ہم ضیا کی تباہ کن راہ پر کب تک چلیں گے؟
دو دہائیوں پہلے بھی ایک فوجی بغاوت ہوئی تھی اور دو دہائیوں بعد بھی فوجی بغاوت ہوئی۔ لیکن 5 جولائی 1977 کا دن، جب اس وقت کے آرمی چیف نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی، آج بھی ملکی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس کا تعلق صرف بھٹو کے روشن جمہوری عزم، جسے کبھی بھٹو نے عملی شکل دی تھی، اور سیاہ جمہوریت مخالف نقصان، جو ضیا نے اس ملک کو پہنچایا، کے درمیان فرق سے نہیں؛ بلکہ ضیا کے اقتدار پذیر ہونے سے ملک اور اس کے عوام میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے ہے جن کے زخم آج بھی ریاست اور معاشرے کے بگاڑ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
بلاشبہ ضیا کو حالات اور بیرونی طاقتوں کی مدد حاصل تھی۔ ان کی آمریت کی تاریخ اس وقت تک نامکمل ہوگی جب تک اس میں افغانستان میں سوویت جنگ کی داستان اور کمیونسٹ حکومت کے خلاف پراکسی جنگ میں مدد کی خاطر اسلام پسند جنگجوؤں کے لیے امریکی گرم جوشی کا ذکر نہ کر لیا جائے۔
لیکن فوجی حکمران کے طویل دور حکومت کی خوش قسمتی ملک کے لیے طویل مدتی بدنصیبی ثابت ہوئی۔ دو سپر پاورز کے ساتھ دوستی اور دشمنی نے ملک کے سب سے بدنام آمر کو مذہبی تجربات کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کر دیا۔ انہی تجربات سے آگے چل کر نہایت تباہ کن نتائج بر آمد ہونے تھے۔
اس پر تشدد تجربے کو 40 برس بیت جانے کے بعد بھی جنرل ضیا نے اس ریاست اور معاشرے کو جن تباہیوں کا شکار بنایا اسے نظر انداز کرنا یا معاف کرنا ناممکن ہے۔
نہ صرف ملک کے سب سے روشن جمہوری ستارے کو قید کرنے اور پھانسی دینے کی وجہ سے بلکہ مذہبی عدم برداشت اور تعصب سے آلود جمہوریت مخالف پالیسیوں کی وجہ سے جنرل ضیا ایک شاطر رہنما کے طور پر یاد کیے جائیں گے جنہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
لیکن، ان کی موت کو قریب 30 برس گزر جانے کے بعد موجودہ کاہلی کے لیے اب ماضی کو مزید بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
افغان جنگ کو نئی صورت دے کر ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ کا فیصلہ ضیا کے نظریاتی وارثوں نے کیا تھا۔
سوویتوں کے افغانستان چھوڑ جانے کے برسوں بعد افغان طالبان کی حمایت کی اسکیم مرتب کی گئی تھی۔ اور آج، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ دینے والی مساجد، مدرسوں اور فلاحی مراکز کا جال بچھایا جا رہا ہے، یہ سب ایک پالیسی کے تحت ہو رہا ہے جس کے لیے 9/11 سے رہنے والی مختلف قومی قیادتیں ذمہ دار ہیں۔
جنرل ضیا نے تو ملک کے اندر شدت پسندی، دہشتگردی اور تشدد کی تباہ کن راہ اختیار کی، لیکن دو نسلوں سے قومی قیادت اسی راستے پر اب تک گامزن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیا کی وراثت کو ملک سے لپیٹنا اس ملک کی پالیسی تبدیلی کا سب سے کٹھن کام ثابت ہو، شاید حالیہ حالات میں اس دردناک راہ پر چلنے سے بھی زیادہ کٹھن ہو جس پر چل کر ہی پاکستان مخالف شدت پسندوں کے خلاف کسی صورت برداشت نہ کرنے کی راہ اپنائی گئی ہے۔
اگر پاکستان نے خود کو شدت پسندی، دہشتگردی اور تشدد کے جال سے آزاد نہیں کیا تو اندرونی یا علاقائی حالات تشدد کی اگلی ایک بڑی لہر کے لیے ایک بہانہ پیدا کر دیں گے۔
70 سالہ اس ملک کو اب چار دہائیوں پرانی طاقتوں کی پیٹھ پر مزید سوار نہیں ہونا چاہیے۔
یہ اداریہ 6 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں