• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:01pm
شائع May 12, 2015 اپ ڈیٹ August 24, 2015

دنیا خواب کے اندر خواب ہے۔ کون جانے خوابوں کا نگر حقیقت ہو یا حقیقت کا نگر خواب۔ خواجہ میر درد کا شعر ہے،

وائے ناکامی، وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔

شمال کی چاہ میں شمال کے نگر کا بار بار سفر کرنے والے مسافر کے پاس اس کا کل اثاثہ خواب ہی تو ہوتے ہیں جن کی تعبیر کا پیچھا کرتے وہ پھر سے ایک نئے سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ تعبیر کی جستجو میں مزید خواب ہی آتے رہے، کسی خواب میں جنگل سے پیاسا نکل کر دریا کنارے پہنچ کر کھڑے رہنا، پھر بنا پانی پیے پتھروں سے بھرے میدان میں، جو وادی سالتورو کے راستے میں آتا ہے، پہنچ جانا۔

خواب در خواب سفر ہوتا رہا، آنکھ کھلی تو دنیا نے فنکاری کا طوق گلے میں ڈال دیا۔ یہ طوق اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ ایک طرف اس کو اٹھائے رکھنے میں اور دوسری طرف اپنی خامیاں چھپانے میں انسان ساری توانائیاں صرف کر دیتا ہے۔ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ سیکھتے سیکھتے میں خود کہیں اور ہی کھو گیا۔ وہ جو بے ساختہ پن والا انسان تھا گم ہو گیا۔ اب بھی خوابوں کی تعبیر کا کوئی نام و نشان ہے نہ ہی اس راہ میں کوئی مِیل کا پتھر دکھائی پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر سفر ہی خوابوں کے نگر کا ہو تو؟

شمال میں بسا ضلع ہنزہ نگر خوابوں کا نگر ہے۔ ہنزہ اور نگر ماضی میں دو الگ ریاستیں رہیں، اور ان دونوں کو بیچ میں بہتا دریائے ہنزہ الگ کرتا تھا۔ دریا دونوں ریاستوں کی سرحد ہوا کرتی تھی۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ پہلے بروشال کے نام سے مشہور تھا، جس کا دارالحکومت ڈونگس تھا۔ یہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا، اور یہ آج کے نگر اور ہنزہ پر مشتمل تھا۔

نگر — فوٹو سید مہدی بخاری
نگر — فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری

چونکہ ڈونگس کے چاروں اطراف برفانی گلیشئیرز تھے جن کے بڑھنے سے وہاں کا نظامِ آبپاشی سخت متاثر ہوا تو لوگ ہوپر میں آکر آباد ہوئے۔ اس کے بعد راجہ میور خان کے بیٹوں مغلوٹ اور گرکس نے بروشال کو نگر اور ہنزہ میں تقسیم کیا۔ نگر اور ہنزہ چھوٹی ریاستں تھیں، اور یہ اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ چین سے آنے والے تجارتی قافلوں کو لوٹ کر حاصل کرتی تھیں۔

انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھیں، اس لیے 1891 میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا، اور نگر کی طرف چڑھائی شروع کی گئی۔ نگر کا دفاعی قلعہ نلت کے مقام پر واقع تھا۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہنچ گئی، اور قلعے پر حملہ کیا اور یوں نگر کی ہزاروں سال پر محیط آزادی ختم ہوگئی۔

انگریزوں سے نکل کر ریاست کا انتظام کشمیر کے مہاراجہ کے سپرد ہو گیا مگر مرکز سے دوری کی بنا پر مقامی لوگ اپنی من مانی ہی کرتے رہے۔ ریاست نگر کا دارالحکومت ڈونگس، نگر خاص میں واقع تھا جہاں بادشاہ کا محل اور دربار ابھی تک موجود ہے۔ یہ دارالحکومت مغلوٹ شاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر شوکت علی خان تک قائم رہا۔

