• KHI: Asr 4:49pm Maghrib 6:30pm
  • LHR: Asr 4:19pm Maghrib 6:02pm
  • ISB: Asr 4:23pm Maghrib 6:07pm
  • KHI: Asr 4:49pm Maghrib 6:30pm
  • LHR: Asr 4:19pm Maghrib 6:02pm
  • ISB: Asr 4:23pm Maghrib 6:07pm
شائع January 21, 2015

شامین خان | 21 جنوری، 2015


کراچی سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ماہی گیروں کے ایک گاﺅں مبارک ولیج کی جانب جاتے ہوئے مجھے ہمیشہ ہی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ٹرانس کی کیفیت میں ہو۔

ہم عام طور پر کراچی سے رات گئے باہر نکلتے ہیں اور مبارک ولیج کا نصف سفر دلکش سورج طلوع ہونے کے وقت تک طے کرلیتے ہیں۔ آسمان پر پہاڑیوں کے عقب سے پھیلتی سنہری کرنیں اور سرد ہوا میرے چہرے سے اس وقت ٹکرا رہی تھی جب ہم پہاڑی راستوں اور دھندلے نظاروں کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، یہ ہر اس فرد کے لیے مثالی فرار ہے جو فطرت کا شوقین ہو۔

مبارک ولیج کراچی کا دوسرا بڑا ماہی گیر گاﺅں ہے جس کی سرحدیں گڈانی (بلوچستان) سے لگتی ہیں، یہاں کے نظارے سنہری چٹانوں اور نیلگوں شفاف پانی کے انوکھے امتزاج کے گھیرے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔

شہر کے شوروغل سے دور یہ مقام آپ کا بے پناہ محبت کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔

میرے دوست نے مبارک ولیج کے ایک مقامی ماہی گیر کے گھر میں چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا " یہاں کے رہائشیوں کے پاس کچھ نہیں مگر پھر بھی یہ اپنی زندگی سے مطمئن ہے اور ان کے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے"۔

الاﺅ پر تیار کی جانے والی اس چائے کا ذائقہ منفرد ہے اور میں اکثر یہاں اپنے دوروں کا آغاز اور اختتام مقامی افراد کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کرتی ہوں۔

یہاں سمندر کی ماورائی خوبصورتی اور دیہاتیوں کی گرمجوشی میرے لیے تو اپنے ذہن کو بے لگام چھوڑ دینے کے لیے بہترین مقام ہے اور جہاں تک میرے شوہر کی بات ہے تو ان کے لیے یہ مقام زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ یہاں اپنے مچھلی کے شکار کا شوق پورا کرسکتے ہیں۔

جیسے ہی آپ ساحل کے قریب پہنچتے ہیں وہاں شیشے کی طرح شفاف پانی میں ڈولتی لنگرانداز کشتیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

کتے ساحل پر کھیل رہے ہوتے ہیں، پرجوش بچے ارگرد بھاگ رہے ہوتے ہیں اور گاڑی سے قدم باہر نکلتے ہی یہ مقام مجھ پر حاوی ہونے لگتا ہے۔

ایک لڑکا اور اس کا والد ریڈیو پر نصرت فتح علی خان کو سنتے ہوئے سر ہلا ہرے تھے، ایک مرغی، ایک بکری اور ایک بلی اکھٹے گھوم رہے تھے، اس مقام کی ہر چیز ہی حیرت میں مبتلا کردینے والی ہے۔

سامراجی عہد سے قبل کی یہ بستی یعنی مبارک ولیج ابھی بھی بنیادی ضروریات جیسے صاف پانی تک رسائی، بجلی، ایک جیٹی، گیس، طبی نگہداشت اور تعلیم وغیرہ سے محروم ہے۔

ایک جیٹی کا کسی بھی طرح ذکر یہاں کے لوگوں کو ناراض کردیتا ہے کیونکہ اب ان کے اندر اس کی امید باقی نہیں رہی اور انہیں لگتا ہے کہ انہیں جھوٹے وعدوں کے ذریعے دھوکا دیا گیا ہے اور اب وہ کسی کے بہلاوے میں آنے کے لیے تیار نہیں۔

یہ لوگ اپنے حال پر خوش ہیں، ان کا ایک دوسرے سے جڑا معاشرہ دیانتداری اور محبت سے گندھا ہوا ہے۔

ہر بار جب یہاں جاتے ہیں تو ہمارے ساتھ رابطے میں رہنے والا جاوید گرمجوشی سے ہمارا خیرمقدم کرتا ہے۔ جاوید ایک نوجوان ہے جو یہاں کی بیشتر کشتیوں کا مالک ہے مگر وہ دن بھر لائف گارڈ کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ کشتی میں ہمارے ساتھ جانے والے افراد میں ' ماما' اور ایک چھوٹا بچہ حیدر شامل تھا۔

ماما ایک لمبا چوڑا شخص ہے جس کے بالوں میں سفیدی و سیاہی کا امتزاج اسے کسی ہولی وڈ فلم کا کردار بنا دیتا ہے۔ وہ پونی ٹیل پہنتا ہے اور کئی بار بڑا رومال یا صافہ اس کے سر پر ہوتا ہے۔ ہر بار اس سے مل کر میں سوچتی ہوں واہ کیا شخص ہے۔

ہر بار اس مقام سے واپسی پر ماما مجھے کچھ نہ کچھ ضرور دیتا ہے اب چاہے وہ فوسل کورل ہو یا کوئی منفرد پتھر۔ ایک بار تو اس نے ہمیں وہیل کی ایک ہڈی گھر لے جانے کے لیے دی تھی اور وہ مجھے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتا۔

میں عام طور پر طویل فشنگ ٹرپ کے بعد آرام کے لیے اس کے گھر کا رخ کرتی ہوں اور وہ مجھے کہتا ہے " اسے اپنا ہی گھر سمجھو تم میرے خاندان کا حصہ ہو"، اور میں بھی اس کی محبت کو دیکھتے ہوئے یہی مانتی ہوں۔

اگرچہ یہاں کی زندگی بہت سخت ہے مگر ماما، جاوید اور یہاں کے دیگر ماہی گیر بہت سادہ افراد ہیں اور انہیں کسی سے شکایت نہیں بلکہ ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ دوڑتی رہتی ہے۔

یہاں کے باسیوں کی اکثریت کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے مگر کسی اور جگہ کے ماہی گیروں کے مقابلے میں مبارک ولیج کے رہائشی فشنگ نیٹ کی بجائے اپنی آمدنی اسپورٹس فشنگ کے ذریعے کماتے ہیں، وہ شکار کے لیے کئی طرح کی تیکنیکس استعمال کرتے ہیں جیسے فشنگ راڈز اور ہیڈ لائنز وغیرہ۔

بیشتر ماہی گیروں کے روزگار کا انحصار چھوٹی کشتیوں پر ہے جنھیں روایتی طریقے سے تیار کیا جاتا ہے اور وہ طوفانی موسم میں سفر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ان سے مضبوط کرنٹ بھی برداشت نہیں ہوتا۔

اس کے نتیجے میں یہ ماہی گیر مون سون کے دوران اپنی سرگرمیاں معطل کردیتے ہیں اور اپنے علاقے کے قریب واقع گراﺅنڈ میں فٹبال میچز کھیل کر اپنا وقت گزارنے لگتے ہیں۔

باقی آئندہ......

