کے درمیان اتحاد کا باعث بن سکتی ہے جو سراج الدین حقانی کے طالبان، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کی حمایت یافتہ غیر پختون ملیشیاؤں کے خلاف لڑے گی۔

اگر یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو بی ایل اے بکھر سکتی ہے حتیٰ کہ ان تنازعات کے نتیجے میں سب سے پہلے اور زیادہ نقصان اٹھانے والے گروہوں میں سے ایک بھی بن سکتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 مارچ 2025
کارٹون : 25 مارچ 2025