نگر کو برف پوش پہاڑوں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ راکاپوشی، نگر کی وادی غلمت میں واقع ہے جبکہ دران پِیک نگر کی وادی مِناپن میں سینہ تانے کھڑی ہے۔ ہوپر تو نگر کے ماتھے کا جھومر ہے، جہاں سے ایک راستہ پاکستان کی بلند ترین جھیل رش لیک کو نکلتا ہے تو وہیں پر ہوپر گلیشیئر، گولڈن پِیک، برپو گلیشیئر، بولتر گلیشیئر، اور میار گلیشیئر ظہور پذیر ہیں۔

گولڈن پیک یا اسپانٹک پیک — فوٹو سید مہدی بخاری
گولڈن پیک یا اسپانٹک پیک — فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
راکاپوشی — فوٹو سید مہدی بخاری
راکاپوشی — فوٹو سید مہدی بخاری

نگر کا حسن پہلی بار مجھ پر حادثاتی طور پر آشکار ہوا۔ میں قراقرم ہائی وے پر سفر کرتا ہنزہ جا رہا تھا۔ مناپن کے قریب لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے راستہ بند تھا، اور گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ میرے جیپ ڈرائیور نے گاڑی مناپن گاؤں کے اندر ڈال لی۔ اس دن میں نگر کی وادیوں سے ہوتا ایک پرخطر کچے تنگ راستے پر سفر کرتا اور نیچے قراقرم ہائی وے کو دیکھتا رہا کہ جہاں دونوں اطراف لینڈ سلائیڈ اور اس کی وجہ سے رکی ہوئی گاڑیوں کی قطاریں تھیں۔

دو گھنٹوں کی مسافت کے بعد میں پھر سے دریائے ہنزہ پر بنا پل عبور کر کے قراقرم ہائی وے پر موجود تھا، اور گاڑی ہنزہ کی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس دن نگر کی اندرونی بستیوں کو قریب سے دیکھا۔ خوش باش لوگ تھے، کھیلتے بچے تھے، کام کرتی عورتیں تھیں، کھیتوں میں چرتے مویشی تھے اور دور کہیں عقب میں گولڈن پِیک مسلسل منظر میں موجود تھی۔ خالص دیہی زندگی کا نام نگر ہے، یہ احساس اسی دن ہوا۔

— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
نگر خاص — فوٹو سید مہدی بخاری
نگر خاص — فوٹو سید مہدی بخاری

ہنزہ سے نکلیں تو گنیش گاؤں کے بعد دریا پر بنا پل پار کرتے ہی دائیں جانب ایک سڑک ہوپر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ ہوپر سے پہلے نگر خاص آتا ہے جو کبھی ریاست نگر کا صدر مقام ہوا کرتا تھا۔ سارا علاقہ خوبانی، چیری اور سیب کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ کھیتوں میں کرکٹ کھیلتے بچے ہاتھ ہلا کر مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔

— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری

محنت کشوں کی آبادی نگر خاص، چھوٹی چھوٹی دکانوں اور گھروں پر مشتمل ہے۔ نگر خاص کے بازار سے ایک راستہ شمال کے آخری گاؤں ہیسپر کو نکل جاتا ہے اور دوسرا ہوپر کی طرف، جو کہ برفپوش پہاڑوں، رش جھیل اور کئی گلیشیئرز کی سرزمین ہے۔ ہوپر پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ اس سے آگے انسانی آبادی کا کوئی وجود نہیں، محض برف ہی برف ہے اور ان سے سر ٹکراتی بے چین ہَوا کہ جس نے برفوں کو اپنے زور سے کاٹ کر ان میں لہریں بنا دی ہیں۔

ہیسپر کی طرف جائیں تو راستے میں پتھروں سے بنے قدیم طرز کے مکانات نظر آتے ہیں جن کے آنگنوں میں مویشی اور بچے ساتھ ساتھ کھیلتے اور پلتے ہیں۔ ایسے گھروں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں دل چاہنے لگتا ہے کہ ان کے اندر ایک شب کسی کا مہمان رہوں۔ آبادی سے تھوڑا آگے نکلیں تو دودھ کی آبشار بلندی سے گرتی دکھائی دیتی ہے۔ یقین نہیں تو جا کر دیکھ لیں۔ لوگ ایسے مہمان نواز اور خوش اخلاق کہ مسافر کو اپنے گھر کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ کوئی خشک خوبانیاں پیش کرتا ہے تو کوئی اخروٹ۔

— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری

میں شمال کے آخری گاؤں ہیسپر جا رہا تھا۔ یہ خزاں کا موسم تھا۔ تیز ہواؤں سے درختوں کے خزاں رسیده پتے اڑتے پھرتے تھے۔ ایک گھر کے باہر بچے کھیل رہے تھے، اور میں ان کی فوٹوگرافی میں مگن تھا۔ اس گھر کے آنگن میں ناشپاتی کا گھنا درخت لگا ہوا تھا، جو ناشپاتیوں سے بھرا پڑا تھا۔ گھر کا دروازه کھلا ہوا تھا اور میں اس کے چھوٹے چھوٹے مکینوں کی تصویریں لیتا اور ان سے باتیں کرنے میں مشغول تھا۔

بچوں کو ہنسانے کی خاطر اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے میں کہتا کہ بچو گھر کے آنگن میں لگے درخت سے ناشپاتیاں تو توڑ کر لاؤ۔ مجھے قطعی خبر نہ تھی کہ میری آواز گھر کے اندر بھی کوئی سنتا ہے۔ کچھ دیر میں دروازے کی اوٹ سے سرخ آنچل سے نقاب بریده نیلی آنکھیں برآمد ہوئیں. مہندی لگے ہاتھوں سے چہرے کا نقاب بناتے ہوئے مجھے اشاره ہوا۔ میں قریب گیا تو دوسرے ہاتھ سے ناشپاتی سے بھری لکڑی کی چھال کی ٹوکری میری جانب بڑھا دی گئی۔

ہیسپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری
ہیسپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری
ہیسپر — فوٹو سید مہدی بخاری
ہیسپر — فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری

میں نے وصول کر کے شکریہ ادا کیا تو نیلی آنکھیں پھیل گئیں، غالباً نقاب کے اندر ہنسی تھی۔ نیلی آنکھوں والی میرے سر کی طرف مہندی رچے ہاتھوں سے اشاره کر کے بولی، " پتہ"۔ میرے بالوں میں ایک زرد پتہ نجانے کب کا اٹکا ہوا تھا۔ بالوں کو ہاتھ سے جھٹک کر پتہ گرانے تک دروازے کی اوٹ خالی ہو چکی تھی، اور میرے ہاتھ میں ناشپاتیوں سے بھری ٹوکری تھی جن کا ذائقہ شہد جیسا تھا۔ گاڑی کے قریب آ کر ڈرائیور کو ناشپاتی دی تو وہ اونچے اونچے قہقہے لگانے لگا۔ اب جب کبھی یاد آئے تو مجھے سارے منظر میں ڈرائیور کا قہقہہ سب سے اونچا یوں سنائی دیتا ہے جیسے مجید امجد کا یہ شعر

گونجتا رہ گیا خلاؤں میں

وقت کا ایک قہقہہ، تنہا

ہیسپر کے آتے آتے شام ڈھلنے لگی تھی۔ یہ گاؤں مجھے دنیا سے کٹا ہوا لگا۔ ایک عجیب طرح کا سکون اس بستی میں ٹھہرا تھا، سو وہیں شب بسری کا انتظام کر لیا۔ قراقرم کے دامن میں ایک سرد رات میں جب ہیسپر کے گھروں کی مدھم روشنیاں وادی میں جھلملاتی ہیں اور اوپر آسمان پر ستارے ٹمٹاتے ہیں، ان لمحوں میں معلوم نہیں ہو پاتا کہ ستارے کہاں کہاں بکھرے ہیں۔ بیچ میں کھڑا میں کبھی وحشی پہاڑوں کے خوف سے، تو کبھی سردی کی لہر سے کانپتا تھا۔

