16 بہترین سائنس فکشن فلمیں
سائنس فکشن فلمیں دیکھنا کس کو پسند نہیں ہوتا ؟ مگر سوال یہ ہے کہ کس طرح کی فلموں کو اس زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
جیسے ہم نے چند بہترین سائنس فکشن فلموں کی فہرست مرتب کی ہے تاہم ان میں سپر ہیروز کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کامک بک پر بننے والی فلموں کو۔
اس میں بس تخلیقی خواب، ٹائم ٹریول، متبادل دنیاﺅں اور دیگر کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اس میں آپ کی پسند کی کئی فلمیں شامل نہ ہو مگر آپ ہمیں ان سے آگاہ کرسکتے ہیں تاکہ ہم انہیں بھی اس کا حصہ بنانے کی کوشش کرسکیں۔
انسیپشن
ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان نے بیٹ مین سیریز سے لوگوں کے دل و دماغ جیتے مگر ان کی حقیقی مہارت کا ثبوت 2010 کی یہ فلم ہے۔ ذہن گھما دینے والی اس سائنس فکشن فلم کو 21 ویں صدی کی اس زمرے میں سب سے بہترین کاوش بھی قرار دیا جاتا ہے (تاہم ہم ایسا نہیں کہہ سکتے)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف سائنس فکشن ہی نہیں بلکہ ڈراما، تھرلر اور دیگر کیٹیگریز میں بھی شامل کی جاسکتی ہے۔ اس کا دل لیونارڈو ڈی کیپرو کا کردار ہے جو اداروں کی معلومات چرانے میں مہارت رکھتا ہے۔
دی میٹرکس
اگر تو آپ سائنس فکشن کو دیکھنے کے شوقین ہیں تو اس فلم کو دیکھے بغیر ایسا دعویٰ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ 1999 کی اس فلم میں جو انوکھا سائنسی تصور پیش کیا گیا ہے وہ اکثر افراد کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے یعنی حقیقت کیا ہے، کیا ہمارے ارگرد کی دنیا حقیقی ہے یا واہمہ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بہترین ایکشن فلم بی تھی خاص طور پر اس سیریز کی پہلی فلم کا مقابلہ باقی 2 فلمیں نہیں کرسکتیں۔
انٹرسٹیلر
کرسٹوفر نولان کی خلائی سفر پر مبنی اس فلم کو بھی زبردست قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس میں خوراک کی کمی سے انسانی نسل کی بقاءکو لاحق خطرے سے بچنے کے لیے کائنات میں ایک نئے گھر کی تلاش کو دکھایا گیا ہے۔ بلیک ہول میں ان کا پھنسنا اور نکلنا اور کہانی سب دیکھنے کے لائق ہیں۔
اواتار
جیمزکیمرون کی یہ شہرہ آفاق فلم جسے فلمی دنیا میں سب سے زیادہ بزنس کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، میں ایک ایسے سیارے کا تصور پیش کیا گیا جس پر انسان حملہ آور ہو جاتے ہیں، ویسے تو یہ کافی روایتی قسم کی کہانی ہے مگر اس میں تھری ڈی ایفیکٹس اور ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال اسے ہر وقت کی بہترین فلموں میں سے ایک بنا دیتا ہے جس کے مزید تین حصے بھی تیاری کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔
ایلین
1979 کی یہ فلم ریڈلے اسکاٹ نے ڈائریکٹ کی تھی جس میں خلائی مخلوق کے گھیرے میں پھنس جانے والے خلائی عملے کی کہانی بیان کیگئی ہے جو اس دور کی طرح آج بھی دیکھنے والوں کو دہشت زدہ کر دیتی ہے۔ ہارر اور سائنس فکشن پر مشمل یہ فلم سدا بہار لگتی ہے اور اس کے کئی مناظر کو ہولی وڈ میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔
2001 : اے اسپیس اوڈیسے
یہ سائنس فکشن ماسٹر پیس ہر دور کی بہترین فلموں میں سے ایک مانی جاتی ہے اس کے حیرت انگیز ساﺅنڈ ٹریکس، بولڈ ویژول اور بہترین اداکاری، غرض کہ ہر شعبے میں یہ بہترین تھی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے 1968 میں ریلیز کیا گیا تھا۔
بلیڈ رنر
ریڈلے اسکاٹ کی ایک اور فلم جس میں مصنوعی ذہانت کو انسان سے زیادہ طاقتور دکھایا گیا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ فلم سائنسی ترقی سے انسانیت کو دوچار چیلنجز کو پیش کرنے کے یے بنائی گئی تھی اور اسے ڈرامائی انداز سے پیش کرنا آسان کام نہیں تھا۔
اسٹار وارز
