کسی ریگستان سے اگر بارش روٹھ جائے تو برسوں تک وہاں زندگی کے آثار دکھائی نہیں دیتے، اور ریگستان میں پانی کے بنا زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ تپتی ریت پر جینے والے یہ لوگ قحط کی صورت میں پانی والے علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے پالتو جانور بھی لے چلتے ہیں۔
جیسے ہی قدرت مہربان ہوتی ہے اور بادل برستے ہیں تو بے جان ریت میں گھاس اگتے ہی زندگی لوٹ آتی ہے۔ درختوں کی شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، ریت کے ٹیلے اور خالی میدان گھاس اور پودوں کی سبز چادر اوڑھ کر کئی آنکھوں کو اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ جانے والے لوٹ آئے ہیں۔ ضلع سانگھڑ کے علاقے 'اچھڑو تھر' (سفید تھر) کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اسے اچھڑو تھر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں کی ریت سفید رنگت کی ہے۔
یہاں ہر طرف ریت ہے، مگر ریت کے ٹیلوں کے دامن میں چند ایسی بھی جھیلیں ہیں جہاں سے نمک نکلتا ہے۔ ہوا چلتی ہے تو ریتیلے میدان کی سطح سے ریت اس طرح اڑتی ہے، جیسے کوئی سانپ رینگ رہا ہو۔ میں جس جھیل کی جانب گیا تھا، اسے نمک والی جھیل کہا جاتا ہے مگر اس کا نام ایک نمبر جھیل بھی ہے۔ یہ جھیل آٹھ ایکڑ تک پھیلی ہوئی ہے۔
جھیل میں قدم رکھتے ہی ایک عجیب سا احساس ہونے لگا۔ کہیں پانی تھا، کہیں نمک کے ذرات، کہیں سخت فرش تو کہیں مخمل کی طرح نرمی محسوس ہوئی۔ دور سے ایسا لگا کہ سردیوں کی وجہ سے جھیل کا پانی برف بن کر جم گیا ہے۔ مگر قریب جانے پر معلوم ہوا کہ جسے ہم برف سمجھ رہے تھے وہ نمک کی سخت سطح تھی۔
ان ریت کے ٹیلوں کے دامن میں ایسی آٹھ جھیلیں ہیں جن سے نمک نکالا جاتا ہے۔ وہی نمک، جس کے بغیر ہمارے تمام لذیذ کھانے ادھورے ہیں۔ میں جب جھیل میں اترا تو اس وقت مزدور اپنے کام میں مصروف تھے۔ کہیں نمک کھود کر نکالا جا رہا تھا، کہیں اسے خشک کرنے کے لیے جمع کیا جا رہا تھا، تو کہیں بوریوں میں بند کیا جا رہا تھا۔
ایک جانب میرے چاروں اطراف ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے تو جھیل میں نمک کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے، جن کی سفیدی آنکھوں کو بھا رہی تھی۔ نمک کی جھیل میں پاؤں رکھتے ہی مجھے اس بادشاہ کی وہ لوک داستان یاد آ گئی جو اپنی سات بیٹیوں سے ان کے پیار کی آزمائش لیتا ہے۔
جب وہ سوال کرتا ہے کہ اس کی بیٹیاں اس سے کتنا پیار کرتی ہیں تو کوئی کہتی کہ بادشاہ شہد جتنا میٹھا ہے، کوئی کہتی ہے کہ مصری جتنا میٹھا ہے تو کوئی یہ کہہ کر پیار کا اظہار کرتی ہے کہ بادشاہ گڑ جتنا میٹھا ہے، مگر سب سے چھوٹی بیٹی اس سے کہتی ہے وہ نمک جتنا میٹھا ہے، جس کے بعد بادشاہ غصے میں آکر اسے محل بدر کر دیتا ہے۔
حالات کا مارا بادشاہ ایک دن اسی بیٹی کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ نمک جیسا میٹھا ہونے کا مطلب کیا ہے اور نمک کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ اسی لوک کہانی کو شیکسپیئر نے 'کنگ لیئر' کے نام سے لکھا، جو کہ شیکسپیئر کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔
اچھڑو تھر میں پانی کی کئی جھیلیں اور بہاؤ ہیں مگر جہاں جہاں سیم ہے وہاں کی زمین نمک پیدا کرنے میں کافی بہتر ہے۔ بارشیں پڑنے کے بعد یہ جھیلیں پانی سے بھر جاتی ہیں اور نمک کی سطح سے مل کر بارشوں کا پانی اور بھی زیادہ نمک پیدا کرتا ہے۔ ایک صحرا میں ایسی جھیل اور سورج کی کرنیں اس کا پانی جذب کرتی رہتی ہیں، جس کے بعد پانی کو نمک بننے میں دیر نہیں لگتی۔
آچر کولہی جھیل پر کام کرنے والا ایک ایسا مزدور ہے جسے بس اتنا پتہ ہے کہ اس کے مقدر میں بس نمک نکالنا اور نمک صاف کرنا ہے۔ پہلے پہلے وہاں پر میری ملاقات اسی سے ہی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھوں، ٹانگوں اور بازوؤں پر نمک کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اگر میں اسے کھرچتا تو اس کے جسم سے شاید صرف نمک ہی نکتا۔ میں نے جب اس کے پیروں کی جانب دیکھا تو مجھے چند سبز رنگ کے نشانات نظر آئے۔
"یہ آپ کے پیروں کو کیا ہوا ہے، کیا لگا رکھا ہے؟" میں نے اس سے پوچھا۔
"صاحب یہ صمد بونڈ ہے، میرے پاؤں میں اسی جھیل میں کام کرتے کرتے زخم ہو جاتے ہیں تو میں صمد بونڈ لگا لیتا ہوں، کچھ اور چیز نمک میں ٹک نہیں سکتی، اس لیے صمد بونڈ لگانے کے بعد پانی زخموں کے اندر نہیں جا سکتا اور پھر کام کرنے میں دقت نہیں ہوتی"، وہ سوال کا جواب دینے کے بعد مجھے جھیل کے اور اندر لے گیا۔
"مگر یہ تو کوئی علاج نہ ہوا، صمد بونڈ نہ تو کوئی دوا ہے اور نہ ہی مرہم۔"
"وہ آپ کے لیے نہیں ہوتا ہوگا۔ ایک نمک مزدور کو یہاں دوا اور مرہم نہیں ملتے، بس ہم اپنے زخموں کو اس نمک والے پانی سے بچا لیں، وہی بہت ہے۔" وہ مجھے نمک کے ڈھیر کی جانب لے گیا جہاں اسے بوریوں میں بند کیا جا رہا تھا۔
آچر بچپن سے اس کام میں ہے، صبح 6 بجے سے شام کے 6 بجے تک وہ کام میں لگا رہتا ہے۔ وہ پھاوڑے سے نمک کی وجہ سے سخت بن جانے والے جھیل کے جسم کو کھودتا ہے، اسے باریک کرتا ہے، اسے پانی سے صاف کرتا ہے اور پھر بوریوں میں بند کرتا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی جب اس نے بتایا کہ اسے ایک بوری بھرنے کی اجرت صرف ڈیڑھ روپے ملتی ہے۔ ایک دن میں سو بوریاں بھرنے کے اسے ڈیڑھ سو روپے ملتے ہیں۔ میں نے جب اسے کہا کہ یہ تو بہت کم مزدوری ہے، تو اس نے آنکھیں جھکا لیں۔
"ہاں بہت کم ہے، گزارا بھی نہیں ہوتا، مگر کیا کریں یہاں تو اتنا ہی ملتا ہے،" یہ کہہ کر وہ پانی سے نمک صاف کرنے لگا۔
"اس سے بہتر نہیں کہ تم کوئی اور کام کرو، جس میں کچھ پیسے زیادہ مل جائیں؟"
"کون سا اور کام؟ میرا باپ بھی اسی جھیل میں نمک صاف کرتا تھا، میں بھی یہیں نمک کھودتا ہوں، شاید میرے بیٹے کے حصے میں بھی یہی کام آئے گا، اپنی زندگی تو نمک ہو گئی ہے صاحب"۔ اس کی آنکهوں میں مایوسی ظاہر ہو رہی تھی اور آواز ہلکی ہوگئی۔
میرے چہار سو نمک ہی نمک تھا۔ مگر نمک تو آچر کی آنسوؤں کے پانی میں بھی ہوگا جو شاید اس نے میرے سامنے اس لیے نہیں بہائے تھے کہ وہ اپنے آپ کو کمزور نہیں دکھانا چاہتا تھا۔
جھیل میں نمک کا کام سارا سال جاری رہتا ہے۔ یہ نمک سارے ملک میں بھیجا جاتا ہے، جہاں اسے اور بھی بہتر کیا جاتا ہے مگر کوئی بھی نمک کا ٹھیکیدار آچر جیسے مزدروں کی اجرت بڑھانے کو تیار نہیں۔ آچر کا گھر بھی اسی جھیل کے کنارے ہے جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ گھر کیا ہے، ایک دو جھونپڑیاں، جہاں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے، پانی لانے کے لیے بھی انہیں ہرن کی طرح اس صحرا میں بھٹکنا پڑتا ہے۔
جھیل کی سطح کو غور سے دیکھنے کے بعد کسی مقام پر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سطح پر شریانیں ابھر آئی ہوں اور نمک ان شریانوں میں خون کی مانند بہہ رہا ہو۔ آچر مجھ سے بات چیت کرتے وقت بھی اپنے کام میں مصروف عمل تھا۔ میرے لیے نمک کی سخت سطح پر چلنا مشکل تھا۔ اب مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ آچر کے زخم کیسے ہوں گے جن کے لیے کوئی مرہم بھی دستیاب نہیں ہے۔ اور جب اس جھیل میں کام کرنے والے مزدور کے پیروں میں زخم بن جائیں تو نمک والا پانی گوشت کو گلانے میں دیر نہیں کرتا۔
میں جب تک وہاں تھا، ہر ایک کو اپنے کام میں مصروف دیکھا۔ ہر ایک کو اس بات کی فکر تھی کہ اگر آج کام پورا نہ ہوا تو مزدوری نہیں ملے گی۔ آچر کولہی کو بھی یہ فکر تھی کیونکہ پاس ہی اس کی جھونپڑی میں اس کے بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
نمک کی بوریاں تیار کرنے کے بعد انہیں ٹرکوں کے ذریعے ملک کے دیگر شہروں میں بھیجا جاتا ہے، اور اسی طرح ایک دن کا کام تمام ہوتا ہے۔ دوسری صبح آچر جیسے کئی مزدور پھر نمک کی جھیل میں اتر کر نمک بن جاتے ہیں۔
اردو کے عظیم افسانہ نگار کرشن چندر نے افسانہ 'پانی کا درخت' شاید انہی نمک کے مزدوروں پر لکھا تھا، جو نمک کا کام کرتے کرتے نمک بن جاتے ہیں۔ جس میں بانو کی محبت روتی ہے، کیونکہ محبت صرف نمک ہی نہیں تھوڑا سا میٹھا پانی بھی چاہتی ہے۔
ان مزدوروں کی زندگی کو دیکھ کر لگا کہ ان کی زندگی میں بس نمک کا ذائقہ ہی رہ گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کی جھلک نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی بے بسی نے انہیں خوشیوں کے ذائقوں سے محروم کر دیا ہے۔ میں جھیل کو دیکھتا رہا اور مجھے بس کرشن چندر کی کہانی کا ایک اقتباس یاد آنے لگا جس میں انہوں نے لکھا تھا:
"میرے دل کے اندر نمک کے کتنے بڑے ڈلے اکٹھے ہوگئے تھے. میرے دل کے اندر نمک کی ایک پوری کان موجود تھی۔ نمک کی دیواریں، ستون، غار اور کھارے پانی کی ایک پوری جھیل۔ میرے دل اور دماغ اور احساسات پر نمک کی ایک پتلی سی جھلی چڑھ گئی تھی اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اگر میں اپنے جسم کو کہیں سے بھی کھرچوں گا تو آنسو ڈھلک کر بہہ نکلیں گے اس لیے میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔"
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
تبصرے (29) بند ہیں