کووڈ 19 کی نئی قسم پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے، ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کردیا
اسلام آباد: چین میں کووڈ 19 (کورونا وائرس) کے سامنے آنے کے ایک سال بعد وائرس نے اپنے خصوصیات تبدیل کرلی ہیں اور اس نے خود کو اس انداز میں ڈھال لیا ہے کہ اب یہ بڑے پیمانے پر خود کو منتقل کرسکتا ہے جس نے ماہرینِ صحت کے خدشات کو بڑھادیا ہے کہ اب یہ برطانیہ سے پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔
تاہم انہیں یقین ہے کہ حال ہی میں متعارف ہونے والی ویکسین نئی قسم کے خلاف مؤثر ہوگی کیونکہ اس میں سے زیادہ تر اسپائک پروٹین کو ہدف بناتی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ نئی قسم زیادہ منتقل ہونے والی ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ بہت خطرناک نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت قومی صحت کے ترجمان ساجد شاہ کا کہنا تھا کہ اب تک پاکستان میں کووڈ 19 کی نئی قسم کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ قومی ادارہ صحت نمونوں سے اس کی تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: ’حکومت کووڈ 19 ویکسین کے بڑے مینوفکچررز سے قریبی رابطے میں ہے‘
واضح رہے کہ برطانیہ میں سارس کوو- 2 (وی یو آئی 01/202012) کی نئی قسم کی تشخیص ہوئی تھی جو گزشتہ معلوم اقسام سے زیادہ تیزی سے منتقل ہونے والی ہے۔
اسی تناظر میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے برطانیہ سے فلائٹ آپریشن معطل کردیا تھا اور برطانیہ سے آنے والے مسافروں یا ان پاکستانیوں جو آنے والے دنوں میں آئیں گے ان کے لیے نئی گائیڈلائنز جاری کی تھیں۔
ادھر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسر کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم جو کووڈ 19 پر سائنٹیفک ٹاسک فورس کے رکن بھی ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ یہ مکمل میوٹیشن نہیں، لہٰذا اسے وائرس کی ایک قسم تصور کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وائرس نے ابتدائی طور پر جنوبی افریقہ میں تبدیل ہونا شروع کیا اور پھر یہ آسٹریلیا، اٹلی پہنچا اور بالآخر مکمل تبدیل ہوکر برطانیہ پہنچ گیا جس کی وجہ سے اس کی منتقلی 70 فیصد تک بڑھ گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کی نئی قسم کے باعث نوجوانوں کے اثر انداز ہونے کے خطرے میں بھی اضافہ ہوا جس کے باعث 10 سال اور اس سے زائد عمر کے بچوں میں انفیکشن کی شرح بھی بڑھ گئی۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ یہ وائرس 2020 میں بڑھ رہا ہے جبکہ 2021 میں یہ تباہی پھیلائے گا‘۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جیسا کہ یہ ابتدائی طور پر ووہان میں سامنے آیا تھا اور چین میں تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود یہ وائرس دنیا بھر میں پھیلا، اسی طرح نئی قسم بھی پھیلے گی چونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ نئی قسم پہلے ہی مختلف ممالک میں پہنچ چکی ہے کیونکہ برطانیہ ایک مصروف ترین مقام ہے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ غیر ضروری نقل و حمل، شادیوں میں شرکت، عوامی اجتماعات اور تقریبات میں شرکت سے گریز کریں کیونکہ یہ انفیکشن کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے، مزید یہ ہرڈ امیونٹی وائرس کے خلاف بہترین شیلڈ ہے اور یہ 70 فیصد آبادی کے ویکسینیٹڈ ہونے کے بعد حاصل کی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ویکسین مؤثر ہوگی اور پھر دوسری بنانے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ زیادہ تر ویکسین اسپائک پروٹین کے خلاف تیار کی گئی ہیں اور نئی قسم میں بھی یہ ہے۔
دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے ڈان کو بتایا کہ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سارس وائرس خود کو تبدیل کرتا رہتا ہے یہ یا تو کمزور ہوتا ہے یا مہلک ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی قسم کی منتقلی بڑھی ہے، پہلے یہ 3 فٹ کے فاصلے پر زمین پر آجاتا تھا اور اسی وجہ سے 6 فٹ کے فاصلے کی تجویز دی تھی تاہم مجھے ڈر ہے کہ نئی قسم 6 فٹ کے فاصلے تک سفر کرسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جارہا کہ دوسری لہر مزید مہلک ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ پاکستان میں، میں نے دیکھا ہے کہ متعدد ڈاکٹرز کورونا وائرس کا شکار ہوکر 3 سے 4 دن میں انتقال کرگئے، ہم 154 ڈاکٹرز کو کھو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی قسم کے بارے میں اب تک ہم کیا جان چکے ہیں؟
انہوں نے تجویز دی کہ وائرولوجی لیبس اور معتدری بیماریوں کے علاج کے لیے مخصوص ہسپتال تمام صوبوں میں قائم کرنے چاہئیں۔
علاوہ ازیں مائیکرو بائیولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید عثمان نے ڈان کو بتایا کہ ڈی آکسی بونیوکلک ایسڈ وائرس کے مقابلے میں ری بونیوکلک ایسڈ (آر این اے) وائرس میں میوٹیٹ ہونے کا رجحان 100 گناہ زیادہ پایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ کووڈ 19 بھی ایک آر این اے وائرس ہے، وہ خود سے تبدیل ہوگا، نئی تبدیلی نے اسے مزید منتقلی والا بنا دیا ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ خطرناک نہیں، میرا خیال ہے کہ ویکسین نئی قسم کے خلاف اتنی ہی مؤثر ہوگی جتنی وہ پرانی کے خلاف ہے، تاہم لوگوں کو نقل و حمل کم کرنی چاہیے اور رش والے مقامات پر جانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ وائرس کی پرورش کے مقامات ہیں۔
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت نے اپنے باضابطہ بیان میں کہا کہ ابتدائی تجزیے میں یہ اشارے ملے ہیں کہ نئی قسم کے لوگوں کے درمیان زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے، مزید یہ کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے تحقیق جاری ہے کہ آیا علامات کی شدت، اینٹی باڈی کے ردعمل یا ویکسین کی افادیت میں کوئی تبدیلی اس قسم سے منسلک ہے۔