ہوپر سے التر کی چوٹی پر شام کا منظر — فوٹو سید مہدی بخاری
ہوپر سے التر کی چوٹی پر شام کا منظر — فوٹو سید مہدی بخاری
ہنزہ سے نگر کا منظر: گولڈن پیک، گلگندر، اور چھوٹوکان پیک — فوٹو سید مہدی بخاری
ہنزہ سے نگر کا منظر: گولڈن پیک، گلگندر، اور چھوٹوکان پیک — فوٹو سید مہدی بخاری

اس رات میں نے ایک تارہ دیکھا جو آسمان سے بھڑکتا ہوا تیزی سے زمین کی طرف آیا۔ جوں جوں وہ نزدیک آتا جا رہا تھا اس کی چمک دمک بڑھ رہی تھی۔ پھیلتے پھیلتے وہ ایک بڑا سا روشن گولا بن گیا۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے لگا کہ یہ مجھ پر اور وادی پر گر پڑے گا۔ دل میں ڈر بڑھا تو خدا یاد آ گیا۔ ایک دم روشنی کا گولا بجھا اور پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا۔ اس کے بعد دیر تک دھڑکن نارمل نہیں ہو سکی تھی۔ وہ جلتے ستارے کی رات بعد میں خواب میں بھی ایک دو بار آئی اور مجھے ہمیشہ ڈر کر اٹھنا پڑا، پھر بھی ہوش و حواس میں کئی بار دل کیا کہ پروردگار مجھے ایک بار پھر سے ایسا دہشت زدہ منظر دکھا دے۔ پہاڑوں میں، تنہائی میں، خاموشی میں، موت کی دہشت کی جو لذت ہوتی ہے، وہ بھی کمال ہوتی ہے۔ دور دراز کی وادیوں میں محبتیں ہی نہیں دہشتیں اور وحشتیں بھی بھری ہوتی ہیں۔

ہیسپر اور نگر خاص کے درمیان — فوٹو سید مہدی بخاری
ہیسپر اور نگر خاص کے درمیان — فوٹو سید مہدی بخاری
نگر خاص — فوٹو سید مہدی بخاری
نگر خاص — فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری

اگلی صبح آسمان سے شفاف اتری۔ اس دن میرا ارادہ نگر کو چھوڑ کر قراقرم کے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ بنی عطا آباد جھیل کو پار کر کے گوجال کے گاؤں حسینی جانے کا تھا۔ کھڑکی سے باہر دیکھتے جھیل کی جانب سفر ہوتا رہا۔ دھوپ جب پیلے، سرخ، نارنجی پتّوں پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی مصور نے کینوس پر جا بجا رنگ بکھیر دیے ہوں۔ ان رنگ برنگے درختوں کے نیچے سے گزرتے بچوں، بزرگوں، عورتوں کے چہروں پر پڑتی ہلکی دھوپ جو شاخوں سے چھن کر آتی ہے، دیکھتے رہنا بھی ایک مشغلہ ہے۔

— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری

نگر کی وادیوں سے نکلا تو قراقرم ہائی وے پر سفر کرتا جھیل تک پہنچا۔ جھیل کے کناروں پر رش تھا۔ ہر کسی کو پار جانے کی جلدی تھی۔ اردگرد کالے سیاہ پہاڑ تھے اور ان کے بیچ تنگ درے میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں دریا کا بہاؤ رک جانے سے بنی سبز پانیوں کی ایک گہری جھیل تھی جس کی اپنی الگ ہی ہیبت تھی۔

کشتی والے نے کشتی پر جیپ لوڈ کی تو سارا بوجھ دل پر پڑ گیا۔ قراقرم کے دہشت گرد سنگلاخ پہاڑوں کے تنگ سے درے میں بنی عطا آباد جھیل کا محل وقوع، لمبائی اور گہرائی جان کر ویسے ہی خوف آتا ہے۔ ایک عام سی کشتی میں تیس منٹ کا سفر پہلے ہی ڈرا رہا تھا کہ کشتی پر جیپ بھی لوڈ ہوگئی۔ لائف جیکٹ جو پہننے کو ملی وہ بس دل کی تسلی کے لیے تھی ورنہ جس معیار کی کشتی تھی اسی معیار کی جیکٹ تھی جو شاید تنکے کو بھی ڈوبنے سے نہ بچاتی ہو۔

عطاآباد جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری
عطاآباد جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری

کشتی چلی تو دل سے کئی گمان گزر گئے۔ مجھے یاد پڑا کہ بیس سال پہلے میرے والد ہمیں لے کر جہلم کسی عزیز کے گھر گئے۔ وه رشتہ دار ہمیں دریائے جہلم کی سیر کروانے لے گئے۔ اس زمانے میں جہلم میں پانی بہتا تھا اور کشتیاں چلتی تھیں۔ کنارے پر کافی رونق رہتی۔ کشتی پر بیٹھنے لگے تو میری والدہ نے مجھے نہ بیٹھنے دیا۔ میں نے بیٹھنے کی ضد کی تو امی بولیں کہ جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔ میں کنارے پر امی کے پاس روتا رہا اور باقی سب کشتی کی سیر کرتے رہے۔

تیس منٹ کا سفر سوچتے سوچتے گزر گیا۔ کشتی کنارے لگی تو ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے جھیل کا پانی آنکھوں سے بہنے لگا۔ پسو کونز کے بیک ڈراپ میں ملاح کا چہره دھندلا چکا تھا۔ حسینی کے گاؤں میں چلتے چلتے اسکول جاتے نیلی آنکھوں والے بچوں نے ہاتھ ہلا کر اشاره کیا تو جھیل، کشتی اور یادیں پیچھے ره گئیں۔ پہاڑوں پر سنہری دھوپ اترچکی تھی۔ موسم بدل چکا تھا۔ پانی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔

سورج ستارہ — فوٹو سید مہدی بخاری
سورج ستارہ — فوٹو سید مہدی بخاری
ہوپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری
ہوپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری
ہوپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری
ہوپر جاتے ہوئے — فوٹو سید مہدی بخاری
نگر خاص میں چیری بلاسم — فوٹو سید مہدی بخاری
نگر خاص میں چیری بلاسم — فوٹو سید مہدی بخاری

آدھی رات کو جب سارے دن کے کاموں سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹتا ہوں تو بیتے لمحے، سفری یادیں، ہنستے روتے لوگ، گلگت بلتستان کی وادیاں، جیپوں کا شور، جنگل، نگر اور ہیسپر کے پرانے گھر یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائیٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔


یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے سفرنامے کی سیریز میں چھٹا مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


لکھاری پیشے کے اعتبار سے نیٹ ورک انجینیئر ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔

سید مہدی بخاری

لکھاری یونیورسٹی آف لاہور کے کریئٹیو آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔

ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں: سید مہدی بخاری فوٹوگرافی

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (67) بند ہیں

zahid ali zahid May 12, 2015 03:27pm
GREAT WORK
Yasir Karim May 12, 2015 03:47pm
Really an excellent work, you are doing remarkable job for brighter side of Pakistan. Warm Regards Yasir Karim
May 12, 2015 03:47pm
Shah g Ma taada mureed ho gya wa .Farhad Butt From Abu Dhabi NDC
Ali May 12, 2015 03:48pm
Heaven on earth, Amazing photograhphy Syed mehdi bukhari
Qasim May 12, 2015 03:55pm
When I start watching these pictures my working mind convert to a dreamy mind and I start thinking how to invent a method to enter the computer screen to escape from this tension world to see all these beautiful places and never come back for a tension work. I am working in a deserted place where to see a single green tree like cooling tired eyes with ice. Great work and I don't have proper words how to appreciate your work. Simply amazing .
Muhammad Sharif May 12, 2015 04:04pm
Great work
Muhammad Rafi Ullah May 12, 2015 04:19pm
Absolutely esthetic, mind blowing, mesmerizing!
Ahmed Zarar May 12, 2015 04:21pm
Mahdi Bukhari kuch ooron ka leya bhi rahna do sara kamal tum na he dekhana ha. tumhara kaam ko dake kar lagta ha ka hum apna mulak main AJNABI han. urdu ke lok dastan ka fiqra pora hota ha ka "aik bar dakha ha dobara dakhna ki hawas ha".Main ab fakhria goron ko apna mulak is blog ka zarya dikhata hoon.
Qaiser Khan May 12, 2015 04:37pm
Mind blowing work. I would like to request you to take more photoes during the journey and publish a mini safar nama of each place. It will increase people interest as well as Pakistan beauty will get promoted.
HUmail Jilani May 12, 2015 04:48pm
What an amazing work done by you Mr. Mahdi Bukhari, I would highly appreciate if you work on our underprivileged village life in Pakistan. So we (urban people) can understand how they will survive their life.
nighat May 12, 2015 04:50pm
زبردست ۔۔۔۔۔بہت خوب۔۔۔ارٹیکل پڑھ کے مزا آگیا۔۔۔۔
shahid mahmood May 12, 2015 05:33pm
مہدی صاحب کے اس فن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔ "تم جیو ہزارو برس ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار"
Suhail Akhtar May 12, 2015 05:43pm
Beautiful photography and write-up as always, may Allah give strength to SM Bukhari sb., to show more beauty of Pakistan to the world, aamin.
Syed Armaghan Nishat May 12, 2015 05:43pm
EXQUISITE
Zohaib Butt May 12, 2015 06:06pm
Don't know how to describe my feelings .... Good work , like your photography , the way and the breathtaking moments you click all are awesome , Keep it up brother, stay safe and blessed always.
Javed Mirza May 12, 2015 07:25pm
کمال کا آرٹیکل اور تصاویر ، زائد از کمال ۔ جسقدر بھی ستائیش کی جائے مصنف کی محنت اور عکاس کی عکاسی کے مقابل کم ہی ہو گی ۔واہ گو کینڈا کا رہائیشی ہونے کے ناطے سے موسم ِخزاں میں ایسے ہی ان گنت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ،مگر وہ بات کہاں بقول ِغالب " مولوی مدن کی سی " ۔
زکریا ایوبی May 12, 2015 07:52pm
جب سے مہدی صاحب کے بلاگز پڑھنے کو ملے ہیں ایک عجیب سا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں مہدی صاحب بیٹھے بیٹھائے کسی دن بلاگ کے آخر میں (ختم شدہ) نہ لکھ دے۔ تارڑ صاحب نے پہاڑوں سے محبت کرنا سیکھایا تھا اب مہدی صاحب ہمیں پہاڑوں کا عاشق بنا کے چھوڑیں گے۔ میں تو کہتا ہوں بلاگ سے تشنگی پوری نہیں ہوتی اگر ایک سفر نامہ لکھ دیں تو ہم قارئیں پر احسان ہوگا۔ اگر کتابوں کی سریز ہو تو کیا کہنے!!!!
Aamir Raza May 12, 2015 08:45pm
SUBHAN ALLAH..again,outdid yourself. KAAAAAAASH
Zafar Mehdi May 12, 2015 09:08pm
