شائع September 19, 2020

تین مذاہب کی عبادتوں کا امین: گوڑی مندر

تحریر و تصاویر: راشد احمد

صحرائے تھر ایک عجوبہ ہے، ایسا عجوبہ جسے آپ جتنا مرضی جانتے ہوں، لیکن جونہی ہوا چلتی ہے، ریت سرکتی ہے تو دیکھنے کو کچھ نیا نکل آتا ہے۔ حتیٰ کے وہ مناظر جنہیں آپ نے دیکھ رکھا ہو وہ بھی ایک نئے روپ میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہوجاتے ہیں۔ سندھی میں کہتے ہیں کہ اگر بارش ہوجائے تو تھر ہے ورنہ بر۔

حقیقت یہ ہے کہ صحرا کی سیاحت اور اس میں موجود آثارِ قدیمہ کو دیکھنے کا صحیح لطف بارشوں کے موسم میں ہی آتا ہے۔ گیت گاتے اور چہچہاتے پپیہے، رقص کرتے مور، سحر زدہ کردینے والی شامیں، ریت کے اداس ٹیلے، بے ضرر لوگ، تاریخی مندر، قدیم مساجد، صدیوں پرانے تالاب اور کنویں جن کے کنارے بیٹھ کر صدیوں سے اچھے وقت کے انتظار میں بانسری بجاتے زمین زاد صحرائے تھر کی پہچان ہیں۔

ہم خوش قسمت رہے کہ ہمیں اگست میں تھر میں بارش نصیب ہوئی اور وہ بھی ایک ایسی تاریخی جگہ پر جسے تین مذاہب کے ماننے والوں کا مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

صحرائے تھر کسی زمانے میں جین مت کے ماننے والوں کا مرکز رہا ہے۔ نہ صرف مرکز بلکہ خوشحال مرکز جہاں آس پاس اور دُور دراز سے پجاری پوجا اور عبادت کے لیے کھینچے چلے آتے۔ یہاں ان کی عبادت کے لیے نہ صرف خوبصورت مندر موجود تھے، بلکہ رہائش کا بھی اعلیٰ انتظام موجود تھا۔ رہائشی کمرے مندر کے ساتھ ہی ملحق ہوتے تھے تاکہ تپسیا میں خلل نہ پڑے۔ مندر کے ساتھ ہی غسل وغیرہ کے لیے تالاب کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ تھر میں جین مت کے بہت سے مندر موجود ہیں۔ کچھ کے آثار باقی رہ گئے ہیں اور کچھ شکست و ریخت سے برسرِ پیکار ہیں۔

میرپور خاص سے مشرق کو جاتی سیدھی سڑک پر سفر کریں تو تقریباً 200 کلومیٹر کے بعد صحرا کے عین بیچوں بیچ ایک شہر ’اسلام کوٹ‘ آباد ہے۔ یہاں سے مشرق کی جانب سفر کریں تو تھر کول پراجیکٹ کے قوی ہیکل آثار سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی بڑے شہر کے صنعتی علاقہ میں سیر کررہے ہیں، لیکن اگر آپ اپنا سفر جاری رکھیں تو محض 50 کلومیٹر بعد آپ ایسے علاقہ میں ہوں گے جہاں ریت کے چٹیل میدان میں ہزار بارہ سو برس پرانا مندر آپ کو خوش آمدید کہے گا اور اس کی خوبصورت مگر شکستہ عمارت آپ کو ماضی کے جھروکوں سے گزرے وقت کی دھندلی سی تصویر پیش کرے گی۔

اگر آپ آثارِ قدیمہ کے دلدادہ ہیں تو آپ بیک وقت خوش بھی ہوں گے اور غمگین بھی۔ خوشی آپ کو اس بات پر ہوگی کہ تاحدِ نظر چہارسو پھیلی ریت میں آپ کو ایسی سندر اور تاریخی عمارت کا دیدار نصیب ہورہا ہے اور غم آپ کو اس علاقہ کی ویرانی اور عمارت کی شکستگی پر ہوگا۔ یہ مندر ’گوڑی جو مندر‘ کے نام سے معروف ہے جو مرکزی سڑک سے بائیں طرف کو مڑتی سڑک پر 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مرکزی راستے پر موجود بورڈ آپ کی رہنمائی کریں گے۔

مندر کی طرف رہنمائی کرتا بورڈ
مندر کی طرف رہنمائی کرتا بورڈ

مندر کا عقبی شکستہ حصہ
مندر کا عقبی شکستہ حصہ

ہم سرِ شام اسلام کوٹ سے مندر کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک گھنٹے میں مندر تک پہنچ جائیں گے، لیکن تھرکول کے نئے فیز کی وجہ سے راستہ بند تھا۔ متبادل راستہ بہت طویل تھا، چنانچہ جب ہم مندر کی دہلیز پر پہنچے تو سورج مغرب میں ڈبکی لگانے ہی والا تھا۔ لیکن ہماری ساری تھکن اور سفر کی کثافت عمارت کی خوبصورتی دیکھ کر ہی ہوا ہوگئی۔

مندر کے سامنے ایک مرجھائے ہوئے درخت کے نیچے چند مقامی فنکار شاہ لطیف کا کلام گارہے تھے۔ مندر کی دیکھ ریکھ کرنے والے کمزور سے بابا جی جو مقامی رہائشی ہیں انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور بطور پرساد ایک ایک ٹافی دی۔ وہ مندر جس کے متعلق لوک روایات ایک سے زیادہ اور متنازعہ ہیں، لیکن جو چیز غیر متنازعہ اور یقینی ہے وہ ہے اس مندر کا جادوئی حُسن۔ وہ حُسن جو صدیوں سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتا رہا ہے۔

بابا جی نے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ مندر پارس ناتھ نے بنوایا تھا اور یہ مدت مدید تک جین مت کے پجاریوں کا مندر رہا ہے۔ جین مت کے یہاں سے ختم ہونے کی وجہ سے بدھ مت کے پجاری یہاں عبادت کرتے رہے اور آج کل یہاں سناتن دھرم (موجودہ ہندومت) کے لوگ عبادت کرتے ہیں۔ بدھ مت کے متعلق تو بابا جی کی روایت کی تصدیق کرنا قدرے مشکل ہے، لیکن باقی دونوں مذاہب کے متعلق یہ بات تاریخی طور پر درست ہے۔

مندر کے موجودہ رکھوالے بزرگ
مندر کے موجودہ رکھوالے بزرگ

مندر کے باہر سر لگاتے مقامی لوک فنکار
مندر کے باہر سر لگاتے مقامی لوک فنکار

اگر تاریخی کتب کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ برہمنوں کی اجارہ داری کے خلاف جو توانا تحریکیں ابھریں ان میں جین مت اور بدھ مت بہت نمایاں تحریکیں تھیں جو آج بھی موجود ہیں۔

جین ازم کے کل 24 گرو گزرے ہیں جن میں سب سے نمایاں نام مہاویر کا ہے۔ مہاویر کے پیشرو ’پارس ناتھ‘ تھے جنہیں پارشوناتھ اور گوڑیچا بھی کہا جاتا ہے۔ گوڑی مندر اسی گوڑیچا کے نام سے موسوم ہے۔ اس مندر میں گوڑیچا کا مجسمہ بھی دھرا رہتا تھا جس کی عبادت کرنے دُور دراز سے لوگ یہاں آتے تھے، لیکن پھر یہ مجسمہ اس علاقہ کے حکمران نے اٹھوا لیا اور اسے دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا اور سال بعد ایک میلہ منعقد کرکے کمائی کی جاتی ہے۔ مذکورہ حکمران کی وفات کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور چونکہ اس کے علاوہ مجسمہ کا کسی کو علم نہیں تھا کہ اسے کہاں چھپایا گیا ہے اس لیے پھر وہ مجسمہ دفن ہوگیا اور آج تک اس کا نشان غائب ہے۔ مقامی لوگ ابھی تک یہ روایت اس مندر پر آنے والوں کو سناتے ہیں۔

کیپٹن اسٹینلے نیپئر ریکنز 1865ء میں تھرپارکر میں مجسٹریٹ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے واپس جاکر اپنی یاداشتیں Memoir on the Thurr and Parkur Districts of Sind کے نام سے تحریر کیں۔ اس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ

’گوڑی مندر میں پارس ناتھ کا مجمسہ دھرا رہتا تھا جو کہ ڈیرھ فٹ کا تھا۔ اسے پارکر کے لوگ گوڑیچا بھی کہتے تھے۔ اسی وجہ سے اس مندر کا نام گوڑی مندر پڑگیا۔ سوڈھا حکمران ستوجی نے اسے 1716ء میں یہاں سے غائب کیا تھا جو ویراواہ (مندر کے قریب آباد شہر جو، ابھی بھی آباد ہے) کے موجودہ حکمران لدھاجی کا پَردادا تھا۔ ستوجی اس مجسمہ کو ’باکھاسر‘ لے گیا۔ (باکھاسر موجودہ گجرات ہندوستان میں ہے) اور ہر سال ایک میلہ منعقد کیا جاتا تھا جس میں یہ مجسمہ رکھا جاتا تھا۔ اس میلے میں بھاری رقوم کے عوض اس مجسمہ کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ ایک عورت نے 9 ہزار روپے دے کر مجسمہ کی زیارت کی۔ اس کے بعد مختلف علاقوں میں ایسے میلے منعقد ہوتے جہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہنچ کر زیارت کرتے۔ ہندو بنیے بہت بڑی رقوم دے کر اس مجسمہ کی زیارت کرتے۔ 1832ء تک یہ میلے منعقد ہوتے رہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ وہ مجسمہ کہیں کھو گیا۔ جس حکمران کے پاس یہ مجسمہ تھا وہ اسے چھپانے کے لیے کہیں دفن کردیتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مجسمہ کہاں ہے، چنانچہ مجسمہ کھو گیا۔ اس مجسمہ کی گوڑی مندر آنے کی کہانی یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک ترک مسلمان تاجر کے پاس ایسے 3 مجسمے تھے جس میں سے ایک مجسمہ ’میجھا شا‘ نامی بنیے نے 1376ء میں ایک سو روپے کا خرید کر گوڑی مندر میں رکھوایا تھا۔‘

گوڑی مندر
گوڑی مندر

گوڑی مندر میں گوڑیچا کا مجسمہ بھی دھرا رہتا تھا جس کی عبادت کرنے دُور دراز سے لوگ یہاں آتے تھے
گوڑی مندر میں گوڑیچا کا مجسمہ بھی دھرا رہتا تھا جس کی عبادت کرنے دُور دراز سے لوگ یہاں آتے تھے

کیپٹن اسٹینلے کی اس روایت سے ایک بات تو بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ یہ پرانے مندروں کے آس پاس مدفون خزانوں کی جو کہانیاں ہیں ان میں کسی نہ کسی حد تک صداقت ضرور ہے کیونکہ لوگ دُور دراز سے یہاں آتے اور چڑھاوے چڑھاتے۔

گوڑی مندر کی عمارت کے پاس چند ایک سرنگوں کے آثار ابھی بھی باقی ہیں جن کے متعلق بعض روایات کے بقول دھن رکھا جاتا تھا۔ بعض لوک روایات کے بقول یہ سرنگیں ہندوستان تک جاتی تھیں اور بعض کے نزدیک یہ سرنگیں قریب ہی موجود شہر ویراواہ تک جاتی ہیں جہاں اس علاقے کا حکمران رہتا تھا۔ مؤخرالذکر روایت حقیقت سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے کیونکہ مجسمہ انہوں نے ہی یہاں سے اٹھایا تھا اور میلہ بھی وہی منعقد کرتے تھے۔

مندر کے باہر مبیّنہ سرنگ کا دہانہ
مندر کے باہر مبیّنہ سرنگ کا دہانہ

مندر کے باہر آویزاں بورڈ کے مطابق یہ مندر 1376ء میں تعمیر کیا گیا۔ یہ مندر سنگِ مرمر کے خوبصورت پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ روایات کے مطابق یہ پتھر جودھ پور سے لائے گئے۔ مندر کے شروع میں ایک بہت بڑا اور خوبصورت سنگِ مرمر کا بنا گنبد ہے جس کے اوپر مختلف قسم کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ یہ تصویری کہانیاں ہیں جن سے جین مت کی تعلیمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

مندر کے باہر لگا تعارفی بورڈ جس پہ سندھی اور انگریزی میں عبارت تحریر ہے
مندر کے باہر لگا تعارفی بورڈ جس پہ سندھی اور انگریزی میں عبارت تحریر ہے

گنبد میں کی گئی کشیدہ کاری
گنبد میں کی گئی کشیدہ کاری

مندر کے اندر کی رنگین کشیدہ  کاری
مندر کے اندر کی رنگین کشیدہ کاری

سنگِ مرمر سے تعمیر شدہ خوبصورت ستون
سنگِ مرمر سے تعمیر شدہ خوبصورت ستون

گنبد کے آس پاس کی دیواروں پر بھی اسی طرح کے نقوش ونگار ہیں۔ گنبد سے متصل ہی مسقف حصہ ہے۔ مسقف عمارت بھی گنبدوں سے تعمیر شدہ ہے۔ یہ ڈیزائن شاید صحرا کی گرمی کو مدِنظر رکھ کر بنایا گیا تاکہ عمارت تادیر ٹھندی رہے۔ مسقف عمارت کی تینوں اطراف چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جہاں پجاری پوجا پاٹھ کرتے تھے اور رہائش بھی رکھتے تھے۔

عمارت کو بہت سا نقصان بھی پہنچا ہے اور کچھ حصہ گرنے کے باوجود بھی عمارت کا حسن قائم و دائم ہے۔ اکثر کمرے اب بھی اصل حالت میں موجود ہیں گو ان میں اب چمگادڑوں کے ڈیرے ہیں۔ درمیان میں ایک گنبد کے اندر کچھ اگربتیاں روشن ہیں اور ہندوازم کے کچھ بتوں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ اس مندر کے موجودہ رکھوالے بھی ہندو مت سے تعلق رکھتے ہیں۔

رہائشی کمروں کے اوپری ستون
رہائشی کمروں کے اوپری ستون

صحرا میں ڈھلتی شام میں جب سورج بادلوں کی اوٹ میں کہیں غروب ہورہا تھا تو مندر کے سامنے درخت کے نیچے بیٹھے مقامی لوک فنکار شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام گارہے تھے۔ برکھا کی آمد آمد تھی۔ یہاں سے رخصت ہونے کا من نہیں کررہا تھا۔ دل کررہا تھا کہ تادیر اس عمارت اور اس کے فسوں کا نظارہ کیا جائے جو صدیوں سے یہاں موجود ہے۔ جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور ابد کے سفر پر روانہ ہوگئے، لیکن عمارت کی تازگی اور خوبصورتی میں فرق نہیں آیا۔ زمانے کی شکست وریخت جس کے حُسن کو گہنانے میں ناکام رہی۔

ہم روانہ ہونے لگے تو فنکاروں نے تان اٹھائی جس میں سسی کہہ رہی کہ ’اپنے محبوب کے قدموں میں گر کر اس کو کہوں گی کہ آج رات بھنبھور میں ہی رک جاؤ‘۔ یہ سن کر یوں لگا جیسے مندر کی عمارت ہمیں زبان حال سے یہی کہہ رہی ہو کہ آج کی رات گوڑی میں ہی رہ جائیں۔


راشد احمد تھر سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو ادب کے طالب علم ہیں۔

راشد احمد

راشد احمد تھر سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو ادب کے طالب علم ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: faroghayurdu@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (24) بند ہیں

kashif javed Sep 19, 2020 03:35pm
Very well written, great work.
خالد خان Sep 19, 2020 07:28pm
بہت خوب جناب
nasr bhatti Sep 19, 2020 10:04pm
Well written Rashid Sahib,very informative indeed.
اویس منیر احمد Sep 19, 2020 10:14pm
کمال تعارف پیش کیا ایک لمحے مجھے یہ محسوس ہوا کے میں تحریر نہیں بلکہ اس مندر کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں آنکھوں کے سامنے پوری فلم چلنے لگی اللہ کرے زور قلم اور زیادہ سلامت رہیں اور ہمیشہ اچھے لکھتے رہیں ۔۔
Muzaffar Ahmed Sep 19, 2020 10:31pm
بہت زبردست تحریر ہے اصل مزہ بھی تب ہے ایسی قدیمی آٽار کو دیکھنے کا جب ان کے متعلق پڑھنے کےلیے بھی وسیع مواد ہو واقعی صحرا اپنے اندر بہت بڑے راز سموئے ہوئے ہے
منظور مسرور Sep 19, 2020 10:34pm
بہت خوب۔ تاریخی اور معلوماتی مضمون۔ اللھم زد فزد و بارک
شبیراحمد Sep 19, 2020 10:35pm
ماشاءاللہ بہت عمدہ
m asif Sep 19, 2020 10:42pm
well done
مبارکہ منور Sep 19, 2020 11:16pm
بہت خوب قدیم تاریخی حقائق کو بتاریخ لکھنا اور ساتھ حوالے دینا بہت عرق ریزی کا کام ہے جس کے لئے بہت داد شیخ ایاز نے کہا تھا کہ "تھر فطرت کا میوزیم ہے" جن لوگوں نے یہ میوزیم دیکھا ہے وہی اس کے صحیح حسن کا ادراک رکھتے ہیں. مضمون میں شامل تصاویر بھی بہت کچھ بول رہی ہیں لیکن بارش کے بعد کے مناظر کا بیان، چراہ گاہوں میں چرتے مویشیوں کے ریوڑ اور ریوڑوں کے گلوں میں پڑی ٹلیاں ، اور شام ڈھلے بانسری کی پرسوسز مدھر آواز کا ذکر نہ ہونے پر کچھ تشنگی کا احساس رہا...
کرن ریاض Sep 20, 2020 01:47am
راشد بہت ہی خوبصورت تعارف کروایا۔کم ہی مضامین ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھ کر ایسے لگے کہ آپ لکھاری کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ سفر پر ہیں۔تصاویر نے لطف دوبالا کر دئیے۔دو ایک بار تو منہ سے ہائے ہائے بھی نکلا کہ کاش میں بھی دیکھتی۔بہت خوبصورت جگہ پر لکھا گیا بے حد عمدہ مضمون۔مبارک ہو❤
راشد Sep 20, 2020 06:34am
Thank You
راشد احمد Sep 20, 2020 06:35am
شکریہ دوستو. حوصلہ افزائی سے مزید لکھنے کا ایندھن مہیا ہوتا ہے.
Fazal Karim Sep 20, 2020 06:46am
If law and order was good, there will be rush of visitors.
Tahir Sep 20, 2020 07:21am
بہت عمدہ۔ کیوں کہ میں تھر دیکھ چکا ہوں اس لیے پڑھنے میں بہت مزا آیا۔ شکریہ
Ahmmad Sep 20, 2020 07:44am
Hi Rashid, You are having very good skills of writting. Keep it up MashaAllah. Masood baloch
احتشام ایوب Sep 20, 2020 12:14pm
ماشاءاللہ ۔ راشد صاحب نہایت اعلیٰ اور دلچسپ تحریر
Husain Qazi Sep 20, 2020 01:06pm
Who would not like to travel to this land after reading this spellbinding account of Gori Temple. I stayed at TharParkar for nearly a year back in 2002 and would request the writer to write on Shiv Temple (near Umerkot) as well.
Agnostic Sep 20, 2020 02:32pm
Very nice article. Government of Sindh should restore the temple and develop it as a tourist resort.
Zakir Ahmed Sep 20, 2020 02:44pm
ماشاءاللہ سر جی آپ کے چنیدہ خوبصورت الفاظوں اور آپ کی تحقیق نے مندر اور صحرا کو مزید خوبصورت بنادیا ہے۔ خدا سلامت رکھے اور ہمارے آباؤاجداد کی سرزمین کی خوبصورتی بیان کرنے کے لئے آپکو خدا توفیق اور حوصلہ عطا فرمائے آمین۔
مشہود احمد باجوہ Sep 20, 2020 09:30pm
ماشاءاللہ بہت خوب۔مزہ آ گیا
SM Nauman Jillani Sep 22, 2020 10:47am
great article enjoyed a lot by reading it.
عارف احمد Sep 22, 2020 03:37pm
ماشاءاللہ بہت زبردست تحریر ہے
زبیر Sep 27, 2020 10:32am
بہت اعلی۔
مرزا فرخ احمد Sep 27, 2020 10:35pm
MashaAllah Dear Rashid Sahib It's really wonderful and very informative article with unique descriptive details of every corner of this temple. You artistic talent portrays the scene through your lexical choice in the mind of reader. May you excel in this art of writing and in each phase of life, May you shine like the shining star, Ameen Suma Ameen Good luck and good wishes!