• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:10pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:29pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:10pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:29pm

اسحٰق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس دائرہ اختیار سے باہر قرار

شائع November 22, 2022 اپ ڈیٹ November 23, 2022
احتساب عدالت نے کہا کہ  نئے ایکٹ کے تحت ہمارا دائرہ اختیار نہیں بنتا — فائل فوٹو: اے ایف پی
احتساب عدالت نے کہا کہ نئے ایکٹ کے تحت ہمارا دائرہ اختیار نہیں بنتا — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کا نیب ریفرنس دائرہ اختیار سے باہر قرار دے کر واپس قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیج دیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کے نیب ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سمیت دیگر تین ملزمان کی بریت کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔

احتساب عدالت نے کہا کہ نئے ایکٹ کے تحت ہمارا دائرہ اختیار نہیں بنتا اور ریفرنس نیب کو واپس بھیج دیا۔

ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضا رضوی نامزد تھے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

یاد رہے کہ نیب کی جانب سے اسحٰق ڈار سمیت دیگر ملزمان کے خلاف دسمبر 2017 میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

ریفرنس میں تفتیشی افسر سمیت 42 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے، وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کے تفتیشی افسر نادر عباس تھے۔

یاد رہے کہ اسحٰق ڈار اکتوبر 2017 میں علاج کے لیے اس وقت لندن چلے گئے تھے جب احتساب عدالت ان کے خلاف قومی احتساب بیوروکی جانب سے بدعنوانی کے ریفرنس کی سماعت کر رہی تھی۔

ان پر 83 کروڑ 17 لاکھ روپے کے اثاثے بنانے کا الزام تھا جو کہ نیب کی جانب سے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہے، انہیں 21 نومبر 2017 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مفرور قرار دیا تھا۔

اس سے قبل عدالت نے اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) والے اکاؤنٹ کے علاوہ ان کے دیگر اثاثوں، جائیدادوں، بینک اکاؤنٹس اور پاکستان اور بیرون ملک سرمایہ کاری کو منجمد کرنے کی توثیق کی تھی۔

انہیں 11 دسمبر 2017 کو ایک کھرب 20 ارب روپے مالیت کے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں بھی مفرور قرار دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ 23 ستمبر 2022 کو احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دینے کے حوالے سے مقدمے میں درخواست منظور کرتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کر دیے اور انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

وکیل نے اسحٰق ڈار کو گرفتار کرنے سے روکنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے مؤکل ایئرپورٹ سے سیدھا عدالت آئیں گے، لہٰذا ان کی گرفتاری سے نیب کو روکا جائے۔

بعدازں، 26 ستمبر 2022 کو اسحٰق ڈار 5 سال کے بعد لندن سے واپس پاکستان پہنچ گئے تھے۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 13 نومبر 2024
کارٹون : 12 نومبر 2024