ویسے تو سٹار وارز کے کئی حصے ہیں مگر اس سیریز کے پرستاروں کی نظر میں 1977 میں ریلیز ہونے والا پارٹ سب سے بہترین ہے۔یہی وہ فلم تھی جس میں دو مرکزی کرداروں لیوک اسکائی واکر اور ہان سولو کو ہیروز کا خطاب دیا گیا ۔ ڈائریکٹر جارج لیوکاس نے اس میں اپنی ہر ممکن صلاحیت اور اس دور کی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا اور اس بات کا خیال رکھا کہ یہ دیکھنے والوں کے لیے بہت زیادہ پیچیدہ نہ ہو۔
ٹرمینیٹر ٹو : ججمنٹ ڈے
ڈائریکٹر جیمز کیمرون کی اس فلم کو کس نے نہیں دیکھا؟ اس کے اسٹنٹٹس، ویڑول ایفیکٹس، کہانی غرض ہر شعبہ ہی اپنے وقت سے آگے اور لوگوں کو کرسیوں سے اچھلنے پر مجبور کردینے کے لیے کافی تھا۔ آرنلڈ شوازینگر اس فلم میں سائی بورگ کی شکل میں مستقبل سے ایک بچے کو بچانے کے لیے آتے ہیں جس کا حریف ہوش اڑا دینے والا ہوتا ہے۔ اس فلم کو اب کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔
دی مارشین
مریخ پر ایک انسان بردار مہم کے دوران ایک خلاءباز کو وہاں مردہ تصور کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے مگر وہ زندہ ہوتا ہے اور خود کو سرخ سیارے میں تنہا پاکر بقاءکی کوشش شروع کردیتا ہے۔ اس کے پاس کھانے کے لیے بہت کم سامان ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ اپنی ذہانت سے اس کا حل نکالتا ہے جبکہ زمین پر بھی اپنے زندگی کا ثبوت بھیجتا ہے۔ ریڈلے اسکاٹ کی یہ فلم بھی سائنس فکشن پسند کرنے والوں کے دلوں کو بھاگئی تھی۔
بیک ٹو دی فیوچر
ٹائم ٹریول پر مبنی فلمیں پہلے بھی بنتی رہی ہیں مگر جو مقبولیت اس فلم کو ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ مارٹی میک فلائی اور ڈاک براﺅن کی پرمزاح سائنس فکشن فلم کے تین حصے ہیں جو لگ بھگ ہولی وڈ فلموں کے شوقین ہر فرد نے ہی دیکھیں ہوں گے۔ اس فلم کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس میں وقت کے سفر کو بہت زیادہ پرلطف دکھایا گیا تھا۔
پلانیٹ آف دی ایپس
ڈائریکٹر فرینکلن جے شیفر کی بندروں کے سیارے کی یہ کہانی اپنے دور میں تہلکہ مچانے میں کامیاب رہی تھی اور اس سیارے میں انسانوں جیسے سیاسی تنازعات اور دیگر مسائل نے لوگوں کا خلائ میں کسی اور مخلوق کی موجودگی کا یقین بڑھا دیا تھا۔ حالانکہ اسے بنانے والوں کو بھی اس سے کوئی خاص توقعات وابستہ نہیں تھیں تاہم اس کی بے مثال کامیابی نے اسے ایک سیریز کی شکل دے دی۔
جراسک پارک
ویسے تو اسے سائنس فکشن قرار دینا آسان نہیں مگر اس کا خیال ضرور سائنسی تھا یعنی دنیا سے معدوم ہوجانے والے جانوروں کے کلونز کی مدد سے تھیم پارک جیسا پارک بنانا۔
اسٹار ٹریک
خلائی فلموں پر مشتمل سیریز 'اسٹار ٹریک' کے تو سب ہی حصے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں تاہم 2009 میں آنے والا اس کا پارٹ کافی تاخیر کے بعد ریلیز ہوا جو اس کے پرستاروں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھا کیونکہ ایکشن سے بھرپور ہونے کے ساتھ یہ جدید ویڑول ایفیکٹس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ماضی کے پارٹس سے کافی الگ تھا۔
گریویٹی
سائنس فکشن فلم کا ذکر ہو اور کسی کو 'گریویٹی' کا نام یاد نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا، یہ دو خلاءبازوں کی کہانی تھی جو اپنے اسپیس اسٹیشن میں بھٹک جاتے ہیں اور پھر واپس آنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔اس فلم کے ویژول ایفیکٹس اور سائنسی درستگی کمال کی تھی۔
مائینورٹی رپورٹ
مستقبل کا ایسا نقشہ جس میں ایک خصوصی پولیس یونٹ قاتلوں کو جرم سے پہلے ہی گرفتار کرنے کے قابل ہوتا ہے، اور اس کا ہی ایک آفیسر مستقبل میں قتل کے الزام کا ملزم بن جاتا ہے۔ اسٹیون اسپیلبرگ کی یہ فلم کمال کی تھی اور سائنسی لحاظ سے دنگ کردینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں