• KHI: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • LHR: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • ISB: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • KHI: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • LHR: Asr 5:00am Maghrib 5:00am
  • ISB: Asr 5:00am Maghrib 5:00am

جے یو آئی (ف) کی بلوچستان حکومت اور بی این پی مینگل کے درمیان ثالثی کی پیشکش

شائع April 12, 2025
بی این پی، پی ٹی آئی، پشتونخوا میپ نے صوبائی معدنیات کا کنٹرول وفاق کو منتقل کرنے کی قانون سازی کی مذمت کی — فائل فوٹو
بی این پی، پی ٹی آئی، پشتونخوا میپ نے صوبائی معدنیات کا کنٹرول وفاق کو منتقل کرنے کی قانون سازی کی مذمت کی — فائل فوٹو

بلوچستان میں جاری سیاسی تعطل کے درمیان حزب اختلاف کی جماعت جے یو آئی (ف) نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی دیگر خواتین کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف 2 ہفتوں سے جاری احتجاجی دھرنے کا معاملہ حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی) کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کے روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری اور پارٹی کے صوبائی امیر سینیٹر مولانا واسع کی قیادت میں ایک وفد نے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سے ملاقات کی۔

وفد میں بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف یونس عزیز زہری اور دیگر اراکین اسمبلی بھی شامل تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اجلاس میں صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور لکپاس کے علاقے میں بی این پی (ایم) کے جاری احتجاج پر توجہ مرکوز کی گئی، بلوچستان حکومت کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ حکومت اور سیاسی قیادت کی متعدد کوششوں کے باوجود ڈیڈ لاک برقرار ہے اور دھرنا ختم کرنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔

وزیراعلیٰ نے جے یو آئی (ف) کی قیادت کو بی این پی رہنما سردار اختر مینگل کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے 3 ادوار کے نتائج سے آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے لانگ مارچ کے شرکا کو کوئٹہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے موجودہ سیاسی بحران میں مصالحتی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی، انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو بتایا کہ ہم صوبے کو اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے نکالنے میں ثالثی اور مدد کے لیے تیار ہیں۔

وزیراعلیٰ نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا اور اس بات پر زور دیا کہ امن اور سیاسی استحکام کی بحالی حکومت اور اپوزیشن دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، انہوں نے جے یو آئی (ف) کی تعمیری سیاسی خدمات اور جمہوری اصولوں کے ساتھ اس کے عزم کو سراہا۔

سرفراز بگٹی نے تمام سیاسی مسائل کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا اور اس سلسلے میں تمام مثبت اقدامات کا خیر مقدم کیا۔

حکومت کی قانونی حیثیت مسترد

دریں اثنا اپوزیشن جماعتوں نے کوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے موجودہ صوبائی حکومت کی قانونی حیثیت کو مسترد کردیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس کی تشکیل انتخابی جوڑ توڑ کے ذریعے کی گئی تھی، اور الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا تھا۔

پریس کانفرنس سے بی این پی ایم کے سینئر نائب صدر ساجد ترین، پشتونخوا میپ (پی کے میپ) کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال، پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر داؤد شاہ کاکڑ، بی این پی عوامی کے نائب صدر حسن ایڈووکیٹ اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔

ساجد ترین نے پیپلز پارٹی کے وزرا کی جانب سے بی این پی (ایم) کے رہنماؤں کے خلاف حالیہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’بے بنیاد اور توہین آمیز‘ قرار دیا اور ان پر بند کمرے میں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات چھپانے کا الزام عائد کیا، اور کہا کہ وہ جواب دینے کے قابل نہیں ہیں، وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ الزامات کیسے لگائے جاتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر طویل عرصے سے جعلی قیادت مسلط کی گئی ہے، جب کہ پنجاب کی ترقی کے لیے دونوں علاقوں کے وسائل کا استحصال کیا گیا ہے، انہوں نے موجودہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو مسترد کرتے ہوئے اس کے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیا۔

عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ پاکستان کو 1940 کی قرارداد کے اصولوں کے تحت چلایا جانا چاہیے جس میں صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ 8 فروری کے انتخابات میں پی کے میپ کی 8 نشستیں دھوکا دہی سے حریف امیدواروں کے حوالے کی گئیں، جس کے نتیجے میں آئین کے تحفظ کے لیے تحریک تحفظ آئین پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

انہوں نے موجودہ حکومت کی جانب سے منظور کردہ آئینی ترامیم کی مخالفت کی اور صوبائی معدنیات کا کنٹرول وفاقی حکومت کو منتقل کرنے سے متعلق قانون سازی کی مذمت کی، اور اس طرح کے اقدامات کی مخالفت کرنے کا عزم ظاہر کیا۔

داؤد شاہ کاکڑ نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے معدنی ذخائر پر وفاقی تجاوزات کے خلاف بھی خبردار کیا، انہوں نے بی این پی (ایم) کے احتجاجی دھرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

مینگل کی پیپلز پارٹی پر تنقید

بی این پی (ایم) کے صدر اختر مینگل نے ایک حالیہ پریس کانفرنس کے دوران پیپلز پارٹی کے وزرا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور انہیں اسی مقام پر جلسہ کرنے کا چیلنج دیا، جہاں ان کی جماعت گزشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دے رہی ہے۔

جمعہ کی شام لکپاس میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر شہریوں کو دھوکا دینے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے مظاہرین کے خلاف بار بار کریک ڈاؤن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کے بجائے گولیاں، کفن اور جھونپڑیاں جلا دیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں صادق عمرانی اور علی مدد جتک کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے انہیں چیلنج کیا کہ وہ اپنی پارٹی کے حامیوں کو احتجاج کے مقام پر لائیں، ہم 14 دنوں سے اس دشوار گزار علاقے میں بیٹھے ہیں اور اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، آپ کے لوگ ہماری خواتین کی ہمت کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بلوچ عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا اور بلوچ رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا۔

انہوں نے صدر آصف علی زرداری پر بھی سندھ اور اس کے عوام کو چھوڑنے کا الزام عائد کیا، انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے بیماری کا بہانہ بنایا اور پنجاب نہر کی تعمیر پر عوام کے غصے کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے غائب ہوگئے، پیپلز پارٹی کبھی بھی بلوچوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی، ان کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

بی این پی (ایم) کے سربراہ نے کہا کہ جہاں مختلف جماعتوں کے رہنماؤں نے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مقام کا دورہ کیا، وہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) غیر حاضر ہیں، یہ لوگ صرف اقتدار سے چپکے رہنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 1 مئی 2025
کارٹون : 30 اپریل 2025