• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
شائع May 4, 2015

سینکڑوں سال پہلے سندھ کے ایک صحرا کے کنارے پر تالپور خاندان نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر شاہانہ قلعہ تعمیر کیا۔ اس شاندار قلعے کو ضلع خیر پور کے قصبے کوٹ ڈیجی میں تعمیر کیا گیا اور یہ کوٹ ڈیجی قلعہ کے نام سے مقبول ہوا جس کی تعمیر 1785 سے 1795 کے درمیان ہوئی۔

قومی شاہراہ کے راستے ضلع خیر پور کی جانب ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس قلعے کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جو کہ آسمان کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

ہمیں اپنا جوش اور حیرت اب بھی یاد ہے جب ہم نے اس عظیم الشان عمارت کو دیکھا اور ہم اس کو قریب سے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگئے تاکہ اسے صحیح طریقے سے دریافت کیا جاسکے۔

کراچی سے ضلع خیر پور پہنچنے میں لگ بھگ آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں، وہاں جانے کے دوران ہم نے چائے اور کھانے کے لیے مختصر وقفے بھی کیے اور جب ہم کوٹ ڈیجی قلعے پر پہنچے تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے پاس اس مقام کو چھاننے کے لیے بہت کم وقت ہے اور ہم کافی تیزی سے وہاں پہنچے کیونکہ سورج غروب ہونے والا تھا اور اس وجہ سے ہمارے پاس تصاویر لینے کے لیے بہت کم وقت تھا۔

جب داخلی دروازے کے پاس ہم گاڑی سے نکلے تو ہم نے دیکھا کہ اس مقام پر ایک کیفے ٹیریا بھی تھا جہاں ہاتھ سے تیار کردہ روایتی سندھی اشیاءسجی ہوئی تھیں۔

یہ بہادر صدیقہ صلاح الدین کا ' خزانہ' تھا جو کہ انڈس ریسورس سینٹر (آئی آر سی) کی ایک شاخ ہے۔ خزانہ نے مقامی خواتین کو ملازمت دے کر متعدد دستکاروں کو سجا رکھا تھا،یہاں میزپوش، رلیاں، کوسٹرز اور برتن سمیت دیگر اشیاءبرائے فروخت تھیں۔ ہم نے ان کا جلدی میں جائزہ لیا اور قلعے کی جانب بڑھے۔

اس سے قبل ہم نے کوٹ ڈیجی قلعے کے بارے میں صرف سنا تھا اور آن لائن تصاویر دیکھی تھیں مگر کوئی بھی تصویر اس عجوبے کی خوبصورتی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قلعہ اہم اسٹرٹیجک مقام پر تعمیر کیا جو مشرق سے پیشقدمی کرنے والے دشمنوں کے خلاف ڈھال کا کردار ادا کرتا تھا، کسی تھکی ہاری فوج کو پانی کی تلاش کے لیے زرخیر زمینوں کی طرف بڑھنے سے پہلے یہاں مدافعت کا سامنا ہوتا تھا۔

اس قلعے کو تالپور خاندان نے تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا، ایک حصہ حیدرآباد کے میر خاندان کے زیرتحت تھا، دوسرا حصہ خیرپور کے تالپور حکمرانوں جبکہ خیرپور میرس کا تالپور خاندان تیسرے حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے تھا۔

تاریخ بیان کرتی ہے کہ خیرپور میرس کے پہلے تالپور حکمران میر سہراب خان (بالائی سندھ کی سلطنت کے بانی) نے اپنے دور حکومت کے دوران سرحدوں کی حفاظت کے لیے متعدد قلعے تعمیر کروائے۔ ان کے نام سے متعدد قلعے منسوب ہیں جیسے تھر کے خطے میں امام گڑھ، جودھ پور کی جانب شاہ گڑھ اور ڈیجی میں احمد آباد وغیرہ۔

