کورونا نے ذہنی امراض سے متعلق ہماری سنجیدگی کو مزید آشکار کردیا
کورونا وائرس کے بحران سے جنم لینے والے ذہنی صحت کے مسائل کا سیلابی ریلا آنے کو ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے ہماری کوئی تیاری نہیں ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ذہنی صحت کے شعبے میں کبھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مثلاً بدنامی کا داغ، انسانی وسائل کا فقدان، ضروریات کی گہری سمجھ میں کھوٹ، اس طرف دھیان دلانے کی منظم کوششوں میں کمی اور لیڈران کی شعبہ صحت میں عدم توجہی، وہ اہم اور بڑی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ذہنی صحتِ عامہ کی ضروریات میں نہ تو کبھی دلچسپی لی گئی، نہ ان کی اہمیت اجاگر ہوئی اور یہ مسئلہ بے دھیانی کی زد میں ہی رہا۔ اب یہی مسئلہ ہمارے لیے بحران کی وجہ بنے گا۔
دنیا بھر میں ذہنی صحت سے متعلق تفریقات پائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ترقی یافتہ نظامِ صحت میں بھی سروسز کا فقدان پایا جاتا ہے، انشورنس کی باز ادائیگیوں کا معاملہ بھی ایک جنگِ مسلسل بنا ہوا ہے، اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی زبردست کمی پائی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں کینیڈا نے امریکا پر سبقت کیسے حاصل کی؟
عالمی اقتصادی فورم، عالمی بینک اور عالمی ادارہ صحت نے خراب ذہنی صحت کی عالمی وبا سے متعلق خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اور بلاشبہ ذہنی بیماریاں ہی عالمی امراض کے بوجھ کا ایک بڑا حصہ ثابت ہو رہی ہیں، اور ان کی شرح کینسر یا امراضِ قلب کی شرح کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا سے قبل، یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ بحران 2030ء تک آتے آتے عالمی معیشت کو 16 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچائے گا۔ عالمی وبا کی شدت سے جہاں ان اندازوں میں تبدیلی آئے گی وہیں دنیا کے بیشتر حصوں میں ذہنی صحت کے منصوبے ضرورت کے مقابلے میں کم ہی رہے ہیں۔
پاکستان میں صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہے، اور اب جب کورونا وائرس کا عفریت ہمارے سر پر کھڑا ہے ایسے میں ہم ایک آفت کی چوٹی کے آخری کنارے پر آکھڑے ہوئے ہیں جو افسوس کے ساتھ ہماری اپنی کوتاہیوں کا ثمر ہے۔
آئیے اب اعداد و شمار کو ذرا کھنگالتے ہیں۔ پاکستان کے 114 میڈیکل کالجوں میں سے صرف چند ایک ہی ایسے کالج ہیں جہاں اس مضمون میں قابلیت طلب کی جاتی ہے۔ زیادہ ترکالجوں میں فائنل پروفیشنل امتحان میں طلبہ کو ذہنی امراض سے متعلق صرف ایک ہی آپشنل سوال دیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال اپنی تعلیم مکمل کرنے والے تقریباً 14 ہزار ڈاکٹروں میں سے ایک بڑی اکثریت اس مرض میں مبتلہ مریضوں کی اسکریننگ کے لیے یا ان مریضوں کو سنبھالنے بلکہ بنیادی سطح کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے مطلوب معنی خیز علم یا صلاحیتوں سے بھی محروم ہوتی ہے۔
ہمارے لیے اس مسئلے کے ذیلی اثرات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ دماغی امراض میں قابلیت کے فقدان کا مطلب یہ ہوا کہ جو ڈاکٹر پورے ملک میں جنرل فزیشن کے طور پر اپنے کلینک کھولتے ہیں ان کے پاس ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار مریضوں کو دیکھنے کی مناسب صلاحیت اور قابلیت ہی نہیں ہوتی۔
وہ اکثر ایسے بہت سے دوا ساز ایجنٹوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں جو ان کے بنیادی علم کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح مختلف دوائیوں کو مشہور کرنے، ایک مرض کے لیے بلاضرورت بہت سی دوائیں دینے اور پیشے کے ساتھ صریح بددنیاتی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیے: ’میں 3، 4 لاکھ کما لیتی تھیں، لیکن کورونا کے بعد ایسا نہیں ہوسکے گا‘
تدریسی عمل کے دوران اس مضمون کو معمولی توجہ ملنے سے بھی ان کو یہ پیغام جاتا ہے کہ ذہنی صحت زیادہ اہمیت کا حامل شعبہ نہیں یا پھر متروک سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ شعبہ میڈیسن سے وابستہ افراد میں ذہنی صحت کو بدنامی کا داغ سمجھنا بھی اس مسئلے کی ایک وجہ ہے۔ ذہنی صحت کو بدنامی کا داغ سمجھنے کا رجحان عام ہے اور اس شعبے میں افرادی قوت کی کمی کے پیچھے بھی یہی رجحان کارفرما ہے۔
مختلف نظاموں کی سطح پر ذہنی صحت وسائل اور ریسرچ کی کمی کا شکار ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں قریب 5 کروڑ افراد ذہنی مسائل سے دوچار ہیں۔ 500 ماہر ذہنی امراض کی تعداد کو مدنظر رکھیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ایک لاکھ مریضوں کے لیے محض ایک ماہر دستیاب ہے۔
بچوں اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی ذہنی صحت کا حال اور بھی خراب ہے۔ اس وقت ہمارے پاس 5 سے 6 تربیت یافتہ بچوں کے ذہنی امراض کے ماہرین موجود ہیں اور صرف ایک ہی ٹریننگ پروگرام فعال ہے جبکہ دوسری طرف تربیت یافتہ دیکھ بھال کے مطلوب بچوں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔
اگر آپ کو یہ تعداد پریشان نہیں کررہی تو ان اعداد کو دگنا تگنا کرکے دیکھ لیجیے کیونکہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ذہنی پریشانی یا گھبراہٹ کے بڑھتے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
دنیا کے ہر کونے سے آنے والی رپورٹس کے مطابق ڈپریشن اور ذہنی بیماری کی علامات میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
برطانیہ میں موجود تشدد اور ذہنی صحت کے مسائل پر کام کرنے کرنے والے فلاحی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک دن میں ان کی ہیلپ لائن پر آنے والی فون کالز میں 700 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
اگر پاکستان میں اس قسم کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو ہم کس طرح اس سے نمٹیں گے؟ 2006ء میں پاکستان میں ذہنی امراض کا اقتصادی بوجھ 2 لاکھ 50 ہزار 483 روپے تھا کہ جس میں پہلے ہی تیزی پیدا ہوچکی ہے۔ اب جبکہ عالمی معیشت مندی کا شکار اور زوال پذیر ہے تو ایسے میں ہم ان مسائل سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
ماضی کی عالمی وباؤں کے مطالعوں کے مطابق کم آمدن والے افراد میں مابعد صدماتی تناؤ اور ڈپریشن کی علامات میں غیر معمولی اضافہ پایا گیا تھا کیونکہ ان پر عارضی بیروزگاری کے زبردست اثرات مرتب ہوئے تھے۔
کم از کم 38 فیصد پاکستانی کثیر الجہتی غربت میں زندگی گزارتے ہیں جبکہ ایک تہائی سے زائد پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یوں آبادی کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی صحت کے مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
بروقت انداز میں اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے کے لیے مناسب انتظامات اور طریقہ کار کی عدم موجودگی اور سر پر کھڑی آفت کے ساتھ اب ہمیں فوری لیکن درست اور مؤثر فیصلہ سازی کے ذریعے صورتحال کو بدتر ہونے سے بچانے کی کوشش کرنی ہوگی بجائے اس کے کہ ہم ریت میں اپنا سر چھپا کر بیٹھ جائیں۔
یہاں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے وائرس کی زد میں تو صرف تھوڑے ہی لوگ آئیں گے لیکن نفسیاتی اعتبار سے ہم سب اس سے متاثر ہوں گے۔ بیروزگاری کے بعد غیر یقینی کی صورتحال سے لے کر گھر پر پڑھائی تک اور پھر تنہائی، اکیلے پن سے لے کر تبدیل ہوچکی کام کی روٹین، گھریلو تشدد اور دوائیوں کے کثرت سے استعمال تک سب دراصل ذہنی مسائل اور صدماتی کیفیات کے اجزائے مرکبی ہیں۔
شعبہ صحت کے کارکن ان دیکھے دشمن سے لڑنے میں مصروف ہیں جو اب تک دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد افراد کی جانیں لے چکا ہے اور کسی بھی جنگ کی طرح اس لڑائی میں جہاں ایک طرف جانوں کا نقصان ہوگا وہیں کئی زندہ بچ جانے والے لوگوں کو ذہنی نقصان بھی اٹھانا ہوگا۔
مزید پڑھیے: اپنے پیاروں کو کھو دینے والے لاک ڈاؤن میں کس طرح اپنا غم ہلکا کر رہے ہیں؟
شعبہ صحت اور دیگر فرنٹ لائن کارکنان کی ہی طرح چھوٹے اور بڑے سربراہان بھی خطرے کی زد میں ہیں کیونکہ وہ دکانیں بند کرنے کے مشکل فیصلے لیتے ہیں جس کے باعث ملازمین اور گھرانوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے۔ کس کو وینٹی لیٹر دیا جائے یا کون اپنا روزگار بند کرے، یہ سارے مشکل فیصلے کرنے اور پھر بار بار یہ کام کرنے سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔
چنانچہ وبا کے اختتام پر ہماری دنیا کو بحال کرنے، اسے دوبارہ تخلیق اور تصور کرنے کے لیے جن افراد کی طرف ہم دیکھیں گے وہ بھی جذباتی تھکن سے گزرے ہوں گے اور اس حوالے سے انہیں مناسب مدد بھی نہیں ملی ہوگی۔
یہ تو واضح ہے کہ عالمی وبا کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی اثرات کا دار و مدار نظام میں پہلے سے موجود دراڑوں اور اس میں پائی جانے والی کمزوریوں پر ہوگا۔ ہمیں تربیت یافتہ افرادی قوت کی شدید قلت، ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نیم تربیت یافتہ پیشہ ورانہ افراد کی بڑھتی تعداد، اور آفات سے نمٹنے کے منظم نظام کی کمی اور ذہنی صحت کے قومی پلان کی عدم موجودگی کا سامنا ہے، مطلب یہ کہ ہمارے آگے ایک پہاڑ جیسا حل طلب مسئلہ کھڑا ہے۔
اب جبکہ ہم عالمی وبا سے متعلق تحقیق اور کلینکل ضروریات کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی سعی کر رہے ہیں ایسے میں یہ ضروری ہے کہ ہم اس ابھرتے خطرے کو نظر انداز نہ کریں جو کورونا وائرس کے ابھار سے کہیں بڑے نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمیں بلا تاخیر قلیل و طویل مدتی اقدامات کرنے ہوں گے اور انہیں پالیسی، ٹریننگ، ریسرچ اور سروس فراہمی جیسے معاملات میں بھی جگہ دینا ہوگی۔ پاکستان میں اگر کسی بحران کے آثار بہت پہلے ہی نمایاں تھے تو وہ یہی بحران ہے۔
ڈاکٹر عائشہ میاں آغا خان ہسپتال میں شعبہ ذہنی امراض میں بطور ایسی ایٹ پروفیسر ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