• KHI: Maghrib 6:46pm Isha 8:02pm
  • LHR: Maghrib 6:18pm Isha 7:40pm
  • ISB: Maghrib 6:24pm Isha 7:48pm
  • KHI: Maghrib 6:46pm Isha 8:02pm
  • LHR: Maghrib 6:18pm Isha 7:40pm
  • ISB: Maghrib 6:24pm Isha 7:48pm

’بلوچستان یہاں سے نظر نہیں آتا‘

شائع March 25, 2025

بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد حال ہی میں آرمی چیف نے پارلیمان سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے’ ہارڈ اسٹیٹ ’ میں بدلنا ہوگا۔آر می چیف نے استفسار کیا کہ آخر کب تک ایک ’ سوفٹ اسٹیٹ ’ بے شمار جانیں قربان کی جاتی رہیں گی، اور کب تک گورننس کی خامیاں فوجیوں اور شہیدوں کے خون سے دور کی جاتی رہیں گی۔

عالمی برادری نے بھی اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ تاہم انسانی اعمال، بشمول مجرمانہ اعمال، کا ایک سیاق و سباق اور وجہ ہوتی ہے جسے یہ یقینی بنانے کے لیے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان اعمال و افعال کو دہرایا نہ جائے۔ بلوچستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد سے، اس پر کھلے عام اور/یا خفیہ طور پر مرکز کی حکمرانی رہی ہے۔ ہر طرح کے استحصال اور انسانی و سیاسی حقوق سے انکار کے خلاف احتجاج کو غداری کے مترادف قرار دیا جاتا رہا ہے، اور جب مایوسی کے عالم میں یہ احتجاج بغاوتوں کا باعث بنتے ہیں تو انہیں بغاوت، غداری اور دہشت گردی قرار دے کر بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں مارے گئے بلوچوں، معذور اور زخمی بلوچوں، تشدد کا نشانہ بننے والے بلوچوں، لاپتا بلوچوں، ہمیشہ کے لیے صدمے کا شکار ہوجانے والے بلوچ خاندانوں، اور تقریباً ناقابل تلافی طور پر تنہا کردیے جانے والے بلوچ دانشوروں کی تعداد شاید لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور معتبر بلوچ رہنما عطا اللہ مینگل کے بیٹے اور معتدل سیاسی نقطہ نظر رکھنے والے اختر مینگل نے خبردار کیا ہے کہ آج بلوچستان کی صورتحال پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

مزید برآں، بلوچوں کی تنہائی پشتونوں کی بڑھتی ہوئی تنہائی اور سے جڑ گئی ہے۔ اس سے مسئلہ کسی بھی فوجی حل سے کہیں زیادہ پرے چلا جاتا ہے۔ مسلسل فوجی کارروائی صرف پڑوسیوں کو مداخلت کے بڑھتے ہوئے مواقع اور ترغیبات فراہم کرے گی جس کے نتیجے میں صورتحال بالآخر قابو سے باہر ہوجائے گی۔

پنجاب کے موقع پرست سیاست دان کہا کرتے تھے کہ ’ بلوچستان یہاں سے نظر نہیں آتا ’۔ اس رویے کی وجہ سے مسئلہ بڑھتا گیا اور آج پورا پاکستان بلوچستان بن گیا ہے جبکہ پاکستان کو ’گریٹر پنجاب‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ آخری بار جب ’گریٹر پنجاب‘ کو ون یونٹ کی شکل میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے پاکستان ٹوٹ گیا۔ لہذا، ہمارے قومی فیصلہ سازوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے قلیل مدتی فوائد ہو سکتے ہیں لیکن طویل مدتی نتائج کہیں زیادہ سنگین اور ناقابل تلافی ہوں گے۔ بدقسمتی سے، بحیثیت ایک ملک ، ہم کبھی نہیں سیکھتے یا ہمیں اپنی بہت سی تباہیوں سے سیکھنے نہیں دیا جاتا۔

’سافٹ اسٹیٹ‘ کا تصور سویڈش ماہر اقتصادیات اور ماہر عمرانیات گنار میرڈل نے پیش کیا، جنہوں نے 1968 میں اپنی مشہور کتاب ’ ایشین ڈراما ’ لکھی تھی۔ ’سافٹ اسٹیٹ‘ کا یہ تصور اب ’ ناکام اسٹیٹ ’ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ میرڈل نے ایک سافٹ اسٹیٹ کی تعریف اس طرح کی کہ ’ کمزور حکمرانی، موثر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمی، اور عمومی سماجی اور سیاسی بد نظمی ’۔ یہ تصور تقریباً آج کے پاکستان کی سیاسی حالت کو بیان کرتا ہے۔ پیچیدہ سیاسی چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال پر انحصار ایک مضبوط یا سخت ریاست کی علامت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، یہ ایک کمزور سوفٹ اسٹیٹ کی علامت ہے جو اپنے ہی شہریوں کے خلاف ریاستی طاقت کے غیر متعلقہ مظاہرے سے ایسے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے سے گریزاں ہے۔

میرڈل لکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں، سماجی اور معاشی انقلابات کی ضرورت کے بارے میں بات کرنے کے باوجود، پالیسی ساز ’ روایتی سماجی نظام کو درہم برہم ہونے سے بچانےکے لیے بہت احتیاط سے قدم اٹھاتے ہیں’۔ نتیجے کے طور پر، ’ یہ ممالک سوفٹ اسٹیٹ بنے رہتے ہیں جو وہ حاصل نہیں کرسکتے جو انہیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بات معاشرے اور معیشت کے لیے درست ہے وہ قوم کی تعمیر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

