!خرابی ستاروں میں نہیں

شائع March 27, 2014 اپ ڈیٹ March 28, 2014
وہ حکومت جو اپنی پنجاب متعلق پالیسیوں میں اس قدر فوکسڈ ہے کہ اس نے فرقہ پرست عفریتوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔فائل فوٹو۔۔۔
وہ حکومت جو اپنی پنجاب متعلق پالیسیوں میں اس قدر فوکسڈ ہے کہ اس نے فرقہ پرست عفریتوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔فائل فوٹو۔۔۔

جب سے میں نے اسلام آباد میں ہونے والے المیے کے بارے میں سنا تب سے ایک خیال مجھے بار بار ستا رہا ہے-

وہ خیال مقتول ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں نہیں ہے جنہیں انکے چیمبر میں لے جا کر قتل کر دیا گیا اور نا ہی اس جوان سال فضا ملک ہے جو اپنے گریجویشن کے دن نہایت فخر کے ساتھ کھڑی، ان تمام لاء گریجویٹس کے جذبات کی ترجمانی کر رہی تھی جو سال بھر پہلے وہیں اس کے ساتھ موجود تھے-

یہ ایک احساس ہے کہ کتنی آسانی سے میری اور مجھ جیسے وکلاء کی زندگی ختم کی جاسکتی ہے، ہم میں سے بہت سے وکلاء اسلام آباد کے اسی کورٹ میں جناب رفاقت اعوان صاحب کے سامنے پیش ہوۓ اور بالکل ویسا ہی فخر محسوس کیا جب ہم ایک لاء گریجویٹ بنے تھے-

اس خیال کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا کہ آخر ہم میں اور ان میں کیا فرق تھا، کہ آج ہم تو زندہ ہیں مگر کتنے ہی دوسرے وکلاء اس ماہ اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ پر ہونے والے حملے میں راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گۓ- اس کا جواب بہت سیدھا اور کربناک ہے، اتنا کہ مجھے خود کو یہ سمجھانا پڑا کہ اس کا کوئی اور منطقی متبادل نہیں: سیدھی سی بات ہے کہ جس دن ہم لوگ اسلام آباد کورٹس میں تھے اس دن عسکری گروہ، ٹی ٹی پی یا انکی اولادیں بے قصوروں کا خون بہانے کے موڈ میں نہیں تھیں-

حکومت، وزراء یا جو کوئی بھی اس دنیا میں ہماری فلاح و بہبود کے ذمہ دار ہیں وہ صرف اور صرف حقائق کو نظرانداز کرنے میں مصروف ہیں، لیکن اب ہمارے لئے ان حقائق کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگیا ہے، یہ آھستہ آھستہ ایسی چٹان میں تبدیل ہو رہے ہیں جس کو سر کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے-

حالیہ صورتحال یہ ہے کہ جو بھی وکیل کورٹ جاتا ہے، وہ یہ امید ضرور رکھے کہ آج عسکریت پسند کوئی نیا گل کھلانے کا ارادہ نہیں رکھتے- کیونکہ اگر ایسا ہے تو ہم کم ازکم حکومت پر تو اپنی حفاظت کے لئے بھروسہ نہیں کر سکتے- وہ حکومت جس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ اپنی پولیس فورس کی تربیت کر سکے، وہ حکومت جو اپنی پنجاب متعلق پالیسیوں میں اس قدر فوکسڈ ہے کہ اس نے فرقہ پرست عفریتوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے، ایک حکومت جو اتنی ناکارہ ہے کہ حملے کے بعد ٹی ٹی پی سے کچھ کرنے کی درخواست کرتی ہے-

اگر ایک قوم خوشحالی چاہتی ہے (اور فضول کے ریکارڈ توڑنا کوئی خوشحالی نہیں) اسے ایک بنیادی حد سے تجاوز کرنا ہوگا، اسے انکی حفاظت کرنا ہوگی جو تبدیلی لا سکتے ہیں- ایک سیکنڈ کے لئے مارٹن لوتھر کنگ کی قبل از وقت موت کا سوچیں جب وہ پہلی بار اپنے موقف کے لئے کھڑے ہوۓ تھے-

ملالئے یا مختاراں مائی کی جب بات آتی ہے تو ہمارا ٹریک ریکارڈ تو گھناونا ہے ہی، لیکن اس سے زیادہ اھم بات یہ ہے کہ یہی رویہ ہماری عدلیہ سے متعلق بھی ہے-

آخر کیوں کوئی بھی ڈسٹرکٹ یا سیشن جج ایک دہشتگرد کی ضمانت مسترد کرنا چاہیں گے جب وہ جانتے ہیں کہ ان کا ایک ہموطن اسلام آباد میں اسی کے چیمبر میں قتل کر دیا گیا، آخر ایک ہائی کورٹ جج کسی دہشتگرد کا فیصلہ کیسے کرسکتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ کراچی میں اس کے ہمعصر جج کے قافلے کو تباہ کیا گیا کیونکہ ایک جہادی نے یہ ضروری سمجھا- اور پھر کوئی بھی پاکستانی بچہ ایک وکیل کی حیثیت سے تبدیلی کیوں لانا چاہے گا جبکہ وہ جانتا ہے کہ پریکٹس شروع کرنے سے پہلے ہی اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاۓ گا-

ہماری زندگی کا معیار دہشتگردوں کا جذبات پر انحصار نہیں کرسکتا- ہم روز کام پر اس خوف کے ساتھ نہیں جاسکتے کہ آج خدا نخواستہ کسی انتہا پسند کی صبح کا غلط آغاز ہوا ہوگا- حکومت کی ہماری طرف ایک ذمہ داری بنتی ہے- لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے کسی کو کوئی فکر ہی نہیں کہ ایک ادارے کی حیثیت سے پولیس ایسے حملوں سے نمٹنے کے لئے مناسب طور پر تیار نہیں ہے اور ناہی حفاظتی لحاظ سے عدالتوں کو کوئی ترجیح دی جاتی ہے-

اگر آپ لاہور کی کسی بھی عدالت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو بس کالا سوٹ اور ٹائی لگا کر پہنچ جائیں، آپ بلا روک ٹوک اندر جا سکتے ہیں-

بس ایک چانس پر ٹکی زندگیوں کو بچانے کا حل ہماری حفاظت پر مامور ذمہ دار اداروں کی درستگی پر ہے- دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ ہماری پولیس کو بھی اس زنجیر کی مضبوط کڑی ہونا چاہیے-

میں ایسا بے وقوف بھی نہیں ہوں کہ یہ سب راتوں رات ہوجانے کی امید رکھوں- لون فلر نے ایک بار خواہش کی اخلاقیات کی بات کی تھی، بہتری کا ایک ایسا پیمانہ جس کے لئے تمام ریاستوں کو کوشش کرنی چاہیے- میں صرف حکومت سے یہ التجا کر رہا ہوں کہ ہمارے سیکورٹی اداروں کو ترجیح دیں-

یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت فضول ریکارڈ توڑ میلوں ٹھیلوں کی بجاۓ سیکورٹی میں سرمایا لگاۓ- جبتک ہمارے لوگوں کا تحفظ ہماری قومی ترجیح نہیں بن جاتا یہاں خوشحالی نہیں آسکتی-

چاہے ہم کتنی ہی بار دنیا کو مورد الزام ٹھہرائیں، حقیقت تو یہی ہے، بقول کیشیث: " خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں، عزیز بروٹس، ہم میں ہے"۔

انگلش میں پڑھیں

مصنف ایک وکیل ہیں

ترجمہ ناہید اسرار

حسن نیازی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024