پاکستان کی مدر ٹریسا کے نام سے مشہور ڈاکٹر رتھ فاؤ کا مکمل نام رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ تھا۔
وہ جرمنی کے صوبے زاکسن کے چھوٹے سے گاؤں لائپزگ میں 9 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئیں، وہ ابھی محض 10 سال کی ہی تھیں کہ جنگ عظیم دوئم کا آغاز ہوا، انہوں نے کم عمری میں ہی بھیانک حالات دیکھے۔
جنگ عظیم دوئم کا آغاز کرنے والے ملک جرمنی میں پیدا ہونے والی رتھ کیتھیرینا مارتھا نے 1939 سے 1945 تک 10 سے 16 سال کی عمر میں ظلم و ستم دیکھا۔
جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد ہی ان کے ملک کو امریکا اور روس نے مشرقی اور جنوبی حصے میں تقسیم کر دیا تھا اور دیگر جرمن لوگوں کی طرح رتھ فاؤ نے بھی مشکلات کا سامنا کیا۔
رتھ کیتھرینا جرمنی کے مشرقی حصے میں رہ گئی تھیں، جو روس کے زیر تسلط تھا، وہاں کے حالات بہتر نہیں تھے، اس لیے وہ کسی نہ کسی طرح 1948 میں مشرقی حصے سے مغربی حصے منتقل ہوئیں، جو امریکا کے زیر قبضہ تھا۔
رتھ کیتھرینا فاؤ نے وہیں تعلیم حاصل کی، 1950 میں جدید تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی انہیں سکون نہ ملا اور ان کا دل بے قرار رہنے لگا۔
ظلم و ستم ، بیماری، بھوک اور قتل و غارت کو کم عمری میں دیکھنے والی رتھ کیتھرینا فاؤ چاہتی تھیں کہ وہ اپنی زندگی نادار اور بیمار لوگوں کی خدمت میں گزار دیں، اس لیے وہ ابتدائی طور پر راہبہ بنیں، جس کے بعد انہوں نے سماجی تنظیم [’ڈاٹر آف دی ہارٹ میری‘] (ڈی ایچ ایم) کی رکنیت بھی حاصل کی۔
اس تنظیم نے اگلے چند سال بعد غربت اور بیماریوں کا سامنا کرنے والے افراد کی خدمت کےلیے رتھ کیتھیرینا فاؤ کو جنوبی ایشیا بھیجنے کا پروگرام بنایا۔
ڈاکٹر رتھ کیتھرینا فاؤ کو 1960 میں تنظیم نے نئے آزاد ہونے والے ملک بھارت بھیجنے کے لیے تیار کیا، تاہم وہاں کا ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے انہیں نئے بننے والے ملک پاکستان بھیجا گیا اور پھر وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ اگرچہ جرمنی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں تاہم ان کی شناخت ایک پاکستانی سماجی کارکن اور پاکستانی مدر ٹریسا کے طور پر ہوتی ہے۔
وہ نہ صرف پاکستان میں جذام (کوڑھ) کے مرض کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے والے ادارے ’میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر‘ (ایم ایل اے سی) کی بانی تھیں، بلکہ وہ جرمنی کے ادارے ’ڈاٹر آف دی ہارٹ میری‘ (ڈی ایچ ایم) کی بھی مرتے دم تک رکن رہیں۔
یہ تنظیم دنیا کی قدیم ترین فلاحی و سماجی تنظیموں میں سے ایک ہے، جس کا قیام انقلاب فرانس کے دور میں 1790 میں عیسائیت کے پیروکاروں نے کیا۔
ابتدائی طور پر اس تنظیم نے صرف فرانس میں ہی انسانی بھلائی کے لیے خدمات دیں، جس کے بعد اس تنظیم کے کاموں کا دائرہ یورپ کے دیگر ممالک تک پھیلا۔
جنگ عظیم اول اور دوئم کے بعد اس تنظیم پر سماج میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے وزن بڑھا تو اس نے اپنے کام کے دائرہ کار کو بھی وسعت دی۔
اس تنظیم نے اپنے رضاکاروں کی تعداد کو بڑھایا اور ہر اس جگہ پر اپنے کارکنان بھیجے، جہاں کسی کو کارکنان کی ضرورت پڑتی۔
اسی سلسلے کے تحت ہی اس تنظیم نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان بھیجا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان بھیجنے والی تنظیم ڈاٹر آف دی ہارٹ میری اب بھی دنیا کے کئی ممالک میں رنگ، نسل، مذہب اور صنف کی تفریق کے بغیر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور رتھ فاؤ بھی مرتے تک اس تنظیم کی رکن رہیں۔
پاکستان آمد
ڈاکٹر رتھ فاؤ 8 مارچ 1960 کو پاکستان پہنچیں اور آتے ہی انہوں نے جذام پر قابو پانے کے لیے کام شروع کردیا۔
اگلے 2 سال بعد 1962 میں ڈاکٹر رتھ کھیتھرینا فاؤ نے جذام کا درست طریقے سے علاج کرنے کے لیے طبی مرکز کھولا، تاہم انہیں ابتدائی طور پر کچھ مسائل کا سامنا رہا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھر ان کا ساتھ دینے کے لیے مقامی شخصیات بھی سامنے آئیں۔
1963 تک ڈاکٹر رتھ فاؤ کراچی میں 80 بستروں پر مشتمل لیپروسی سینٹر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئیں، اگلے 2 سال میں انہوں نے لیپروسی کے مرض کا علاج کرنے کے لیے رضا کاروں کو تربیت دینے کے لیے ’نیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ آف لیپروسی‘ قائم کیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان میں جذام کے مرض کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کم وسائل کے باوجود انتہائی تیز رفتاری سے کام کیا، 1966 میں انہوں نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں سمیت خیبر پختونخوا (اُس وقت کے صوبے این ڈبلیو ایف پی) میں بھی لیپروسی سینٹر بنائے، 1967 میں انہوں نے آزاد کشمیر میں بھی سینٹرز کا قیام شروع کر دیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو تیزی سے جذام پر قابو پانے کے لیے کام کرنے پر پہلی بار 1968 میں جرمنی کی جانب سے ’دی آرڈر آف دی کراس‘ ایوارڈ دیا گیا، 1969 میں انہیں حکومت پاکستان نے بھی ’ستارہ قائد اعظم‘ سے نوازا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے انسانیت کی خدمت جاری رکھی اور 1979 میں بلوچستان میں بھی لیپروسی سینٹر قائم کیا، ایک جانب جہاں وہ جذام کے مرض سے نبرد آزما مریضوں کی مدد گار بنیں، وہیں انہوں نے جذام کے بعد ’ٹی بی‘ پر قابو پانے کے لیے بھی کوششیں شروع کیں اور 1975 میں ٹی بی کنٹرول سروس شروع کی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1978 میں حکومت پاکستان نے ’ہلال امتیاز‘ سے نوازا اور پھر 1979 میں انہیں حکومت نے لیپروسی کے وفاقی مشیر کے عہدے پر بھی تعینات کیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی کوششوں کے باعث ہی 1983 میں جذام کے علاج کے لیے جدید طریقے ’ملٹی ڈرگ تھراپی‘ کو متعارف کرایا گیا، پاکستان میں خدمات پر 1985 میں انہیں جرمنی کی جانب سے ’دی کمانڈرس کراس آف دی آرڈر آف میرٹ ود اسٹار‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے 1987 میں ٹی بی اورجذام سے متاثرہ مریضوں کے بینائی سے محروم ہونے کے علاج کی سروس شروع کی اور اگلے ہی سال ان بیماریوں سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے ’ٹو لائیٹ اے کینڈل‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔
حکومت پاکستان نے 1989 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو ’ہلال پاکستان‘ ایوارڈ سے بھی نوازا، پاکستان اور جرمنی ہی نہیں کئی دیگر ممالک نے بھی ان کی خدمات کو سراہا، 1991 میں امریکا کی ایک یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی، اسی سال انہیں جرمنی اور آسٹریا کی یونیورسٹیز نے بھی اعزازی سندیں جاری کیں۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے 1993 میں خیبر پختونخوا (اُس وقت کے این ڈبلیو ایف پی) میں امراض چشم کے علاج کے لیے سروس کا آغاز کیا۔
اگلے ہی سال 1994 میں انہیں حکومت آسٹریا کی جانب سے بھی ایوارڈ دیا گیا۔
پاکستان اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کے لیے 1996 کا سال سے سب سے اہم رہا، کیوں کہ اس سال عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو ’جذام فری‘ ملک قرار دیا۔
پاکستان کو جذام فری ملک قرار دیے جانے کے بعد بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات نہیں رکیں اور انہوں نے اگلے ہی سال 1997 میں پاکستان بھر سے لپروسی کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کام کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو ان کی خدمات کے عوض 2002 میں فلپائن کی حکومت کی جانب سے بھی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2014 میں انہیں جرمنی کی جانب سے ایک اور ایوارڈ بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے زندگی کے آخری ایام تک انسانی خدمت اور کام کو ترجیح دی جبکہ دنیا سے کوچ کرنے سے ایک سال قبل 2016 میں انہوں نے بچوں کی پیدائش، ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے منفرد پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
پاکستان کے لیے سال 2017 برا ثابت ہوا اور 10 اگست کو ڈاکٹر رتھ فاؤ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔
اپنی محسن کی موت پر پوری قوم افسردہ دکھائی دی جبکہ حکومت نے انہیں مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری رسومات کراچی کے تاریخی ’سینٹ پیٹرک چرچ‘ میں ادا کی گئیں، جس میں اعلیٰ سرکاری شخصیات سے سمیت عسکری قیادت نے بھی شرکت کی، جب کہ عوام کی کثیر تعداد نے بھی اپنی محسن کی آخری رسومات میں شرکت کی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو کراچی کے تاریخی ’گورا قبرستان‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔
اگرچہ اس قبرستان میں سابق وفاقی وزیر جاوید مائیکل سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات سپرد خاک ہیں، تاہم قبرستان کی انتظامیہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی تدفین کو اپنا اعزاز سمجھتی ہے۔
گورا قبرستان میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی قبر سادہ طریقے سے بنائی گئی ہے، تاہم اس قبر کو پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل قبر کا اعزاز حاصل ہے۔
میری ایڈیلیڈ سینٹر نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی قبر کے ماربل کے اوپر کیو آر کوڈ کنندا کیا ہے، جسے کسی بھی اسمارٹ فون پر اسکین کرنے سے موبائل صارف ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی اور خدمات سے متعلق بنائے گئے خصوصی گوگل دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں اس کیو آر کوڈ کی تصویر کو اسکین کرکے بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ سے متعلق دستاویزات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
کوڈ اسکین کرنے کے بعد کیا معلومات حاصل کی جا سکتی ہے؟
اس کوڈ کو اسکین کرنے کے بعد کوئی بھی شخص گوگل ڈرائیو کے اس مواد تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہے، جس میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی سوانح حیات، ان کی خدمات، انہیں ملنے والے ایوارڈز اور ان کے انتقال پر ملکی و غیر ملکی اہم شخصیات اور تنظیموں کے تعزیتی بیانات کو پڑھا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی اور خدمات پر بنائی گئی خصوصی ویڈیوز بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
گوگل ڈرائیو میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو ملنے والے ایوارڈز کی تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
میری ایڈیلیڈ سینٹر کیا ہے؟
اس سینٹر کا قیام ڈاکٹر رتھ فاؤ نے 1960 میں کیا، صرف 80 بستروں سے شروع ہونے والا یہ سینٹر آج ملک کا سب سے بڑا اور واحد جزام کے علاج کا سینٹر ہے۔
تاہم ڈاکٹر رتھ فاؤ کی کوششوں سے اس سینٹر نے نہ صرف کراچی بلکہ سندھ کے دیگر علاقوں سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں بھی معالج سینٹر کھولے ہیں۔
میری ایڈیلیڈ سینٹر کے تحت صرف کراچی میں ہی 11 سینٹر کام کر رہے ہیں، جب کہ سندھ کے دیگر شہروں میں اس کے مزید 13 سینٹرز بھی کام کر رہے ہیں۔
پنجاب میں اس کے مجموعی طور پر 19 سینٹرز کام کر رہے ہیں اور اس صوبے کو میری ایڈیلیڈ نے انتظامی بنیادوں پر 2 حصوں یعنی راولپنڈی اور ہزارہ ڈویژن میں تقسیم کر رکھا ہے۔
میری ایڈیلیڈ سینٹر کے سینٹرز جن صوبوں اور علاقوں میں زیادہ ہیں ان میں خیبرپختونخوا اور فاٹا میں شامل ہیں، جہاں اس کے سینٹرز کی تعداد 36 ہے۔
بلوچستان میں اس کے 16 سینٹرز کام کر رہے ہیں، جب کہ گلگت بلتستان میں بھی اس کے 16 سینٹرز کام کر رہے ہیں۔
میری ایڈیلیڈ کے سب سے زیادہ سینٹرز آزاد کشمیر میں ہیں، جہاں ان کی تعداد 50 ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ میری ایڈیلیڈ سینٹر کے تحت پاکستان بھر میں صرف جذام ہی نہیں بلکہ ٹی بی، امراض چشم سمیت 6 سے زائد موضی امراض کا علاج ہوتا ہے، جب کہ اس کے تحت ملک بھر میں میڈیکل عملے کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔
میری ایڈیلیڈ کو جرمنی سمیت دیگر ممالک، حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کی فنڈنگ کے علاوہ مختلف اداروں اور افراد کی معاونت بھی حاصل رہتی ہے۔
اس ادارے اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کی وجہ سے ہی پاکستان کو جذام فری ملک قرار دیا گیا۔
اس ادارے کے مطابق اس وقت سالانہ پاکستان بھر میں 500 تک مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔
میری ایڈیلیڈ سینٹر کے مطابق گزشتہ 57 سالوں میں پاکستان بھر میں 57 ہزار سے زائد مریض رجسٹرڈ ہوئے۔
تصاویر : وقار محمد خان
تبصرے (7) بند ہیں