• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

زندگی بچ سکتی ہے . . .

سندھ کی آبادی 5کروڑ کے قریب ہے، یہاں بین الاقوامی معیار کی صرف 500 ایمبولینس درکار ہیں، صحت کا بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
شائع November 7, 2018 اپ ڈیٹ November 9, 2018

2017ء کی بات ہے جب خبر رساں اداروں کے ذریعے یہ بریکنگ نیوز عوام تک پہنچی کہ کراچی میں نجی ادارے کی ایمبولینس کے ذریعے ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، بعد ازاں پولیس نے کارروائی کرکے اغوا کاروں کو گرفتار بھی کرلیا۔

یہ بھی سامنے آیا کہ ایمبولینس ایک سیاسی جماعت کے عوامی خدمت کے شعبے کی تھی، جبکہ اغوا میں ایمبولینس سروس کے ڈرائیور اور دیگر اہلکار ملوث تھے، ایسے واقعات سے عوام نہ صرف عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کا ایسے اداروں سے اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے، جو فلاح کا کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ایمبولینس کے ذریعے اغوا کا واقعہ انہونا ضرور تھا، لیکن اتفاق سے پولیس کی بروقت کارروائی نے واردات کو ناکام بنا دیا۔ لیکن اس کارروائی سے متعلق ایک پولیس افسر کے منہ سے ادا ہونے والے جملے نے حیرت میں ڈال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں جو گاڑیاں ایمبولینس کے نام پر چل رہی ہے، وہ اس قدر بدتر حالت میں ہوتی ہیں کہ ان میں واقعی واردات کرنا آسان جبکہ کسی جان کو بچانا مشکل ہوتا ہے۔

لیکن حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سڑکوں پر دوڑنے والی ہر اس گاڑی کو ایمبولینس سمجھتے ہیں، جس کے اوپر ایک ہوٹر لگا ہوا ہو اور وہ شور مچاتی ہوئی، لال نیلی بتی جلا کر سڑک سے گزر رہی ہو، حالانکہ اس کے اندر صرف ایک اسٹریچر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بات تلخ ہے، لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ گاڑیاں جنہیں ہم ایمبولینس سمجھتے ہیں، یہ ہرگز ہرگز ایمبولینس نہیں ہیں، بلکہ یہ تو محض زخمیوں یا مردوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام کرتی ہیں۔

ایمبولینس درحقیقت اس گاڑی کا نام ہونا چاہیے تھا، جو انسانی زندگی بچانے میں معاونت کرے، جس میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح ابتدائی طبی امداد دینے والا تربیت یافتہ عملہ موجود ہو، جو ایمبولینس میں موجود ادویات اور مشینوں کے ذریعے مریض کو وہ تمام فوری طبی امداد دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو اس کی زندگی کو محفوظ بنا سکیں، اور خود کار نظام سے اس کی ابتدائی رپورٹ ہسپتال کو بذریعہ انٹرنیٹ ارسال کردے، تاکہ جب مریض ہسپتال پہنچے تو وہاں موجود ڈاکٹرز پہلے سے باخبر ہوں کہ کونسا مریض آ رہا ہے اور اس کی کیفیت کیا ہے اور اس کی طبیعت کے اعتباد سے اس کے علاج کی پہلے سے ہی ساری تیاری ہوچکی ہو۔

سڑکوں پر نظر آنے والی ایمبولینسز میں بنیادی سہولیات نہیں ہوتی، عمومی طور پر ایسی گاڑیاں لاشوں کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتی ہیں— فوٹو شٹر اسٹاک
سڑکوں پر نظر آنے والی ایمبولینسز میں بنیادی سہولیات نہیں ہوتی، عمومی طور پر ایسی گاڑیاں لاشوں کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتی ہیں— فوٹو شٹر اسٹاک

کراچی کو جہاں ایک طرف ملک کی معیشت میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا شہر سمجھا مانا جاتا ہے، وہیں اس کی آبادی دنیا کے کئی ممالک سے بڑھ چکی ہے۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی کے شہر میں روزانہ 4 ہزار حادثات یا ہنگامی نوعیت کے واقعات ہوتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری ادارے امن فاونڈیشن کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان 4 ہزار حادثات یا ہنگامی حالت کے واقعات میں سے فقط 1600 واقعات میں ایمبولینس دستیاب ہو پاتی ہے، دیگر 2400 حادثات یا واقعات میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی ہسپتالوں تک پہنچتے ہیں۔ ان واقعات میں شدید اور عمومی نوعیت دونوں ہی شامل ہیں۔

ان اعداد و شمار کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ان 2400 افراد کا جائزہ لیا جائے جو اپنی مدد آپ کے تحت ہنگامی حالات میں طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ ان میں 2100 افراد عمومی زخمی یا مریض ہوتے ہیں جبکہ 300 افراد ایسے ہوتے ہیں جن کو شدید نوعیت کے متاثرہ افراد کا کہا جاسکتا ہے، یعنی جنہیں ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ایمبولینس میں طبی امداد دی جانی چاہیے، لیکن ایمبولینس کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایسے افراد کے اہل خانہ انہیں ذاتی گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

دوسری جانب جائزہ لیا جائے تو 1600 افراد جن کو ایمبولینس کے ذریعے ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے، ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 800 افراد شدید نوعیت جبکہ 800 افراد عمومی نوعیت کی طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں لے جائے جاتے ہیں۔

امن فاؤنڈیشن یہ دعویٰ کرتی ہے کہ شہر میں چند ایک نجی ہسپتالوں کے علاوہ صرف ان کے پاس زندگی بچانے والی ایمبولینسز (Life Saving Ambulances) ہیں، جن میں شدید نوعیت کی طبی امداد کے منتظر 270 افراد ہی یومیہ منتقل ہوپاتے ہیں، یوں 530 افراد دیگر ایمبولینسز کے ذریعے ہسپتالوں تک پہنچائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اب موجود اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یومیہ 830 افراد ایسے نظر آتے ہیں جن کو شدید نوعیت کی طبی امداد (Critical Emergency Response) کی ضرورت ہوتی ہے، جو ایمبولینس میں مریض کو رکھتے ہی شروع ہوجانی چاہیے اور ہسپتال پہنچتے ہی باقاعدہ علاج ہوسکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو پاتا۔ اب سوچیے ذرا کہ اگر سب سے بڑے شہر کی صورتحال یہ ہے، تو سندھ میں دیگر شہروں کا حال کیا ہوگا۔

18ویں ترمیم کے بعد چونکہ صحت صوبائی معاملہ ہے, لہٰذا ابصوبوں کو ہی ایسے اقدامات کرنے ہیں کہ شہریوں کو بہتر سہولیات مل سکیں۔ پنجاب میں 1122 ماڈل مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب ایدھی کا ایک غیر سرکاری ادارہ زیادہ بڑی مثال ہے، جو ایک شخص اکیلا ہی ملک گیر سطح تک لے گیا۔ اگر ریاست ایدھی جیسے بڑے اداروں کی استعداد بہتر کرے، ان کی ایمبولینسز کو ہی زندگی بچانے والی ایمبولینس بنا دے جبکہ اس کی نگرانی سرکاری اور غیر سرکاری مشترکہ طور پر کی جائے، تو شاید بہت سے لوگوں کی زندگی بچ سکے۔

اب ریاست کے لیے ممکن نہیں کہ خود ہی تمام بوجھ اٹھائے، دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر فلاحی ریاست ہونے میں مدد لی جاسکتی ہے۔ سندھ میں ایدھی، چھیپا، الخدمت فاؤندیشن اور امن فاؤنڈیشن کی استعداد کو بہتر کرکے سرکاری نگرانی میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا جاسکتا ہے، جس میں عملہ بھی تربیت یافتہ ہو جبکہ ایمبولینس میں تمام سہولیات بھی فراہم کردی جائیں۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو شہریوں کو مزید بہتر انداز میں سہولیات مل سکیں گی۔

دوسری جانب غور کیا جائے تو یہ فلاحی ادارے ویسے تو اپنی استعداد کے مطابق عوامی خدمت کر رہے ہیں لیکن ان میں کام کرنے والے افراد اکثر مالی مسائل کا شکار رہتے ہیں جبکہ کوئی ان افراد کے لیے آواز نہیں اٹھاتا، دوسروں کی مدد کرنے والوں کی بھی وہ تمام ضروریات ہوتی ہیں جو ایک عام شخص کی ہوں، اس لیے ڈرائیور حضرات یا گاڑی میں موجود رضا کاروں کو لاش اٹھا کر لانے پر 500 روپے اضافی دینے کے بجائے، مناسب تنخواہ دی جانی چاہیے جبکہ یہ 500 روپے اضافی کی دوڑ ختم کرکے ان افراد کو خدمت انسانی کی تربیت دی جانی چاہیے۔

دوسری جانب شہریوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جن کو کسی حادثے یا ضرورت کے وقت ایمبولینس میسر آگئی ہے، تو یہ غنیمت ہے، کیونکہ 50 فیصد سے زائد ضرورت مند افراد ایمبولینس سروس سے ضرورت کے وقت محروم رہتے ہیں، اس لیے ایمبولینس کے عملے سے تعاون کریں کیونکہ انہیں راستہ دینا ایک زندگی بچانے کے مترادف ہے۔ جب بھی ایمبولینس کے سائرن کانوں میں پہنچے، اسی وقت مرکزی شاہراہ پر فاسٹ ٹریک اس کے لیے خالی کر دینا چاہیے، عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے جب ایمبولینس کسی گاڑی کے بالکل پیچھے آجائے تب ہی گاڑی کو سامنے سے ہٹا کر راستہ دینے کی کوشش شروع کی جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں ایمبولینس کو پہلے سے ہی راستہ دے دیا جاتا ہے، تو وہاں پر قانون عمل درآمد بھی اسی شدت سے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایمبولینس کے راستے میں آپ کی گاڑی آگئی تو عمر بھر کے لیے اآپ ڈرائیونگ لائسنس سے محروم ہوسکتے ہیں۔

امن فاؤنڈیشن کے ہیڈ آف کمیونیکیشنز اینڈ آپریشنز خاقان سکندر بتاتے ہیں کہ تمام سہولیات سے آراستہ ایمبولینس 70لاکھ روپے میں تیار کی جاتی ہے اور اس میں ایک ڈرائیور، نرس اور ڈاکٹر کی موجودگی کا سالانہ خرچ بھی 70 لاکھ روپے ہے۔

صحت کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق ایک لاکھ افراد پر سہولیات سے آراستہ اور زندگی بچانے والی ایک ایمبولینس درکار ہوتی ہے۔ سندھ کی آبادی 5 کروڑ ہے، یوں 500 ایمبولینسز پورے صوبے کے لیے کافی ہوں گی، جس کی مجموعی لاگت 6 ارب روپے بنتی ہے جبکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ 19- 2018 میں صوبائی بجٹ میں صحت کا حصہ 96 ارب روپے رکھا گیا، آئندہ سالوں میں اس بجٹ میں اضافہ ہی ہونا ہے، اگر صوبائی حکومت سالانہ 100 ایمبولینسز کے ذریعے یہ منصوبہ شروع کرے تو جلدی ہی سندھ کے ہر علاقے میں ایک بین الاقوامی سطح کی ایمبولینس سروس دستیاب ہوگی۔

صحت کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق ایک لاکھ افراد کے لیے ایک زندگی بچانے والی ایمبولینس ہونی چاہیے — فوٹو شٹر اسٹاک
صحت کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق ایک لاکھ افراد کے لیے ایک زندگی بچانے والی ایمبولینس ہونی چاہیے — فوٹو شٹر اسٹاک