وزیراعظم، وزیراعلیٰ کو قومی فیصلوں پر حاصل استثنیٰ افواج کو کیسے دیا جاسکتا ہے؟ جسٹس منصور شاہ

شائع December 14, 2022 اپ ڈیٹ December 15, 2022
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پی ٹی آئی  اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پی ٹی آئی اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ کو قومی فیصلوں پر احتساب سے حاصل استثنی افواج کو کیسے دیا جاسکتا ہے؟

‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر ‏چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے لوگ قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے ہیں، کسی حلقے کو غیر نمائندہ اور اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا ہے, وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں تاہم سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر دیگر استعفے منظور نہیں کر رہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہوگا فیصلے پر اعتراض کر دے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر اسپیکر کو 4 دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی تیار ہے؟ وکیل عمران خان نے کہا کہ عدالت ایسا حکم جاری کرتی ہے تو اس کے لیے مکمل تیار ہیں، سیاسی سوالات کا قانونی جواب نہیں دیا جاسکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا تھا کہ اگر قانون کے مطابق چلوں تو ہی میرا ساتھ دیا جائے، وکیل عمران خان نے کہا کہ نبی کریمؐ کا بھی ارشاد ہے کہ حکمراں کی اطاعت کرو جب تک وہ گناہوں کو عام نہ کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، امر بالمعروف و ونہی عن المنکر اسلام کا بنیادی اصول ہے، غلط کام کو غلط اس وقت ہی کہا جاسکتا ہے جب وہاں موجود ہوا جائے، اسمبلی جانا یا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے، اداروں کو فعال کرنا ہوگا، پارلیمان ایک بنیادی ادارہ ہے، بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی یہ بھی سوال ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی میں عوام اعتماد کرکے بھیجتے ہیں، اسمبلی اسی صورت چھوڑی جاسکتی ہے جب رکن جسمانی طور پر جانے کے قابل نہ رہے، ارکان اسمبلی کو اپنی آواز ایوان میں اٹھانی چاہیے۔

انہوں نے کہا یہ پی ٹی آئی کا جانبدار نقطہ نظر ہے کہ اسمبلی نامکمل ہے، زبانی باتیں نہ کریں، اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا یہ تمام سیاسی بحث ہے جس کو سیاسی مقام پر ہونا چاہیے، جب عوامی مفاد کی بات ہو تو پی ٹی آئی کا اسمبلی میں نہ ہونے کا سوال غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ استعفوں کا سوال سیاسی نہیں آئینی ہے، استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی کی درخواستوں سے متعلق کئی درخواستیں زیر التوا ہیں، سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے افواج پاکستان کے نیب کی دسترس سے باہر ہونے کے سوالات پر دلائل دیے، خواجہ حارث نے کہا کہ افواج پاکستان مکمل طور پر نیب کی دسترس سے باہر نہیں، نیب آرمی افسران کا احتساب دوران سروس نہیں کر سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آرمی افسران اگر دوران سروس کسی وفاقی یا صوبائی ادارے میں تعینات ہو تو کیا اس کا احتساب ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرمی افسران پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، نیب قانون نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی افسران سروس میں جو بھی کریں، اس کا احتساب ریٹائرمنٹ کے بعد ہو سکتا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرمی افسران کو قومی سلامتی کے تحت دوران سروس نیب قانون سے تحفظ دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو قومی فیصلوں پر احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کو کیسے دیا جاسکتا ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت مانے یا نہ مانے آرمی افسران کو تحفظ دینا ہی پارلیمنٹ کی منطق ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں افواج کو یہ استثنیٰ حاصل ہے جو پاکستان میں ہے؟ سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر معمور ہیں، انہیں نیب قانون میں استثنیٰ کیوں نہیں دیا گیا؟ اگر آرمی افسر کرپشن کر رہا ہے تو چالیس سال انتظار کریں کہ ریٹائر ہو تو احتساب کیا جائے گا؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرمی افسران کمیشن حاصل کرنے کے بعد صرف 18 سال سروس میں رہتے ہیں، افواج پاکستان کا اندرونی کنٹرول، منیجمنٹ اور احتساب کا طریقہ کار ہے، آرمی میں ہونے والی سزائیں بھی عام سزاؤں سے سخت ہوتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے، آئندہ سماعت پر حکومت کے وکیل مخدوم علی خان دلائل کا آغاز کریں گے۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم

یاد رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 2 اکتوبر 2024
کارٹون : 1 اکتوبر 2024