’یونٹی آف کمانڈ‘ کا عسکری نقطہ نظر کبھی بھی پیچیدہ تاریخی، شناختی، طبقاتی تنازعات، وسائل کی تقسیم، سماجی سیاسی اور ادارہ جاتی چیلنجوں کو حل نہیں کر سکتا۔ یہ دکھاوا کہ یہ حل کر سکتا ہے درحقیقت ایک سوفٹ ’نہ کر سکنے والی‘ ریاست کی علامت ہے جو خود کو ایک سخت ’کر سکنے والی‘ ریاست کے طور پر پیش کررہی ہے۔ ساٹھ سال بعد، بھارت جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جو مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک اس ’ سوفٹ اسٹیٹ ’ کے سنڈروم سے باہر نکل آیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان اس میں پھنسا ہوا ہے۔

2011 میں پروفیسر اناطول لیوین نے اپنی کتاب ’ پاکستان: اے ہارڈ کنٹری’ شائع کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کا متبادل عنوان ’ ایک ملک کا نوحہ’ رکھنے پر غور کیا۔ پاکستان کے بارے میں ان کی بیان کردہ باتیں اب بھی لاگو ہوتی ہیں، یعنی ’ تقسیم شدہ، غیر منظم، معاشی طور پر پسماندہ، بدعنوان، پرتشدد، ناانصافی، اکثر غریبوں اور خواتین پر وحشیانہ ظلم کرنے والا، اور انتہا پسندی کی انتہائی خطرناک اقسام اور دہشت گردی کا گھر’ ۔ اگرچہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت نے دہشت گردی کے فوری خطرے کو کم کیا، لیکن یہ شرکت دہشت گردی کی گہری وجوہات دور کرنے میں ناکام رہی۔ نتیجے کے طور پر، ہم وہیں کے وہیں ہیں۔

پروفیسر اناطول لیوین کے مطابق، اگرچہ ریاست پاکستان نرم یعنی سوفٹ ہے، لیکن اس کا معاشرہ سخت اور پائیدار ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ پروفیسر اناطول لیون تجویز کرتے ہیں کہ یہ معاشرہ کسی قسم کے نچلی سطح کے توازن میں پھنسا ہوا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ نچلی سطح کی لچک ریاست کی کسی بھی کوشش کے بجائے پاکستان کی بقا کو یقینی بناتی ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کیا یہ نعمت ہے یا لعنت؟ یہ صورتحال ایک چینی مقولہ یاد دلاتی ہے ’ آپ دلچسپ وقتوں میں زندہ رہیں! ’ اور پاکستان میں ہم واقعی دلچسپ مگر بے اعتبار وقتوں میں رہ رہے ہیں۔

جیسا کہ ’ بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس ’ کی سالانہ رپورٹوں میں درج ہے آج دنیا کو درپیش باہم مربوط چیلنجز میں موسمیاتی حرارت اور اس کے نتائج، جوہری جنگ کا خطرہ، آنے والے وبائی امراض، غیر منظم مصنوعی ذہانت کی ترقی، امریکا اور یورپ میں فاشسٹ، نسل پرست اور انتہائی دائیں بازو کے قبضوں کے نتیجے میں جمہوری خسارے میں اضافہ، اسرائیل کی طرف سے مشرق وسطیٰ پر مسلط کی گئی نسل کشی کی پالیسیاں اور جینوسائیڈ واچ کی دو ’نسل کشی الرٹس‘ کے مطابق ہندوستان کی طرف سے جنوبی ایشیا میں خطرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ایک ناکام ریاست ، چاہے اس کی وجہ کمزور ریاست یا سخت معاشرہ ہو ، کی طویل مدتی بقا کا تقریباً کوئی امکان نہیں ہے۔

جس بات کی اشد ضرورت ہے وہ نیلسن منڈیلا جیسی پہل کرنا ہے تاکہ ملک کو ٹھیک کرنے میں مدد مل سکے اور قومی مفاہمت قائم کی جاسکے۔ اس سلسلے میں زور ہمارے المناک ماضی کو پیچھے چھوڑنے اور لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے پر ہوگا، لیکن انفرادی سطح پر افراد کے خلاف ان کے ماضی کے جرائم پر مقدمات چلانے پر نہیں۔

یہ بات بہت سے متاثرین کے لیے ناقابل قبول ہو سکتی ہے، لیکن اس سے 8 فروری 2024 کو قوم کے ساتھ کی جانے والی گہری غلطی کا ازالہ کرنے کے کسی بھی خوف کو دور کرنا چاہیے، اور سول بالادستی، عدالتی اور پارلیمانی آزادی، ضروری سماجی و اقتصادی اصلاحات، اور غیر متزلزل آئینی اور جمہوری حکمرانی پر سمجھوتہ کیے بغیر فوج کے امیج کو بحال کرنے کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ پاکستان کی آزادی کے اس راستے پر کوئی ہارنے والا نہیں ہونا چاہیے۔

اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیے۔

اشرف جہانگیر قاضی

لکھاری امریکا، ہندوستان اور چین میں پاکستانی سفارتکار رہ چکے ہیں اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشنز کے سربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 26 مارچ 2025
کارٹون : 25 مارچ 2025