اس قلعے کا مشرق کی جانب مرکزی داخلی دروازہ ایک ہی ہے جو کہ حملہ آور دشمن سے تحفظ فراہم کرتا تھا۔ یہ دروازہ جو شاہی دروازے کے نام سے جانا جاتا ہے درحقیقت انجنئیرنگ کا کمال ہے۔

اس جگہ کی مزید حفاظت کے لیے دو برج تعمیر کیے گئے تھے جو قلعے کو فتح کرنے کے عزم کے ساتھ پیشقدمی کرنے والی فوج کے لیے کسی ٹریپ کا کام کرتے تھے۔ ان برجوں تک رسائی مشرق سے ہی ممکن ہے جبکہ آہنی کیلوں سے سجے لکڑی کے دروازے شمالی دیوار کے مغربی کونے میں موجود ہیں۔

یہ آہنی مخیں اس بات کو یقینی بناتی تھیں کہ جنگی دستے یا ہاتھی ان لکڑی کے دروازوں کو توڑ کر اندر نہ داخل ہوسکیں اور اپنی پوری تاریخ میں اس قلعے پر کبھی حملہ نہیں ہوا۔

کوٹ ڈیجی قلعے کی تعمیر چونے کے پتھروں اور مقامی ساختہ اینٹوں کی مدد سے ہوئی۔

جس پہاڑی پر یہ قلعہ تعمیر ہوا اس کی لمبائی ایک سو دس فٹ ہے جس کے اوپر قلعے کی دیواریں مزید تیس فٹ بلند ہیں، اس کے علاوہ یہاں اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم تین ٹاور بھی ہیں جن کی بلندی پچاس فٹ کے لگ بھگ ہے۔

یہ قلعہ اس زمانے میں تعمیر ہوا تھا جب توپیں عام ہوچکی تھیں، جس کا اندازہ اس کے ڈیزائن اور پوزیشن سے بھی ہوتا ہے۔ یہاں توپوں کے لیے متعدد اسٹیشنز موجود ہیں اور چونکہ یہ عمارت ایک تنگ راستے پر بلندی پر واقع تھا اس لیے دشمن کی توپوں کو طویل فاصلے کے باعث زیادہ مدد نہیں ملتی ہوگی۔

توپوں کے گولے یا تو پہاڑی سے ٹکرا جاتے ہوگے یا فضاءمیں قلعے سے بھی اوپر بلند ہوکر واپس پہاڑی کی دوسری جانب دشمن کی اپنی فوج پر ہی جاگرتے ہوں گے۔

علاوہ ازیں شاہی دروازے سے داخلے کے علاوہ بھی اس میں تین چھوٹے خفیہ راستے موجود ہیں جو ہنگامی حالات میں استعمال کیے جاتے تھے۔

شاہی دروازے سے گزر کر ہم لم ایک چھوٹے نیم بیضوی کھلے حصے میں پہنچے جس کے تینوں اطراف اونیچ دیواریں تھیں جو کہ مرکزی قلعے تک چڑھائی کے ذریعے رسائی فراہم کرتی ہیں۔

دوسرے دروازے سے گزر کر ہم ایک سرنگ جیسے راستے سے گزر کر اوپر کی جانب تیسرے دروازے سے گزر کر بڑھے، قلعے کا مرکزی حصہ اس مقام کے پیچھے واقع ہے۔

یہ فوجی قلعہ اس چیز کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن اور مکمل طور پر تیار کیا گیا تھا کہ یہ دفاع اور ضرورت پڑنے پر حملے کے لیے استعمال کیا جاسکے جبکہ اس کے برجوں پر گھر، ٹاورز، اسلحے کا ڈپو، پانی کا ذخیرہ، میروں کا حرم، ایک جیل، عدالت کے لیے ایک مقام اور بیرکس وغیرہ محافظوں اور سپاہیوں کو رہائشی سہولیات فراہم کرتی تھیں۔

