لاہور دھماکے پر پنجاب حکومت کو جواب دینا ہوگا
لاہور میں ایک اور بڑے دہشتگرد حملے میں انسانی جانوں کے بڑے پیمانے پر ضیاع سے یہ واضح ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کی قومی کوششیں اپنی راہ سے ہٹ رہی ہیں۔
پیر کے روز ہونے والے حملے کی ذمہ داری یوں تو فوراً تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کر لی، مگر شہری پاکستان میں ہونے والے حملوں اور فاٹا میں ہونے والے جارحانہ فوجی آپریشنز کے درمیان تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔ مگر ماضی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فاٹا میں ہونے والے فوجی آپریشنز سے ملک کے دیگر شہروں کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے کیوں کہ دہشتگرد بدلے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ تو کیا حالیہ دنوں میں ملک بھر میں انٹیلیجنس معلومات کے حصول اور انسدادِ دہشتگردی آپریشنز کو بڑھایا گیا تھا؟
انسدادِ دہشتگردی آپریشنز کی خفیہ نوعیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے باضابطہ جواب ہی ان سوالات کی تشفی کر سکتا ہے، مگر بظاہر ملک میں سیکیورٹی سخت نہیں کی گئی تھی۔ سوال ضرور پوچھے جانے چاہیئں، مگر سسٹم میں بہتری کا باعث بننے والے ایماندارانہ جواب کی کتنی امید رکھی جا سکتی ہے؟
پنجاب کی بات کی جائے تو مسئلہ نہایت سنگین ہے۔ لاہور ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، اور اس کو دستیاب وسائل ملک کے کسی شہر کے پاس نہیں۔ اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی پنجاب کے دار الخلافہ لاہور کو محفوظ رکھنے میں گہری دلچسپی کی وجہ سے لاہور کی پولیس اور سویلین انسدادِ دہشتگردی قیادت کافی مستحکم ہے۔
مگر اس شہر نے اتنا کچھ جھیلا ہے کہ اس قیادت کی صلاحیتوں پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ شہباز شریف اپنی منتخب کردہ ٹیم پر دوبارہ بھرپور اعتماد کا اظہار کریں مگر کیا یہ شہر یقین کر سکتا ہے کہ اس کے محافظین پولیس، انٹیلیجنس اور انسدادِ دہشتگردی کے شعبوں کے بہترین افراد ہیں؟
ویسے تو جذباتی ردِ عمل سے گریز کرنا چاہیے مگر یہ یقینی ہے کہ کسی نہ کسی مقام پر دار الخلافہ کے سیکیورٹی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لگتا نہیں ہے کہ درست سبق سیکھا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت طویل اور سخت جدوجہد کے بعد رینجرز کو صوبے میں انسدادِ دہشتگردی آپریشن سے باز رکھنے میں کامیاب ہوئی، مگر یہ خود بھی وہ اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہے جو رینجرز کو دور رکھنے کے حق میں ٹھوس دلیل ثابت ہو سکتے۔
اس کے علاوہ پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ کہ دہشتگردی کے واقعات میں 70 سے 80 فیصد تک کمی آئی ہے، ناقابلِ قبول ہے۔ کیا شہریوں کو پنجاب حکومت کا احسان مند ہونا چاہیے کہ زیادہ نہیں تو کم حملے ہو رہے ہیں؟ دہشتگرد حملوں کی گزشتہ لہر سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کم مگر لگاتار ہونے والے حملے ان جنگجو نیٹ ورکس کی موجودگی کا ثبوت ہیں جو مزاحم ہیں اور فوری طور پر پوری طاقت سے میدان میں اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شریف خاندان کا سیاسی بحران میں پھنسا ہونا بھی قابلِ قبول یا معقول بہانہ نہیں ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی حکمتِ عملی ایک طویل مدتی پراجیکٹ ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی منصوبہ بندی کرے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ تمام تر سیاسی ہلچل کے باوجود جاری رہے۔
آج لاہور زخم خوردہ ہے، مگر دوسرے صوبوں کے شہروں کو بھی تیار رہنا چاہیے۔ انہیں بھی انسدادِ دہشتگردی اور انسدادِ انتہاپسندی کی کوششوں کو ایک نئے عزم کے ساتھ شروع کرنا چاہیے، ورنہ وہ بھی خود کو اچانک دہشتگرد حملوں کی لہر کے درمیان گھرا ہوا پائیں گے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 25 جولائی 2017 کو شائع ہوا۔