• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سینیئر سیاستدان میر حاصل بزنجو انتقال کر گئے

شائع August 20, 2020 اپ ڈیٹ August 21, 2020
حاصل بزنجو پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے — فائل فوٹو
حاصل بزنجو پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے — فائل فوٹو

نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سینئر سیاستدان سینیٹر میر حاصل بزنجو کراچی میں انتقال کرگئے۔

حاصل بزنجو پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے سینیٹر حاصل بزنجو کی کراچی کے نجی ہسپتال میں انتقال کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ حاصل بزنجو کو طبیعت بگڑنے پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

تعزیتی پیغامات

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اپنے ٹوئٹ میں میر حاصل بزنجو کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حاصل بزنجو نے بلوچستان کے ممتاز سیاستدان کے طور پر اپنے صوبے کے عوام کی آواز اٹھائی جبکہ ترقی پسند اور حکمرانی پر مبنی سیاست کے لیے کھڑے رہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میر حاصل بزنجو کی وفات کو ملک، جمہوری قوتوں اور بلوچستان کے لیے بڑا نقصان قرار دیا۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'حاصل بزنجو آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے اور وہ بلوچستان میں ناانصافیوں کے خلاف مضبوط آواز تھے۔'

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹر کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا اور ان کے اہلخانہ اور دوستوں سے اظہار تعزیت کیا۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ٹوئٹر پر میر حاصل بزنجو کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور ان کی مغفرت و پسماندگان کو صبر جمیل کی دعا کی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (پی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی میر حاصل بزنجو کی وفات پر اظہار تعزیت کیا۔

مزید پڑھیں: حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ کیلئے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار نامزد

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی بلوچ سیاستدان کے انتقال پر دکھ و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ بہت بہادری سے سرطان جیسے مرض سے لڑے، ان کی عوامی زندگی ترقی پسند اور اصولی سیاست پر مبنی تھی جبکہ وہ کمزوروں کی آواز تھے، ان کے انتقال کے ساتھ ایک دور ختم ہوگیا۔'

میر حاصل بزنجو کا تعارف؟

بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل نال میں 3 فروری 1958 کو پیدا ہونے والے میر حاصل بزنجو، بلوچستان کے پہلے سیاسی گورنر اور بلوچ نظریات کے حامل میر غوث بخش بزنجو کے بیٹے تھے۔

انہوں نے 87-1986 میں کراچی یونیورسٹی سے فلسفے میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔

11 اگست 1989 کو اپنے والد کی وفات کے بعد میر حاصل بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی) میں شمولیت اختیار کی۔

میر حاصل بزنجو 1991 میں ضمنی الیکشن میں خضدار سے قومی اسمبلی کے حلقے 205 سے آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے، تاہم 1993 کے عام انتخابات میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ 1997 میں این اے 205 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 1998 میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو چھوڑ کر منحرف اراکین کے گروپ بلوچستان ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے۔

انہوں نے 2003 میں نئی سیاسی جماعت نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی، 2008 میں عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور 2009 میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔

حاصل بزنجو 2014 میں نیشنل پارٹی کے صدر بنے جبکہ 2015 میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد وفاقی وزیر برائے بندرگاہیں اور جہاز رانی مقرر ہوئے۔

انہوں نے 2018 میں عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میر حاصل بزنجو کا سیاسی سفر

انہیں 2019 میں اپوزیشن کی حکومت مخالف ’رہبر کمیٹی‘ نے چیئرمین سینیٹ کے لیے متفقہ طور پر امیدوار بھی نامزد کیا تھا۔

میر حاصل بزنجو کو پاکستانی سیاست میں اپنے غیر متزلزل جمہوری مؤقف کی وجہ سے نہایت عقیدت سے دیکھا جاتا تھا، مگر 2013 سے نئے چیلنجز کی وجہ سے ان کی پارٹی مشکلات کا شکار رہی ہے۔

وہ بلوچ عوام کے حقوق کے علمبردار تھے اور سمجھتے تھے کہ ریاست نے بلوچوں کو نظر انداز کیا ہے۔

ان کے مطابق بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال میں بیرونی طاقتیں ملوث ہیں اور ایک پارٹی اجلاس میں حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ بلوچستان عالمی سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے۔

سربراہ نیشنل پارٹی چاہتے تھے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کو بہتر انداز میں اور ملک کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے، جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف ان کا موقف بالکل واضح تھا کہ بلوچ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024