• KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm
  • KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm
شائع May 26, 2018

پھولوں کی وادی ’پھلاوئی‘

نصر احمد بھٹی

2002ء میں مظفرآباد سے تقریباً 7 گھنٹوں کی تھکا دینے والی مسافت کے بعد جب ہم پہلی مرتبہ آٹھمقام پہنچے تو لائن آف کنٹرول پر دوسری طرف سے ہونے والی گولہ باری نے آٹھمقام شہر کو شدید متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے ہم آگے نہیں جاسکے تھے، لیکن واپسی پر یہ ارادہ کرکے نکلے تھے کہ جلد دوبارہ واپس آئیں گے اور پھر تب سے یعنی گزشتہ 16 برسوں سے وادئ نیلم سے نین لڑائے رکھے ہیں۔

2015ء میں تاؤبٹ سے کیل کا پیدل سفر کیا۔ اس دوران مقامی لوگوں کی مدد کا یہ فائدہ ہوا کہ کئی چھوٹے بڑے گاؤں اور ندی نالوں اور سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہنے والی جھیلوں کا مفصل تعارف ہوا۔

وادئ نیلم میں آنے والے سیاح عام طور پر وادی کے دامن میں بہتے دریائے نیلم اور وادی میں دستیاب واحد سڑک کے ذریعے تاؤبٹ تک آکر اپنی سیاحت کا اختتام کردیتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں سے آگے قدرت کے وہ راز چھپے ہیں جنہیں ایک بار دیکھنے والا کبھی نہ بھول پائے۔

کیل اور تاؤبٹ کے درمیان تحصیل شاردا میں ‘پھلاوئی‘ نامی ایک خوبصورت گاؤں ہے، جو مظفرآباد سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ہے۔

’پھلاوئی‘ نام 2 لفظوں، یعنی پھول اور وئی کا مرکب ہے، جس کے معنی پھول اور پانی کے ہیں۔

پھلاوئی کا مرکزی بازار — تصویر عبد النوربھٹی
پھلاوئی کا مرکزی بازار — تصویر عبد النوربھٹی

شیشہ کور گھنے بادلوں کے نرغے میں— تصویر عبد النوربھٹی
شیشہ کور گھنے بادلوں کے نرغے میں— تصویر عبد النوربھٹی

وادی کے شمال میں شیشہ پہاڑ (شیشہ کور) اور جنوب میں سبزی مائل دریائے نیلم بہتا نظر آتا ہے۔ اس طرح پھلاوئی کے مغرب میں 3 کلومیٹر کے فاصلے پر جانوئی اور مشرق میں مرناٹ کا نہایت خوبصورت گاؤں واقع ہے۔

مشرق میں بہنے والے 2 بڑے نالے، گجرنالہ اور سروالا نالہ دریائے نیلم میں گر کر اس کی زینت بڑھاتے ہیں۔ گجرنالہ استور کے گاؤں گشاٹ جبکہ سروالا نالہ استور کے گاؤں امیر ملک تک جاتا ہے۔

پھلاوئی سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کے ارد گرد 12 ڈھوکیں (چھوٹے گاؤں) آباد ہیں، جبکہ یہاں کی 95 فیصد آبادی شینا زبان بولتی ہے۔ گاؤں کو آباد کرنے والے مچک (شین) قبیلے کے لوگ 18ویں صدی میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔

وادی کے بیچوں بیچ بہتا سروالا نالہ—تصویر عبد النوربھٹی
وادی کے بیچوں بیچ بہتا سروالا نالہ—تصویر عبد النوربھٹی

یہ وادی جنگلات، معدنیات، نباتات اور آبی ذخائر اور جنگلی حیات سے مالا مال ہے۔ مقامی دوست خرم جمال شاہد کی کال پر مچک قبیلے کی دریافت شدہ 3 جھیلوں کا دیدار کرنے اگست میں پھلاوئی پہنچے۔

جب وہاں جانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس سے قبل ان جھیلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے مقامی لوگوں کے علاوہ کوئی وہاں نہیں گیا ہے۔ یہ جان کر وہاں جانے کی خوشی اور جوش دونوں ہی بڑھ گئے اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہلکی ہلکی بارش کی معیت میں پائن سیری سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور بالا سیری پہنچ گئے۔ مقامی دوستوں کے مطابق اس مرتبہ بارشیں اگست کے آخر تک جاری رہیں، یہی وجہ تھی کہ ابتداء سے ہی ہمیں ہائیکنگ میں مسائل کا سامنا رہا۔

پڑیاں کی عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے—تصویر عبد النوربھٹی
پڑیاں کی عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے—تصویر عبد النوربھٹی

سر والی ڈھوک زیادہ دور نہیں—تصویر اعجازبھٹی
سر والی ڈھوک زیادہ دور نہیں—تصویر اعجازبھٹی

سر والی ڈھوک کا خوبصورت منظر—تصویر:اعجازبھٹی
سر والی ڈھوک کا خوبصورت منظر—تصویر:اعجازبھٹی

کبھی ہلکی بارش تو کبھی ہلکی دھوپ، دونوں کی اس آنکھ مچولی نے سفر کا مزہ دوبالا کردیا تھا۔ سروالا نالہ کے ساتھ جاری رہنے والے اس سفر میں پہلے ’ٹھنڈا پانی‘ اور پھر ’بزراٹ‘ کے خوبصورت علاقے دیکھے، جس کے بعد کالابن کے گھنے جنگل ہمارے سامنے تھے۔ ایک مقامی دوست کے مطابق اس جنگل کا بیشتر حصہ کاٹا جاچکا ہے، حالانکہ ایک وقت تھا کہ جب یہ جنگل ریچھ اور چیتے جیسے کئی جانوروں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا اور مقامی آبادی بھی دن کے اجالے میں وہاں اکیلے جانے سے گریز کیا کرتی تھی۔ جنگل کی کٹائی سے جہاں علاقے کی خوبصورتی ماند پڑگئی ہے وہیں جنگلی حیات بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔

ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد بڑا گوژبیک، بچے بیک اور پھر زرگر بیک پہنچے۔ ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں بنا یہ گھر کبھی ایک زرگر کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔ تھکاوٹ اور شدید بھوک کے باعث کچھ دیر کے لیے سستانے کے لیے رکے، پھر بھوک کو مٹانے کے لیے نوڈلز بنائے اور ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

زرگر کی ڈھوک کے گرد نالہ انتہائی چوڑا ہوکر چھوٹی سی جھیل بن جاتا ہے۔ یہاں موجود خوبصورت اور وسیع چراہ گاہ کا نظارہ دل کو موہ لیتا ہے۔ یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر عمودی چڑھائی شروع ہوجاتی ہے۔

جانگ والی اور پڑیاں بیک ایسے مقامات ہیں جہاں سے سخت چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سامان کے ساتھ یہ چڑھائی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ابھی چڑھائی چڑھتے ہوئے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ شدید بارش برسنے لگی لہٰذا ایک مقامی چرواہے کی مدد سے ہم ایک غار میں کچھ دیر کے لیے رک گئے۔ لیکن سردی کی شدت کی وجہ سے تھکاوٹ کا زیادہ احساس ہونے لگا۔

موسلادھار برسات میں یہاں ٹریکنگ کرنا خطرے سے خالی نہیں—تصویر عبد النوربھٹی
موسلادھار برسات میں یہاں ٹریکنگ کرنا خطرے سے خالی نہیں—تصویر عبد النوربھٹی

ہائیکنگ اسٹکس پر باربی کیو کرنے کا ایک منفرد انداز—تصویر اعجازبھٹی
ہائیکنگ اسٹکس پر باربی کیو کرنے کا ایک منفرد انداز—تصویر اعجازبھٹی

جب بارش ہلکی ہوئی تو سفر کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا جو مسلسل سر والی بیک پہنچنے تک جاری رہا۔ سر والی بیک میں ہم نے مقامی طرزِ تعمیر کے مطابق بڑے پہاڑی پتھروں کی سلوں سے تیار کردہ ایک چھوٹی سی مسجد میں قیام کیا۔ مسجد کے سامنے ہی جھیل موجود ہے، اسی وجہ سے ہی اس مقام کو سر والی بیک پکارا جاتا ہے۔

یہاں کے نظارے ناقابلِ بیان ہیں۔ شاید ہی اتنا خوبصورت مقام اس سے پہلے کبھی میں نے دیکھا ہو۔ میرے نزدیک اس مقام کو جنت نظیر کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔

موسم کی شدت اور نہ تھمنے والی بارش کی وجہ سے ہم نے سروالی بیک پر ہی اپنی ٹریکنگ کا اختتام کردیا اور اگلے روز واپس پھلاوئی کی طرف نکل پڑے۔

کھلی چراگاہیں پھلاوئی کے حسن کا جھومر ہیں—تصویراعجازبھٹی
کھلی چراگاہیں پھلاوئی کے حسن کا جھومر ہیں—تصویراعجازبھٹی

یہاں کے نظارے ناقابلِ بیان ہیں—تصویر نصر احمد بھٹی
یہاں کے نظارے ناقابلِ بیان ہیں—تصویر نصر احمد بھٹی

کالا بن کا جنگل —تصویر اعجازبھٹی
کالا بن کا جنگل —تصویر اعجازبھٹی

پھلاوئی سے مچک جھیل تک تقریباً 15 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق جھیل کی اونچائی 16 ہزار فٹ سے زائد ہے۔ مقامی آبادی کے مطابق جولائی کے وسط یا اگست کے آخر میں اس وادی کا نظارہ بالکل ہی مختلف ہوتا ہے، یہاں آنے کے خواہشمند سیاحوں کو تجویز دینا چاہوں گا اس مقام کی ٹریکنگ کے لیے موزون موسم کا ہی انتخاب کریں۔

کالابن کا جنگل کبھی جنگلی حیات کا پسندیدہ مسکن تھا— تصویر اعجازبھٹی
کالابن کا جنگل کبھی جنگلی حیات کا پسندیدہ مسکن تھا— تصویر اعجازبھٹی

یہاں کے خوبصورت اور دلکش نظاروں کی طرح یہاں کی مقامی آبادی کی مہمان نوازی بھی دل کو کافی بھاتی ہے۔ اپنے قدیم رسم و رواج، مہمان نوازی، بہادری اور سخت جان کی بدولت شینا قبیلے کے مہمان بن کر پھلاوئی کی وادی میں آنا ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ مہمان نوازی کا وصف مقامی آباد کا طرہ امتیاز ہے۔

مچک جھیل کی عمودی چڑھائی سے پہلے بڑی ٹھوکی کے قرب میں بہتی آبشاریں نظر آئیں —تصویر خرم جمال شاہد
مچک جھیل کی عمودی چڑھائی سے پہلے بڑی ٹھوکی کے قرب میں بہتی آبشاریں نظر آئیں —تصویر خرم جمال شاہد

مچک جھیلوں میں سے وسطی جھیل کی تصویر —خرم جمال شاہد
مچک جھیلوں میں سے وسطی جھیل کی تصویر —خرم جمال شاہد

لیکن یہاں سب کچھ اچھا نہیں، بلکہ ہمارے دوست کے مطابق مقامی آبادی کو کئی مسائل کا سامنا ہے، پھلاوئی میں فرسٹ ایڈ (فوری طبی امداد) فراہم کرنے کے لیے صرف ایک ہی پوسٹ ہے جو اردگرد کی 10 ہزار کی آبادی والے علاقے کے لیے ناکافی ہے۔

جس کی وجہ سے کسی حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں زخمیوں یا مریضوں کو مظفرآباد لے جانا پڑتا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طویل سفر کرنے کی وجہ سے کئی مریض اور زخمی راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ لیکن بی ایچ یو سینٹرز یا بنیادی مرکز صحت کے قیام سے اس خوبصورت وادی کے مہمان نواز لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جاسکتی ہیں۔


لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

نصر احمد بھٹی

لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (33) بند ہیں

رمضان رفیق May 26, 2018 04:24pm
واہ بہت خوبصورت، آپ کی تحریر اور تصاویر نے دل خوش کردیا، کاش اے کاش ڈان ٹیم ان اردو تحاریر کو انگلش میں ترجمہ کرنے کا آغاز کردے، یہ مقامات دنیا کو دکھانے والے ہیں،
Khalid khan May 26, 2018 04:27pm
Very nice and attractive valley pics.
sarmad May 26, 2018 06:20pm
boht aala. you are very lucky.
EHMED May 26, 2018 10:26pm
Dear Bhatti Sahib, Good & informative blog, aptly loaded with nice pictures and basic details. Good luck & bon voyage
Muddasar Hanif May 27, 2018 12:24am
Sir ... Hats offff
Muddasar Hanif May 27, 2018 12:49am
Sir , You are so creative. I always love getting your perspective on things. You consistently bring your all and I truly appreciate that.
Asif abrar May 27, 2018 01:45am
Bohat umda
ali May 27, 2018 02:49am
nasar bhai bohat achi tehreer hai aur tsaweer ny tu kamal kar diya. acha laga aap ny maqami aabdi ka intro aur problems ka hi bataya jo aksar writer miss kar dety hain. yaha Dawn ka hum shukar guzar hain jo yeh logs publish krty hain, aik guzarish hai her writer sy ke woh apni her tehreer main safae, muqami mahool aur culture ki hifazat ka zaroor likha karain. yeh aksar dekha gya hai visitors local culture aur safee ka khayal nahi krty.
خرم جمال شاہد May 27, 2018 08:23am
نصر بھٹی صاحب نے بہت محنت کر کے یہ سفری کہانی مرتب کی ہے اور پھولاوئی کی خوبصورتی اور مسائل کو اجاگر کیا ہے. بہت شکریہ
new delhi May 27, 2018 10:13am
Cannot read this. But, was beholden. What a lovely land. Reminded of the Pir Panjal range this side. Even Uttarakhand. We are all blessed by the Himalayas.
Adeel Saleem May 27, 2018 10:31am
buhut umdah
محمد کاشف علی May 27, 2018 12:12pm
خوبصورت مقام،خوبصورت لوگ اور خوبصورت ہی تحریر و تصاویر
m abdullah May 27, 2018 02:30pm
waoooooo! i,m shooked we r pakistani,s and we cant see this kind of places this is totally heaven buddy.thank u for sharing those beautiful pics and this knowledge with us. may god give u a happy life thank u and again these pics are mind blowing.
m abdullah May 27, 2018 02:33pm
mind blowing pics and artical is full of suprises and information love those pic its like heaven buddy well done!!!
Mudabir May 27, 2018 03:01pm
بہت اچھا بلاگ لکھا ہے۔ پڑھ ک مزا آیا۔اور اس جگہ جانے کی بہت خواہش اجاگر کی ہے آپ نے۔ اور تصاویرتو بہت ہی اعلی ہیں۔ کمال کی جگہ ہے۔
مہر محمد حنیف May 27, 2018 04:42pm
بہت اچھا لگا پڑھ کر اور میرے علم میں اضافہ بھی ہوا کہ میرا پیارا ملک کسی جنت سے کم نہیں
HonorBright May 27, 2018 05:37pm
Skipped reading; pictures only.. ;)
نصر بھٹی May 27, 2018 05:41pm
@Muddasar Hanif Jazkallah Sir
نصر بھٹی May 27, 2018 05:44pm
@Ali جی بالکل صحیح فرمایا ۔ چند ایسے عناصر ہیں جنہیں سمجھنے ضرورت ہے کہ ان صاف ستھری قدرت کے رنگ سے رنگین علاقوں کو صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس اہم امر کی طرف توجہ دلانے کا بہت مشکورہوں
نصر بھٹی May 27, 2018 05:45pm
@خرم جمال شاہد جزاکم اللہ ۔ جسیے آپ لوگ خوب سیرت ہیں ایسے ہی یہ وادی بھی اتنی ہی خوبصورت ہے
نصر بھٹی May 27, 2018 05:46pm
@new delhi Absolutely
Awab ahmad May 27, 2018 06:54pm
Stunning beauty
Awab ahmad May 27, 2018 06:57pm
Stunning beauty. I want to go there
Awab ahmad May 27, 2018 06:58pm
Stunning beauty.I want to go there
عبدالباسط بھٹی May 28, 2018 04:55am
ماشااللّه زبردست نصر صاحب تحریر پڑھ کر مزا ہی آگیا۔ بہت ہی خوبصورت انداز میں اس خوبصورتی کو بیان کیا ہے ابھی حال میں ہی شاردا گئ خوبصورتی لا جواب ہےاور ان ایریا میں پاک آرمی کو سلام جہنوں نے حتی الوسع علاقے کے مکینوں کو سہولیات میسر کی ہیں
HZ May 28, 2018 07:44am
Beautiful story and stunning pictures. Hope this quaint little town has rid itself the stigma of 2013 episode of nanga parbat
نصر بھٹی May 28, 2018 02:04pm
@رمضان رفیق Jazakallah ,well said sir
Mian razi ahmad May 28, 2018 02:05pm
میری رائے میں یہ آرٹیکل نئے ہائیکرز کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ بھٹی صاحب نے نہایت دلکش انداز میں قدرت کا نقشہ الفاظ میں کھینچا ہے۔ اور ساتھ ہی قدرت کے رنگ تصویروں میں قید کئے ہیں۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔
نصر بھٹی May 28, 2018 02:15pm
@HZ There s nothing like it and trust me these people are very hospitable and always caring
rashid May 28, 2018 03:01pm
beauty at his best.
صباح الظفر ملک May 28, 2018 03:37pm
بہت عمدہ نصر بھٹی صاحب۔ ایسا اچھا اور تفصیلی مضمون پڑھ کر ایسے لگ رہا تھا جیسے وہاں کی سیر کر رہا ہوں۔ زبردست کاوش زبردست تحریر
صباح الظفر ملک May 28, 2018 03:38pm
تصاویر کے تو کیا کہنے۔۔۔
Shahab Hussain May 29, 2018 10:40am
Very very nice Article and amazing places you have captured thanx for capturing wonderful pictures for us.