• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ٹرمپ نے جو بائیڈن کو اختیارات کی منتقلی کے آغاز کی اجازت دے دی

شائع November 24, 2020
ایسا صرف تب ہوگا جب 3 نومبر کے تصدیق شدہ انتخابی نتائج میں ان کے حریف جو بائیڈن کی جیت ظاہر ہو، ٹرمپ - فائل فوٹو:اے ایف پی
ایسا صرف تب ہوگا جب 3 نومبر کے تصدیق شدہ انتخابی نتائج میں ان کے حریف جو بائیڈن کی جیت ظاہر ہو، ٹرمپ - فائل فوٹو:اے ایف پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے اختیارات کے منتقلی کے عمل کو شروع کرنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کردی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا صرف تب ہوگا جب 3 نومبر کے تصدیق شدہ انتخابی نتائج میں ان کے حریف جو بائیڈن کی جیت ظاہر ہو۔

جو بائیڈن، جو ایک ڈیموکریٹ ہیں، کے پاس اب ٹرمپ کے 232 کے مقابلے میں 306 انتخابی ووٹ ہیں اور وہ اپنے ریپبلکن حریف سے تقریباً 6 لاکھ مقبول ووٹوں سے آگے ہیں۔

جو بائیڈن کے ٹرمپ کے 7 کروڑ 40 لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں تقریباً 8 کروڑ ووٹس ہیں۔

جو بائیڈن کے 8 کروڑ ووٹ صدارتی اُمیدوار کو ملنے والے اب تک کے سب سے زیادہ ووٹس ہیں جبکہ ٹرمپ کے 7 کروڑ 40 لاکھ ووٹس دوسرے نمبر پر ہیں۔

مزید پڑھیں: صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنی ہی وکیل سے اظہار لاتعلقی

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ملک کے بہترین مفاد میں، میں ایملی اور ان کی ٹیم کو تجویز کر رہا ہوں کہ وہ ابتدائی پروٹوکول کے حوالے سے جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے وہ کرے اور میں نے اپنی ٹیم کو بھی ایسا کرنے کو کہا ہے'۔

تاہم ٹرمپ کی جانب سے ابھی بھی باضابطہ طور پر اعتراف کرنا باقی ہے مگر جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن (جی ایس اے) کی سربراہی کرنے والی ایملی مرفی نے اگلا قدم اٹھایا اور اعلان کیا کہ وہ صدارت کی منتقلی کے آغاز کی اجازت دے رہی ہیں۔

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس اور دیگر وفاقی دفاتر چلانے کی ذمہ داریاں جی ایس اے کے پاس ہیں۔

ٹرمپ کی تعینات کردہ ایملی مرفی، نے اس سے قبل اس عمل کو روک دیا تھا تاہم اب انہوں نے بھی جو بائیڈن کو ایک خط بھیجا ہے جس میں انہیں فاتح تسلیم کیا گیا۔

اس سے جو بائیڈن کے لیے فنڈز، دفتر کی جگہ اور خفیہ بریفنگ تک رسائی کھل جاتی ہے اور وائٹ ہاؤس میں دوسری مدت کے لیے ٹرمپ کی کوشش کا خاتمہ ہوتا ہے۔

ایملی مرفی نے جو بائیڈن کو لکھے گئے خط میں کہا کہ 'براہ کرم جان لیں کہ میں نے قانون اور دستیاب حقائق کی بنا پر آزادانہ طور پر اپنا فیصلہ لیا ہے اور مجھ پر کبھی بھی کسی ایگزیکٹو برانچ کے عہدیدار نے براہ راست یا بالواسطہ دباؤ نہیں ڈالا بشمول وہ جو وائٹ ہاؤس میں ہیں یا جی ایس اے میں ہیں'۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد مشی گن ریاست کی تصدیق بھی سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ جو بائیڈن نے ایک لاکھ 50 ہزار ووٹوں سے فتح حاصل کرلی ہے۔

ہفتے کے روز پنسلوینیا میں ایک وفاقی جج نے ٹرمپ مہم کا مقدمہ ختم کردیا تھا جس میں اس ریاست کی سرٹیفکیشن کو روکنے کے لیے کوشش کی گئی تھی۔

چار اہم ریاستوں میں سے ایک اور جارجیا نے بھی سابق نائب صدر کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخلے کو یقینی بنانے کی تصدیق کردی ہے۔

جہاں ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں اصرار کیا کہ 'ہم لڑائی جاری رکھیں گے' وہیں سرکاری سرٹیفکیشن نے یہ واضح کردیا کہ ان کے پاس آپشنز ختم ہورہے ہیں۔

تکنیکی طور پر تصدیق سے قبل اعلان کردہ تمام نتائج میڈیا رپورٹس تھے اور قانونی طور پر پابند نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جو بائیڈن انتظامیہ میں انٹونی بلنکن کو بطور سیکریٹری خارجہ نامزد کیے جانے کا امکان

تاہم تصدیق شدہ نتائج سرکاری ہیں اور جب یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مصدقہ نتائج بھی جو بائیڈن کے حق میں ہیں تو ٹرمپ نے ہار مان لی۔

وائٹ ہاؤس کا قریب سے مشاہدہ کرنے والوں نے دیکھا کہ ٹرمپ کے اہلخانہ نے بھی ہفتے کے آخر میں واشنگٹن سے نکلنے کا آغاز کردیا ہے ٹرمپ کی صاحبزادی اور داماد جو ان کے مشیر بھی ہیں، دونوں نیو یارک چلے گئے ہیں۔

پیر کی رات سینیٹرز لامر الیگزنڈر اور بل کیسڈی نے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریپبلیکنز قانون سازوں میں شمولیت اختیار کی جو، جو بائیڈن کو صدر تسلیم کررہے ہیں حالانکہ چند اعلیٰ ری پبلیکنز اب بھی ٹرمپ کی جانب سے نتائج کو تسلیم کیے جانے کے منتظر ہیں۔

تاہم ٹرمپ کے حالیہ ٹوئٹ نے ان کے لیے اس مسئلے پر واضح مؤقف اختیار کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ 'جی ایس اے کو ڈیمز کے ساتھ ابتدائی طور پر کام کرنے کی اجازت دینے کا ہمارے مختلف مقدمات کی پیروی جاری رکھنے سے کیا تعلق ہے جو امریکی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ کرپٹ الیکشن کے لیے ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پوری رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں اور کبھی بھی جعلی رائے شماری کا اعتراف نہیں کریں گے'۔

امریکا میں قانون سازوں کو ہر دو سال بعد دوبارہ انتخابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ٹرمپ کے بہت بڑے ووٹ بینک کا مطلب ہے کہ آنے والے انتخابات میں انہیں ان کی حمایت کی ضرورت رہے گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024