قلعے کے برج توپوں کو چوٹی پر لے جانے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے، یہ توپیں مختلف حجم کی ہوتی تھیں مگر چونکہ ہر برج پر مناسب جگہ موجود تھی اس لیے انہیں مختلف سمتوں پر تعینات کیا جاسکتا تھا۔

کچھ برجوں کو شناخت دینے کے لیے نام بھی دیئے تھے جیسے ایک برج فتح ٹھل کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ تیسرے دروازے سے ملحق ہے ۔

دیگر برجوں کو شفان شفاءاور ملک میدان برج کے نام دیئے گئے جو کہ مغربی سمت میں واقع ہیں۔

دو توپیں شفان شفاءاور ملک میدان یہاں تعینات کی جاتی تھیں، شہید بادشاہ نامی برج قلعے کے شمال مغربی سمت میں واقع ہے۔ اس برج کے نشیب میں ایک شہید بادشاہ کا مزار ہے۔

ایک اور برج جو مشرقی کونے کی جانے لے جاتا ہے اور جس کا منہ صحرا میں جیسلمیر کی جانب ہے، اسے جیسلمیر ٹھل کہا جاتا ہے۔

ایک اور برج کا نام مریم ٹھل ہے جہاں مریم نامی توپ ہوتی تھی جسے اب خیرپور شہر میں قومی شاہراہ کی کراسنگ پر رکھا گیا ہے۔

قلعے کی فصیل میں گیلریوں کی شکل کے کمرے ہیں، جن کی غلام گردشیں ان وزراءسے بھری ہوتی ہوں گی جو شاہی خاندان کا استقبال کرتے ہوں گے۔

یہاں ایک تالاب بھی ہے جو کہ پینے کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، یہ تالاب 3.75 میٹر گہرا اور گیارہ میٹر لمبا ہے جبکہ اس کی چوڑائی سات میٹر سے کچھ کم ہے۔

تیسرے دروازے کے بالکل سامنے غلام گردشوں سے ملحقہ چھتوں سے محروم کچھ کمرے ہیں جو کہ اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہوتے تھے جنھیں مقامی طور پر بارود خانوں بھی کہا جاتا تھا۔

میر سہراب خان نے اس قلعے کو اپنی موت سے کچھ سال قبل رہائش کے لیے تیار کروایا تھا مگر جلد ہی اختیارات اپنے بیٹے کے حوالے کردیئے۔

جنوری 1843 میں برطانوی افواج نے بھی اس وقت یہاں قیام کیا جب چارلس نیپیئر اپنی فوج کو لے کر امام گڑھ کو فتح کرنے نکلا تھا۔

اگر آپ لوگ کبھی خیرپور جانے کا منصوبہ بنائے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنا پہلا قیام اس قلعے میں کریں اور اگر آپ سندھ میں ہی رہتے ہیں تو زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور اس قلعے کو دریافت کریں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Usama Malik May 04, 2015 09:48pm
Bht Acha Lga yeh sb Dekh kr Dil main ik Ba-Chani c lag gai ha k MAin jald se jald Yahan ka visit kru ....
Muhammad Ali May 04, 2015 11:24pm
I Like it and love old places. We need to give protection to old places.
Malik USA May 05, 2015 02:34am
After reading this article and previously by Akhtar Sb, we knew that In Sindh has so many historical places worth while historical monuments. We wish Sindh govt takes it serious to attract tourist atleast form Karachi and other big cities. And this would be to boost the economy of province as well as for the local people. And thanks from bottom of the heart to provide the info otherwise we could never know about these rulers.
nano khan May 05, 2015 11:09am
humain thareekhie jagaho kaa khyal yanee maramath karni chahiyay per offsoos k hum hukumraan khwabay gaflat main paray hoyay hain.
Dr.Abdul Salik May 05, 2015 03:45pm
Buhat Achha Laga Deikh ker keep on please