This is more than haven on earth, I visited many times the Naltar and Nagar Valley but it was summer and it looked less beautiful, The photographer and the writer had exceptional artistic qualities. Reaching in that area from Islamabad is very difficult, PIA only offers seats to influential passengers and the road travel is long and tiring. Zafar Mehdi \
Imran Ali May 12, 2015 09:10pm
the Pics is sooo good and admirable. I enjoyed much ever. But Peoples are suffering with poverty.
Shoaib Mansoor May 12, 2015 10:11pm
Subhan Allah Al-Azeem...... and thanks to Syed Mehdi Bukhari for this stunning tour may Allah bless you with the best thanks to DAWN news
mohammad zaman May 12, 2015 10:13pm
great work
mohammad zaman May 12, 2015 10:14pm
great work
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 12, 2015 10:47pm
آپ کے بلاگ کی تعریف کے لیئے کوئی الفاظ نہیں اللہ سلامت رکھے آپ کو ۔
rab May 12, 2015 10:51pm
both e koobsoorat
ندا عارف May 13, 2015 12:01am
میں نے اپنے امریکی دوستوں کو جب یہ تصاویر بھیجیں تو انہیں یقین نہیں آیا کہ یہ پاکستان ہے۔
Abdul-Rahim Ahmad May 13, 2015 12:14am
Absolutely amazing ... I wish I had chance to see these places when I went on a 'Pakistan Tour' 25 years ago. Insha'ALLAAH, I will return to Pakistan some day and visit these previously missed places.
azhar gulzar May 13, 2015 01:18am
aj bohat arsey k bad safar nama parh kr yon lga mustansar hussain tarr ek dfa phir jwan hogya h or apni jadoi tahreer or baton se muj ko kisi dosri dunya mn le gya h salon k bad nature ka nasha sar char kr bola or kya khob bola zindgi mein mehdi sahib dosre admi hn jin ka andaze tahreer or photographi muj ko ab raton mn b bechain or beqrar kye rakhta h . Khuda ap ko de zor-e- qalum or zyada (Ameen)
Usman Butt May 13, 2015 02:33am
I ve keen to go there
Dr. Zeeshan Sabir May 13, 2015 09:08am
بہت خوب مھدی صاحب!! بہت زبردست منظر کشی کی ہے آپ نے۔ آپ کی تحریر پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے قاری خود ان وادیوں کے سفر پر آپ کے ہمنوا ہے۔ تحریر کی حلاوت کو high resolution تصویروں نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔
aqil aqil May 13, 2015 10:01am
great work Syed Mehdi keep it up....
Farhan Rao May 13, 2015 10:01am
Bohat Khobsurat
shafeeq May 13, 2015 10:08am
nice places but poor people
Riasat Ullah Khan May 13, 2015 10:23am
Really mind blowing pictures and no one can believe that these pictures are natural. I salute to photographer Syed Mehdi Bukhari who captures such a scene in their camera which directly fall in the heart and mind can't accept that its real. Really amazing love it. Syed Mehdi Bukhari you are great.........
Muhammad Naeem May 13, 2015 10:30am
Fabulous!
Asif Khan May 13, 2015 10:35am
Just Brilliant !!! i just love to see these pictures...
Fayaz Ahmad Khwaja May 13, 2015 10:45am
I never seen my country this much beautiful, this is truly Jannat, you show me the best place in Pakistan, and I am keen to explore it soon, once I came to Pakistan. Thank You very very much Mr. Syed Mehdi Bukhari, you are my here and Salute to your work.
Hafiz Ishaq May 13, 2015 11:24am
speechless beauty, amazing article. hats off Bukhari sb.
Aazad May 13, 2015 12:41pm
Soney per suhaga. Ik to khoobsooret scenery and oper sey excellent photography :) Why dont you try in some international photography competition.
Jamshed Khan May 13, 2015 12:46pm
آپ کے بلاگ کی تعریف کے لیئے کوئی الفاظ نہیں اللہ سلامت رکھے آپ کو ۔
JAMIL May 13, 2015 04:14pm
excellent work
Hamza Ahmed May 13, 2015 05:44pm
What a beautiful scenes, please just tell me which camera you use?
Ameet Kumar May 13, 2015 09:08pm
Thanks ek buhat hi khub surat or pur sukoon Pakistan dikhane k liye.
Saleem Haider May 13, 2015 10:01pm
The writer forgot to mention the hardships the people of this heavenly area face in Winter... which makes this article deplorably one sided...
Hamid May 13, 2015 10:52pm
Superb
نعمان May 13, 2015 11:32pm
بہت اعلی
Beautiful Gilgit Baltistan May 14, 2015 06:11am
@Imran Ali imran sb aap ki hamdardi ka teh dil se shukria....lakin ma ye bat kehtay hoe fakhr mahsos nahi krta hu gilgit baltistan k logo ne apni ghareebi or kam wasael a rona ronay ki bjaye talimi madan ma apna loha manwa hy....yahan k kuch elaqo ma literacy rate 90% se b ziada hy...or Alif Ailan k halya report (2015) k mutabiq taleemi idaro ma admissions ki shrah Islamabab or Lahore se b ziada hy...
Muhammad Imran Arshid May 14, 2015 10:54am
کاش ان علاقو ں میں امن ہوتا تو ہم اپنے وطن کی یہ خوبصورتی پوری دنیا کو دکھا سکتے۔ دنیا کے خوبصورت علاقوں میں سے ایک
Adil Shah May 14, 2015 10:57am
گویا نگر نگر پھرا مسافر۔۔۔ (y)
Javed Bhatti May 14, 2015 11:07am
My Dear Very Nice Report.We are like it.Beautiful and Nice Pice. Thanks.Good job. Best Regard Javed Bhatti
شفقت اللہ May 14, 2015 11:42am
ایک دفعہ پھر سے آپ نے جادو کردیا ہے، تمام مناظر میں رنگ ایسے لگ رہے ہیں کہ جیسے کہ رباب کے سُر نکل رہے ہوں۔ سلام ہے آپکے فن کو۔ اللہ کرے کہ میرے پیارے مُلک میں اسی طرح کا امن ہو اور ہر طرف پیار کے پھول کھلیں۔ آمین۔
TAHIR HUSSAIN SHAIKH May 14, 2015 12:27pm
Mashallah bht ala kam kya hai ap ny, Bukhari sb jo Nagar k khobsorat nazary ko camera ki Ankh m mehfooz kr k aam o khas tk phoncha dia.
saifullah balti May 14, 2015 05:48pm
excellent,tremendous,mind blowing.
anees May 14, 2015 06:42pm
unbelievable and great beauty
Shahzad May 15, 2015 08:31am
excellent passion, excellent pictures, love these pictures
Hidayat Ullah May 15, 2015 12:04pm
Excellent work.I appreciate your work for showing the beauty of Pakistan.
Raja Nisar Ahmed May 15, 2015 05:30pm
kafi muddat
Raja Nisar Ahmed May 15, 2015 05:39pm
شاہ جی سفرنامے میں نیا انداز بہت پسند آیا لفظوں کو برتنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور تصویریں کے رنگ خود بولتے ہیں
shahzaib May 16, 2015 01:57pm
owsum work
Mubashar Hassan May 18, 2015 02:19pm
کیا کہنے الفاظ و کمال کے جناب میں تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے یہ منظر دیکھتا اور سوچتا ہوں جو آپ دکھاتے ہو فطرت کو دیکھنے کا مزہ آ گیا اور آپ کے الفاظ کا چنائو بھی عمدہ ہے۔ الفاظ میں نہیں تول سکتا آپ کی محنت کو۔
Huma An May 20, 2015 10:36am
پُل صراط کے پار۔۔ خواب نگر۔۔۔ Excellent work!!!
اشفاقِ علی خان May 20, 2015 12:46pm
ربِ کریم آپ کی محنت کے بدلے، آپ کو دین و دنیا میں بے بہا کامیابیاں عطا کرے۔
Ahsan Sep 23, 2015 07:11pm
Nice Photography! Really an excellent work! you are doing a remarkable job by letting us exploring our Pakistan by your Photography.
Hajjrah Farooq Sep 28, 2015 11:44am
Guloo'n main rang bhary, baad-e-no bahaar chaly Chaly bhi aao k gulshan ka kaarobaar chaly ...!! _Ye nagar nahi , khawabon ka nagar hai ..
Habib Nov 02, 2015 09:15pm
A place of serenity and absolute heaven on earth. Makes one wonder how unfortunate he is. Why he is not part of that simple life. What is keeping him from living the rest of his life in serenity, free of worries and most importantly bearing the pain of being away from your loved ones. Thank you Mr. Mahdi Bukhari for reminding me what I am missing in life while perusing other mundane objectives.
asim Jan 26, 2016 10:58am
nice nice & so nice view Ma Sha Allah Pakistan is so beautiful country in the world . it is a natural beauty.
Tasneem Ahmed Feb 22, 2016 02:54am
mashaallah humara mulk kitna khoob surat hey aur aap ki nazar ki daad deni purey gi Allah aap ko khush rakhey. aur jitna pyara mulk hey hukamran thorey se bhi achey ho jain to kia kehna.