تبصرے (20) بند ہیں

Aamir Jan 21, 2015 04:32pm
Please also state in next episode the places to see when visit, any resort to get food & drinks etc, Is it safe to visit with family?
zeeshan alam Jan 21, 2015 05:23pm
good I will visit Mubarak village
Shoaib Akbar Jan 21, 2015 06:50pm
اسسلام علیکم ، مجھے اس طرح کی شارٹ ٹورز کی ڈاکومنٹری کافی پسند ہیں اور اگر پاکستان کی اپنی جگہوں کی اور اردو زبان میں ہوں تو کیا کہنے .. تصاویر بھی سونے پے سہا گہ کا کام کرتی ہیں ... پش کنندہ ٹیم کو اس طرح کی کاوش پر مبارک باد اور مزید کاوشوں خاص تور پرچھوٹے شہروں کی ڈاکومنٹری (اسی طرح کی جیسا کہ پیش کی گی ہے ) کے لئے اسرار . واسلام شعیب اکبر. ریاض ، سعودیہ عرب
Bashir Ahmed Baloch Jan 21, 2015 08:19pm
بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے تحریر کنندہ نے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ اپنی زندگی سے خوش افراد کون سی زبان بولتے ہیں اور سامراج سے پہلے کی یہ بستی کتنی صدی پرانی بستی ہے. کہیں یہی وہ لوگ نہیں ہیں جن کی بدولت آج کی کراچی آباد ہوئی؟
shamshad samo Jan 21, 2015 10:09pm
It was nice effort . these people are real picture of Sindh,s rural life. it is the responsibility of state to provide them all facilities of basic life.
shamshad samo Jan 21, 2015 10:09pm
It was nice effort . these people are real picture of Sindh,s rural life. it is the responsibility of state to provide them all facilities of basic life.
محمد وقاص Jan 22, 2015 01:53am
بہت خوب تحریر ہے اور تصاویر کی تو کیا ہی بات ہے۔ تصاویر میں بھی ایک تحریر موجود سے لگتی ہے گزشتہ سال کے آخر میں، میں نے اس گائوں کا دورہ کیا اور یہاں سے چرنا جزیرے بھی گیا۔ اس پر میں نے اپنی ایک تحریر روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں اشاعت کرائی جو کچھ ایڈٹ کرنے کے بعد شائع کی گئی۔ آپ سے درخواست ہے ہے روزنامہ جنگ 17جنوری2015بروز اتوار کے سنڈے میگزین میں میری تحریر شائع ہوئی ہے۔ آپ سے پڑھنے کی درخواست ہے۔ شکریہ
نثار Jan 22, 2015 03:30am
یوں تو اچھا آرٹیکل ہےمگر میرے خیال میں کتوں کا ساحل پر کھیلنے میں ، اور بلی، بکری اور مرغی کا ایک ساتھ گھومنے میں شاید لوگوں کے لیے اتنی کشش نہ ہو۔
S.M. Imran Jan 22, 2015 10:37am
Bohat Piari jagah hay. i like this place and wants to visit there.
khurram Jan 22, 2015 01:27pm
BEST PICTURES EVER. I AM HAPPY TO SEE THEM AND PEOPLES.
TAIMOOR Jan 22, 2015 03:59pm
It's really a fantastic place and nothing is changed since 2000. In the year 2000, we used to visit on every weekend with British Council Director General Richard Hardwick and some foreigners, as they love this place. There was a Mann , name Mustard in the village, a very nice guy. If you visit there again, please pay my regards to him. After such a long time, I saw this place, because of you, nice job. Now because of the condition of our country, no more foreigners are travelling to Pakistan. May ALLAH bless our country.
Javed Iqbal Arain Jan 22, 2015 07:17pm
ver nice documentary
سلیم اللہ صدیقی Jan 22, 2015 07:31pm
me mubarak village ke sehar me kho gya ho
saifullah Jan 22, 2015 08:47pm
great picture
Dr Faheem Jan 22, 2015 08:57pm
Thanks for getting me into trance.Awesome feature
حسین عبداللہ Jan 22, 2015 09:07pm
دل کرتا ہے کہ ابھی اڑ کر وہاں پہنچ جاوں ۔۔۔کیونکہ فشنگ میری کمزوری ہے اور اس ولیج کے بارے سنکر تو اور خواہیش مچل اٹھی
waleed Jan 23, 2015 05:11am
great effort
Saeed Jan 23, 2015 01:34pm
@محمد وقاص i read ur column in jang could you please share info about event management company which you mentioned in ur column \\
M.Faizan Jan 23, 2015 05:40pm
Story is was Good & Photo are to Excellent
naeem Jan 23, 2015 06:58pm
اسسلام علیکم ، مجھے اس طرح کی شارٹ ٹورز کی ڈاکومنٹری کافی پسند ہیں اور اگر پاکستان کی اپنی جگہوں کی اور اردو زبان میں ہوں تو کیا کہنے .. تصاویر بھی سونے پے سہا گہ کا کام کرتی ہیں ... پش کنندہ ٹیم کو اس طرح کی کاوش پر مبارک باد اور مزید کاوشوں خاص تور پرچھوٹے شہروں کی ڈاکومنٹری (اسی طرح کی جیسا کہ پیش کی گی ہے ) کے لئے اسرار .